تازہ ترین

ذیابطیس کے مریضوں کیساتھ ”شوگر فری“ غذا کا فراڈ

diabetes patients ke sath sugar free ghiza ka fraud
  • واضح رہے
  • اپریل 3, 2021
  • 9:43 شام

دنیا بھر میں ڈائبیٹک فوڈ کے نام پر سالانہ 11 ارب ڈالر کا دھوکہ کیا جارہا ہے۔ شوگر فری پروڈکٹس پر اضافی رقم بٹوری جاتی ہے

مختلف فوڈ کمپنیاں ذیابطیس کے مریضوں سے سالانہ 11 ارب ڈالر (جو تقریباً ایک ہزار 727 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں) بٹور لیتی ہیں۔ یہ اس رقم کے علاوہ ہے جو یہ مریض ادویات پر خرچ کرتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے مریضوں کی ہے جو ذیابطیس کی تشخیص کے لیے ٹارگٹ ویلیوز نیچے لائے جانے کے سبب اس زمرے میں شامل ہوئی۔

اگرچہ کہ امریکن کالج آف فزیشن کی جانب سے مارچ 2018ء سے اعلان کیا جا چکا ہے کہ 250 یا اس سے نیچے گلوکوز کی سطح رکھنے والوں کو ذیابطیس کا مریض نہیں قرار دیا جا سکتا۔ تاہم لاکھوں افراد اس اعلان سے لاعلم ہیں۔

ذیابطیس کے مریضوں کی خاصی بڑی تعداد مخصوص غذائی اشیا استعمال کرتی ہے، جنہیں ”ڈائبیٹک فوڈز“ کہا جاتا ہے۔ ایسی اشیا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں نام نہاد شوگر فری آئس کریم اور دیگر ڈیری مصنوعات، اسی طرح شوگر فری بسکٹ، شوگر فری کولڈ ڈرنکس اور حتیٰ کہ چینی بھی شامل ہے۔

مختلف کمپنیوں کی اشتہار بازی کے نتیجے میں ذیابطیس کے مریضوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے غلط تصورات میں سب سے خطرناک یہ ہے کہ اگر وہ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے تیار کی گئی مخصوص خوراک بالخصوص مخصوص میٹھی اشیا استعمال کرتے رہیں تو انہیں کوئی خطرہ نہیں۔

ایسی اشیا میں کم کلوریز والے سوئیٹنرز (Sweeteners) سرفہرست ہیں۔ جہاں عام میٹھے میں کلوریز موجود ہوتی ہیں اور خون میں گلوکوز کی سطح بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ وہیں یہ سوئیٹنرز خون میں شوگر کی سطح نہیں بڑھاتے۔ اگرچہ یہ سوئیٹنر بذات خود نقصان دہ نہیں۔ لیکن ان کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمی سے مریضوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

سوئٹنر جس خوراک میں ڈالے جاتے ہیں۔ اس میں اس کی اپنی مٹھاس موجود ہوتی ہے۔ لیکن اشتہار بازی کے زیر اثر ذیابطیس کا مریض یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ چونکہ اس نے خوراک (چائے وغیرہ) میں چینی نہیں ڈالی۔ لہذا وہ بے دھڑک یہ خوراک کھا یا پی سکتا ہے۔

اس طرح مریض غلط فہمی کے زیر اثر پرہیز چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ”ڈائیبیٹک یوکے“ کے مطابق مریضوں کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی خوراک متوازن ہونی چاہیے اور اگر سوئیٹنر ڈالنے کے باوجود ان کی خوراک میں بہت زیادہ کلوریز موجود ہیں تو انہیں فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔

 

diabetes patients ke sath sugar free ghiza ka fraud

اس تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسری جانب ذیابطیس کے مریضوں کو یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ ان کے لیے میٹھا کھانے پر مکمل پابندی نہیں۔ بلکہ اصل بات خوراک کو متوازن رکھنا ہے۔ یہ توازن وہ ڈائبیٹک فوڈ کو استعمال کیے بغیر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

ذیابطیس کے مریضوں کیلئے ”مفید“ یا ”شوگر فری“ کے لیبل بعض اوقات گمراہ کن انداز میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ڈائبیٹک یوکے کے مطابق اکثر یہ لیبل ایسی اشیا پر چسپاں ہوتے ہیں جو واضح طور پر میٹھی ہوتی ہیں۔ جیساکہ بسکٹ یا چاکلیٹ۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اشیا اب ماضی کا قصہ بن جانی چاہیئں۔ کیونکہ تیار کنندگان کی جانب سے کسی چیز پر”ذیابطیس کے مریضوں کے لیے موزوں“ لکھ دینے سے وہ چیز ان کے لیے مفید نہیں بن جاتی۔

ذیابطیس کے مریضوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی ایسی اشیا کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ عام خوراک کی نسبت مہنگی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں عام بسکٹ کا جو ڈبہ 30 سے 40 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ وہی ڈبہ شوگر فری ہونے کی بنا پر 60 سے 80 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

چونکہ ”ذیابطیس کے مریضوں کے لیے“ تیار کی گئی مخصوص اشیا من مانی قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔ لہٰذا ان پر منافع کی شرح دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے۔ اشتہار بازی کے سبب ان کی فروخت کا دائرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ 2019ء میں ڈائبیٹک مصنوعات کی مارکیٹ 10 اعشاریہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

2020ء میں یہ 11 ارب ڈالر پر پہنچ گئی۔ ڈائبیٹک مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنیوں میں ڈیوڈ چیپمئن آئس کریم، ففٹی ففٹی فوڈ، نیسلے، یونی لیور، مارس انکارپوریٹڈ، کوکا کولا کمپنی، پیپسی کو، کیلوگ، کیڈبری اور زین ہیلتھ جاپان شامل ہیں۔

مشروبات ساز کمپنیوں نے شوگر فری کولڈ ڈرنکس کے بعد اب پروٹین شیکس اور فنکشنل واٹر جیسی مصنوعات کے ذریعے بھی ایسے لوگوں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے، جو اپنی صحت کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ فکر مند اور محتاط رہتے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے