تازہ ترین

کورونا اور پولیو کا دیگر جان لیوا بیماریوں سے تقابلی جائزہ

corona aur polio ka deegar jaan leva bemariyon se taqabulli jaeza
  • واضح رہے
  • مئی 28, 2021
  • 11:23 شام

پاکستان میں ملیریا، ڈائریا سے سالانہ 4 لاکھ بچے پیدائش کے چند ماہ بعد ہی چل بستے ہیں۔ جبکہ اب بچوں میں کارڈک بیماریاں بھی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہیں

پاکستان میں ہیپٹائٹس بی اور سی سمیت ملیریا، ڈائریا، ہیضہ، نمونیا، ڈینگی وائرس اور بچوں میں سانس کے امراض کا تناسب کورونا وائرس اور پولہو سے کئی گنا زیادہ ہے۔ وطن عزیز ابھی ان دیرینہ امراض کے چنگل سے ہی نہیں نکل سکا ہے کہ عالمی ادارہ صحت، امریکہ اور پاکستانی حکومتوں کو نئی بیماریوں کے حملہ آور رہنے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر جس طرح سے کورونا ویکسی نیشن پر زور دیا جارہا ہے، اسے بیشتر لوگوں کا ذہن قبول نہیں کر پا رہا۔

پاکستان میں آج کی تاریخ تک کورونا وائرس کے 9 لاکھ 13 ہزار 784 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو ملکی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ملک میں کورونا کے فعال کیسز کی تعداد 59 ہزار 18 ہے۔ اب تک کورونا سے 8 لاکھ 31 ہزار 744 افراد صحتیاب ہو چکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 20 ہزار 607 افراد کورونا کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

اس کے برعکس ڈاکٹروں کو محض ابتدائی ایمرجنسی ادویات برائے اطفال کے متعلق خاطر خواہ تربیت نہ دیئے جانے سے دس فیصد بچے پانچ برس کی عمر سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنی 2011ء کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں ہر ایک منٹ کے اندر ایک بچہ موت کی نذر ہو جاتا ہے۔

بچوں میں شرح اموات کی اتنی بلند سطح کا سبب اسہال اور سانس کے امراض کو بتایا گیا ہے۔

اسی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ ملیریا، ہیپاٹائٹس اور ڈائریا کے سبب پاکستان میں سالانہ اوسطاً چار لاکھ بچے اپنی پہلی سالگرہ سے قبل ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور ہر تیس میں سے ایک بچہ پیدائش کے فوری بعد ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ اب بچوں میں پیدائش سے لے کر بلوغت تک دل کی مختلف بیماریاں (چائلڈ کارڈیک) پائی جا رہی ہیں۔ مثلاً موجودہ دور میں نومولود بچے کو بھی ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے، جو اس کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو دل کی شریان بند ہونے سمیت متعدد جان لیوا مسائل کا سامنا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بڑے شہروں میں چائلڈ کارڈیو اسپتالوں کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

مذکورہ بالا رپورٹ میں بچوں کی جان لیوا بیماریوں کی جو فہرست شائع کی گئی ہے، ان میں سانس کی بیماریاں ہیپاٹائٹس، ملیریا، اسہال کے علاوہ آنتوں کی سوزش، تھائی رائیڈ اور ٹی بی بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمہ داری سرکاری سہولیات کی عدم دستیابی اور ابتر معاشرتی ماحول ہے۔

مثال کے طور پر اسہال یا ہیضے کی بیماری کی بنیادی وجہ آلودہ پانی ہے۔ اس طرح ملیریا جیسی بیماری گندگی پر پیدا ہونے والے مچھروں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچی آبادیوں میں رہنے والے اور کم آمدنی والے شہری ان بیماریوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ادھر وائرل ہیپاٹائٹس بالخصوص ٹائپ بی اور سی پاکستان میں ایک وبائی صورت اختیار کر چکا ہے۔

پاکستان میں تقریباً 12 ملین افراد بی یا سی ٹائپ کے ہیپاٹائٹس سے متاثر نظر آتے ہیں، جو کُل آبادی کا 5 فیصد بنتے ہیں۔ ماہرین امراض جگر کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ کیسز پاکستان میں ہیں، ہیپاٹائٹس کے باعث ہونے والی اموات کی شرح کورونا وائرس کی اموات کی شرح سے کہیں زیادہ ہے، ہر سال ہیپاٹائٹس سی سے 3 لاکھ افراد مر جاتے ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس سی قابل علاج مرض ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کا تناسب 5 فیصد ہے، ہیپاٹائٹس بی کا تناسب 2.5 فیصد ہے، اگر ملکی آبادی 20 کروڑ ہے تو ڈیڑھ کروڑ آبادی بی اور سی سے متاثر ہے۔

تیسری بڑی بیماری جو کہ بچوں میں عام پائی جاتی ہے، وہ ہیضہ ہے۔ پینے کا آلودہ پانی اس بیماری کی بنیادی وجہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہیضہ کے مریضوں میں 20 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ واضح رہے کہ ہیضہ بہت خطرناک مرض ہے اور بعض اوقات دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں میں انسان کی جان لے سکتا ہے۔ متعدی وبائی مرض ہے جو ایک جرثومہ یا بیکٹیریا سے پیدا ہوتا ہے جسے ویبریو کولیرائی کہتے ہیں۔

یہ بیکٹیریا معدہ اور آنتوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہیضہ آنتوں کا وبائی مرض ہے جو ایک وبریو کلورے نامی جراثیم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس مرض کی اہم علامات میں اسہال اور قے ہیں۔ ہیضہ کی ترسیل آلودہ کھانے یا پینے کے پانی کے استعمال سے واقع ہوتی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سمیت کسی بھی تحقیقی ادارے نے پولیو کو پاکستان میں مہلک امراض برائے اطفال کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔ بذات خود عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1988ء سے پولیو کے کیسز میں عالمی سطح پر 99.99 فیصد کمی آ چکی ہے۔ 2020ء میں پاکستان میں پولیو کے 84 کیس رپورٹ ہوئے، جو اس سے قبل 2019ء میں 147 تھے اور ان میں 43 فیصد کمی ہوئی۔ دیکھا جائے تو ملک میں پولیو کے کیسز چند سو بھی نہیں ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں بچوں میں سانس کے امراض کا تناسب 51 فیصد ہے۔ 2006ء میں اس سلسلے میں 16,056,000 کیسز سامنے آئے تھے، جن میں سے 25.6 فیصد کیسز میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اسی طرح ملیریا کا تناسب 16 فیصد، اسہال یا ہیضے کا تناسب 15 فیصد ہے۔ اسی طرح بچوں کی دیگر مہلک بیماریوں کا تناسب 7 یا 8 فیصد بنتا ہے، جن میں آنتوں کی سوزش اور ٹی بی وغیرہ شامل ہیں۔

اب نمونیا کی بات کرتے ہیں۔ بچوں کی صحت اور بیماریوں سے اموات پر ریسرچ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم “چائلڈ لائف فاؤنڈیشن” کے 2019ءمیں جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ 92 ہزار بچے نمونیا سے مر جاتے ہیں۔ 2018ءمیں 5 برس سے کم عمر کے 72 ہزار بچے نمونیا کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

ایک جانب تو بچوں میں مذکورہ بالا جان لیوا بیماریوں کا تناسب ہوش ربا ہے اور دوسری جانب 22 کروڑ کی آبادی میں کورونا وائرس اور پولیو کے کیسز ملا کر ایک فیصد بھی نہیں۔ اس تناسب کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت، امرےکہ اور پاکستانی حکومتوں نے جس انداز سے خطیر رقوم خرچ کر کے دیگر بیماریوں کو نظر انداز کرکے محض پولیو مہم اور اب کورونا وائرس پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، اس سے عوام الناس میں کئی شبہات جنم لے رہے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے