تازہ ترین

دنیا بھر میں شدت اختیار کرتے آبی مسائل

dunya bhar main shiddat ikhtiyar kerte aabi masael
  • واضح رہے
  • جون 11, 2021
  • 9:18 شام

پاکستان کا شمار اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ہونے والے 17 ممالک میں ہوتا ہے

پانی اللہ تعالیٰ کی وہ انمول نعمت ہے کہ جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ کرہ ارض کا دو تہائی پانی پر مشتمل تو ہے مگر تازہ پانی، جو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے ناگزیر ہے کے ذخائر اس دو تہائی کا محض ایک فیصد ہیں۔ باقی سمندری پانی ہے۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پانی کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔

ورلڈ واٹر کونسل کے مطابق ہر بیس سال کے بعد پانی طلب دگنی ہو جاتی ہے مگر آبی ذخائر میں بجائے اضافے کے کمی واقع ہو رہی ہے۔ طلب و رسد میں اسی فرق کے باعث قلت آب سنگین عالمی مسئلے کی صورت اختیار کر گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دو ارب اسی کروڑ انسان قلت آب کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ارب بیس کروڑ کو پیاس بجھانے کیلئے صاف پانی میسر نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی پیش گوئی ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو 2025 تک 2 ارب نفوس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مناسب پانی دستیاب نہیں ہو گا۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی گیارہ ارب بیس کروڑ تک پہنچ جائے گی، جو اس وقت پونے 8 ارب ہے۔ تاہم صدی کے اختتام سے قبل ہی پانی کی دستیابی کے حوالے سے صورتحال ہولناک رُخ اختیار کر چکی ہو گی۔

ورلڈ واٹر کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025 تک تازہ پانی کی طلب 56 فیصد بڑھ جائے گی۔ اقوام متحدہ کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق کرہ ارض پر 1.4 ارب مکعب کلومیٹر پانی موجود ہے۔ اس میں سے انسانی استعمال کیلئے دستیاب تازہ پانی کے ذخائر محض دو لاکھ مکعب کلو میٹر ہیں۔ ہر چھ میں سے ایک انسان کو قلت آب کا سامنا ہے یعنی اسے اپنی ضروریات کی تکمیل اور پینے کیلئے پانی دستیاب نہیں۔

dunya bhar main shiddat ikhtiyar kerte aabi masael

دنیا میں 1.1 ارب نفوس کو پینے کا پانی میسر نہیں اور یہ تمام انسان ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ عالمی ادارے کے مطابق ایک خطے یا ملک کو اس وقت قلت آب کا شکار سمجھا جاتا ہے جب وہاں پانی کی سالانہ رسد 700 مکعب لیٹر فی کس سے کم ہو۔ ترقی پذیر دنیا کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض علاقوں میں پانی کی دستیابی اس پیمانے سے کم ہے۔

کئی عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا آبی وسائل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ایک ارب کروڑ 20 انسانوں کو پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں۔ ڈھائی ارب انسانی کو صحت گاری اور کچرے اور گندے پانی کی نکاسی کی سہولیات دستیاب نہیں۔ ان کی عدم دستیابی اکثر اوقات پانی کو آلودہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔

زیر زمین پانی کا کثرت سے اور بلاوقفہ استعمال زرعی پیداوار میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔ پانی کا کثرت سے استعمال اور آبی ذرائع کی آلودگی حیاتیاتی تنوع کو متاثر کر رہی ہے۔ صحت گاری اور نکاسی آب کی مناسب سہولیات کا نہ ہونا اموات میں اضافے کا اہم سبب ہے۔ بالخصوص شیر خوار بچوں کی شرح اموات کی وجہ آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں۔

ورلڈ بینک کے مطابق آلودہ پانی سے پھیلنے والے 88 فیصد امراض غیر محفوظ پینے کے پانی صحت گاری اور نکاسی آب ناکافی سہولتوں کے باعث پھیلتے ہیں۔ قلت آب کے باعث کئی ممالک جو گندم کی پیداوار میں خودکفیل تھے اب یہ جنس درآمد کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بالخصوص چھوٹے ممالک پر عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے گندم اور دوسرا غذائی اجناس درآمد کرنے کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی گندم درآمد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چین، امریکا، بھارت، ایران، پاکستان اور میکسیکو سمیت کئی ممالک میں ٹیوب ویلز کے وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے زیر زمین سطح آب گرتی جا رہی ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں ایک درجہ سیلسئیس کا اضافہ پانچ کروڑ افراد کو پانی کی رسد سے محروم کر دے گا کیونکہ درجہ حرارت بڑھنے سے چھوٹے گلیشیئر پگھل جائیں گے۔ دنیا کا درجہ حرارت پانچ درجہ بڑھنے پر کوہ ہمالیہ گلیشیئرز سے پاک ہو جائے گا جس کے نتیجے میں چین، بھارت اور پاکستان کے کروڑوں افراد متاثر ہوں گے جہاں قلت آب پہلے ہی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔

اسی طرح پانی کا کثرت سے استعمال یا ضیاع جو قلت آب کا سبب بنتا ہے ماحول کو کئی طرح سے متاثر کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے زیر زمین نمکیات کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں زمین کاشت کے قابل نہیں رہتی پچھلے سو سال کے دوران سطح زمین سے نصف سے زائد دلدلی علاقے غائب ہو گئے ہیں یا پھر تباہ ہو گئے ہیں۔

یہ دلدلی علاقے نہ صرف مختلف جانوروں، پرندوں اور آبی حیات کا مسکن ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ چاول اور دیگر غذائی اجناس کی کاشت کو بھی سہارا دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں طوفان اور سیلابوں سے بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ قلت آب نے تازہ پانی کی جھیلوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

dunya bhar main shiddat ikhtiyar kerte aabi masael

مثلاً وسطیٰ ایشیا میں واقع بحیرہ ارال دنیا میں میٹھے پانی کی چوتھی بڑی جھیل تھی، تین عشروں کے دوران اس کا 58000 مربع کلو میٹر سے زائد رقبہ تھور زدہ زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔

پانی کی عدم یا جزوی دستیابی غربت میں اضافے کا اہم سبب ہے۔ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پانی کی دستیابی کی صورتحال غریب ملکوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ افریقہ سمیت کئی خطے ایسے ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد محض اس لیے عسرت زدہ حالت میں جینے پر مجبور ہے کہ وہاں زراعت کیلئے پانی موجود نہیں ہے۔ اگر ان علاقوں میں پانی میسر آجائے تو زمین پر فصلیں لہلہا اٹھیں گی۔ نتیجتاً روزگار میسر آئے گا اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہو گی۔

پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر شاندار قدرتی خزانوں کی ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالامال ہے۔ اگر انہیں بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا۔ اس وقت پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی دستیابی کا معاملہ بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد شہری آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں بسنے والے بیاسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔

غیر سرکاری تنظیم جناح انسٹی ٹیوٹ نے 2014 میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس کے مطابق قیام پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کیلئے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو گزرتے وقت کے ساتھ کم ہو کر 2011 تک ایک ہزار 394 مکعب میٹر فی کس رہ گیا اور اب میں بعض ماہرین اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی کم ہوتے ہوتے ایک ہزار مکعب میٹر رہ گئی ہے اور یہ صورتحال دہشت گردی سے زیادہ خطرناک بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

صوبہ سندھ کے 12 لاکھ سے زائد آبادی والے صحرائی علاقے تھرپارکر میں زندگی کا تمام تر انحصار مون سون میں ہونے والی بارش کے پانی پر ہوتا ہے، کیونکہ یہاں قلت آب کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کبھی بھی حکومتی سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ہونے والے 17 ملکوں میں ہوتا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے سبب پاکستان اپنے آبی وسائل کا 90 فیصد زرعی مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاﺅں کے بہاﺅ میں مسلسل کمی آرہی ہے جبکہ ہمارے پانی کا بڑا حصہ عمر رسیدہ اور بوسیدہ نہری نظام کی وجہ سے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ عوام میں پانی کی اہمیت اور اس کے کفایتی استعمال کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

رپورٹ: زبیر شفیع ملک

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے