تازہ ترین

چائے پیتے پیتے یہ دلچسپ معلومات بھی پڑھتے جائیں!

chai peete peete ye dilchasp maloomat bhi parrthe jaen
  • واضح رہے
  • جولائی 30, 2021
  • 11:20 شام

چائے نوشی کا آغاز 5 ہزار برس قبل چین میں ہوا، جبکہ دودھ شکر والی چائے کا رواج قبلائی خان نے شروع کیا

چائے دنیا بھر میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والی مشروب ہے۔ سرد و گرم، خشک و مرطوب ہر خطے کے لوگ چائے کی کسی نہ کسی قسم کے گرویدہ ہیں۔

ہم تاریخ کے حوالے سے چائے نوشی اور اس کی کاشت کی ابتدا، اقسام، اس سے منسوب مذہبی و معاشرتی روایات، پیداواری خطے اور مقامی طور پر مقبولیت سمیت دیگر پہلو اس خصوصی رپورٹ میں آپ کے سامنے لا رہے ہیں۔

چائے کی تاریخ

چائے کی بطور مشروب دریافت، تقریباً پانچ ہزار برس قبل چین کے شہنشاہ شین نونگ دوئم کے دور میں ہوئی، جو 2737 قبل مسیح سے 2697 قبل مسیح پر محیط تھا۔ اس کا سہرا اس عہد کے بودھ راہبوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس کا استعمال چستی اور توانائی لانے والے ٹانک کے طور پر شروع کیا۔

اس سے پہلے چائے کے پودے کو محض ایک سدا بہار جنگلی جھاڑی سمجھا جاتا تھا اور اس کی باقاعدہ کاشت نہیں ہوتی تھی۔ بودھ مت میں چائے کے پودے کے بارے میں روایت پائی جاتی ہے کہ، مہاتما بودھ کے ایک چیلے نے دوران عبادت نیند آنے پر شرمندگی کے مارے اپنے پپوٹے کاٹ کر پھینک دیئے تھے۔

انہی پپوٹوں سے چائے کی جڑیں پھوٹیں اور اس پودے کی پتیوں میں یہ خاصیت تھی کہ انہیں ابال کر پینے سے طبیعت میں لطافت اور چستی پیدا ہوتی اور نیند کا غلبہ نہیں ہوتا۔ اس دیومالائی کہانی کی وجہ سے بودھ مت میں چائے کے پودے کو بڑی متبرک حیثیت حاصل ہے۔

مذہبی و معاشرتی روایات

چین اور جاپان میں بیشتر پگوڈا (بدھسٹ عبادت گاہ) کے باہر چائے کے پودے اگائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ، دنیا بھر کے چائے کے باغات سے فصل کی پتیاں خواتین ہی چنتی ہیں۔

اس کی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ چائے کی پتی اور کپاس چننے کے لیے بڑی نرمی، نفاست اور نزاکت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خصوصیت عموماً خواتین کے ہاتھوں ہی میں پائی ہے۔ لیکن بودھ بھکشو اپنی ضروریات اور مذہبی رسومات کے لیے درکار چائے کی پتیاں خود ہی چنتے (توڑتے) ہیں۔ خواتین کے ہاتھوں چنی ہوئی پتیوں کو وہ کبھی اپنے پگوڈا میں نہیں آنے دیتے۔

مذکورہ دیو مالائی روایت کے زیر اثر بودھ راہبوں اور حکیموں نے چائے کا استعمال شروع کیا جو رفتہ رفتہ پورے چین کے عوام و خواص میں مقبول ہوگیا۔ آج بھی بودھ مت کی مذہبی عبادات و رسوم کا آغاز چائے پی کر ہی کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص سبز قہوے کی ان میں اتنی اہمیت ہے کہ اسے بنانے والا راہب ”ٹی ماسٹر“ کہلاتا ہے اور اس کی بڑی پذیرائی کی جاتی ہے۔

کاشت کی ابتدا

چائے کی بڑھتی ہوئی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے شین نونگ دوئم کے عہد میں اس کی باقاعدہ کاشت ہوئی۔ قہوے کی تیاری کے لیے پودے سے سبز پتیاں توڑ کر انہیں کچلا جاتا پھر اس کی ٹکیاں بناکر دھوپ میں سکھا کر یا توے پر بھون کر، محفوظ کرلی جاتیں جب قہوہ بنانا مقصود ہوتا تو ابلتے ہوئے پانی میں وہ ٹکیاچورا کرکے ڈال دی جاتی۔

دھوپ میں سکھائی ہوئی ٹکیا سے ہلکے سبز رنگ کی چائے تیار ہوتی جس کی مہک اور ذائقہ بہت پسند کیا جاتا تھا، جب کہ بھنی ہوئی ٹکیا سے بنی چائے کا رنگ سنہری مائل زرد ہوتا اور ذائقے میں بھی قدرے کڑواہٹ پائی جاتی تھی۔ اسے موجودہ دور کی مقبول ترین ”کالی چائے“ کا اولین نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

چائے کی اقسام

تلخ ذائقے اور بھوری رنگت والی چائے کو چین میں تو کوئی خاص مقبولیت حاصل نہ ہوئی لیکن یہ سوغات شاہراہ ریشم کے راستے دنیا کے دوسرے خطوں مثلاً عرب ممالک تک پہنچی تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ساتوں صدی عیسوی میں چائے کی ٹکیاں بنانے کا عمل ختم ہوا اور خشک پتیوں کے چورے کا رواج شروع ہوگیا۔

اسی دور میں چائے کی تیسری قسم دریافت کی گئی، جو زیادہ بھنی ہوئی ڈارک براﺅن پتیوں کی شکل میں تھی۔ اس کے قہوے کا رنگ سیاہی مائل زرد اور ذائقہ ”سنہری چائے“ سے زیادہ تلخ تھا۔ اس چائے میں لطافت تو کم تھی لیکن تاثیر کافی گرم تھی۔ یہ قہوہ تبت، منگولیا اور تاتار کے قبائل میں بہت پسند کیا گیا۔

تیرہویں صدی عیسوی میں جب چین پر منگول فاتح قبلائی خان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے اپنے پسندیدہ تلخ قہوے کا ذائقہ بہتر کرنے کے لیے اس میں دودھ اور شکر کی آمیزش شروع کی اور پھر چین میں موجود منگول لشکریوں میں بھی یہ ”نیا مشروب“ مقبول ہوگیا۔

تاہم چینی عوام بدستور سبز چائے کی نفاست، مہک اور لطیف ذائقے ہی کے اسیر رہے۔ موجودہ دور کی دودھ اور چینی ملی چائے کا چلن اسی دور کی دین ہے۔ چائے کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے قبلائی خان نے اس کی کاشت منگولیا میں بھی شروع کرادی تھی۔

چین کے مختلف صوبوں میں چائے، باغات میں اگائی جاتی تھی۔ اس کی فصل بونے کے لیے ٹیلوں والی زمین، مخصوص آب و ہوا اور کھلی دھوپ درکار ہوتی ہے۔ منگولیا میں بھی یہ جغرافیائی عوامل پائے جاتے تھے چنانچہ وہاں یہ فصل خوب پھولی پھلی۔

چائے کی مقبولیت

1638ء میں ایک روسی وفد منگولیا پہنچا جو اپنے ساتھ زار روس کی جانب سے تحائف لایا تھا۔ وفد کو رخصت کرتے ہوئے منگولیا کے خان نے بھی جواباً کچھ تحائف روسی دربار کے لیے بھجوائے۔ ان میں ایک من سبز چائے کی پتیاں بھی شامل تھیں۔

روسیوں نے ابتدائی طور پر اسے ”چینی گھاس“ کا نام دیا۔ وہ اس مشروب کے ایسے دیوانے ہوئے کہ روس کے طول و عرض میں چائے نوشی کو آداب مجلس اور مہمان نوازی کی علامت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس وقت سے آج تک روس میں ”سماوار“ (چائے ابالنے کا مخروطی برتن) ہر گھر کی لازمی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔

ہزاروں سال تک محض بدھسٹوں کا متبرک مشروب سمجھی جانے والی چائے کی گرم بازاری اتنی بڑھی کہ ایک جانب تو اس کی کاشت روس میں بھی شروع ہوئی تو دوسری جانب چین سے یورپ کو بھی اس کی رسد 16 صدی کے آغاز سے شروع ہوگئی جب چین نے پرتگالی تاجروں کو مکاﺅ میں تجارتی اڈا قائم کرنے کی اجازت دی۔

1613ء تک چائے پرتگال اور ہالینڈ کے عوام و خواص کے دلوں میں گھر چکی تھی۔ انگریز، جو آج چائے کے گرویدہ سمجھے جاتے ہیں، ان کا تعارف اس سوغات سے 1615ء میں اس وقت ہوا جب ایک انگریز لارڈ رچرڈ وکہم نے مکاﺅ سے دس پونڈ چائے کی پتیاں منگائیں۔

شاہی خاندان اور طبقۂ امرا اس مشروب کی مہک اور ذائقے کے ایسے رسیا ہوئے کہ جلد ہی انگلینڈ، یورپ ملک بھر میں سب سے زیادہ چائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ انگلستان کے عوام میں چائے اتنی مقبول ہوئی کہ 1650ء میں آکسفورڈ میں عوامی چائے خانہ قائم ہوگیا۔

یہ انگلستان کا پہلا چائے خانہ تھا جو اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ اس دور کے بہت سے کاروباری اس بزنس میں کود گئے اور 1682ء تک محض لندن اور اس کے مضاف میں 200 سے زائد چائے خانے قائم ہوگئے۔

ان قہوہ خانوں میں عموماً تین قسم کی چائے تیاری ہوتی تھی یعنی روایتی سنہری چائے، ڈارک براﺅن چائے اور دودھ شکر والی چائے جو تیز براﺅن قہوے سے بنائی جاتی۔

کالی چائے کی تیاری

موجودہ دور میں رائج ”کالی چائے“ کی دریافت سترہویں صدی کے اوخر میں ہوئی۔ اس کا سہرا انگریز کیمیائی دانوں کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے سبز پتیوں کو تخمیر (فرمنٹیشن) یعنی گلانے سڑانے کے عمل سے گزار کر سیاہ پتیوں والی چائے تیار کی۔ جس کا ذائقہ تلخ اور رنگت سرخی مائل سیاہ تھی۔

اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس سے نہ صرف نیند بھاگ جاتی بلکہ بھوک بھی مرجاتی۔ ابتدا میں یہ مشروب انگریز فوج کے لیے منتخب کیا گیا۔ دور دراز محاذوں پر لڑنے والی سپاہ تک خوراک کی وافر رسد ممکن نہ ہوتی تو تھکے ماندے فوجی یہ مشروب پی کر نہ صرف تازہ دم ہوجاتے بلکہ کئی گھنٹوں تک انہیں بھوک نہ لگتی۔ غذائیت بڑھانے کی خاطر اس چائے میں چینی اور دودھ بھی شامل کیا جاتا تھا تاکہ پینے والوں کا شوگر لیول بھی ہائی رہے۔

دودھ شکر والی چائے کا رواج

دودھ، شکر ملی کالی چائے کا برصغیر میں رواج انگریزوں نے انیسویں صدی کے آغاز میں شروع کیا۔ اس سے قبل صدیوں سے ہندوستان میں سبز چائے، سنہری قہوے اور کشمیری چائے کا راج چلتا تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے ہندوستانی فوجیوں کو، غذائی قلت کی وجہ سے دودھ کے بجائے، شکر اور دودھ آمیز کالی چائے راشن میں دینی شروع کی۔ لانگری بڑے دیگچوں میں یہ آمیزہ پکاتے اور بھنے چنوں کے ساتھ فوجیوں کو ناشتے میں دیتے۔

کالی چائے میں موجود ”کیفین“ کی زیادہ مقدار چوں کہ پینے والوں کو اس کا عادی بنا دیتی ہے۔ اس لئے فوجی چھاؤنیوں میں یہ مشروب بہت مقبول ثابت ہوا۔ اس پذیرائی کو دیکھتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے مقامی عوام میں بھی کالی چائے متعارف کرانے کا سوچا۔

اس سلسلے میں انگریزوں نے ہندوستان کے بڑے شہروں مثلاً دلی، کلکتہ، بمبئی، انبالہ اور آگرہ وغیرہ میں ریڑھوں پر مفت چائے کی تقسیم شروع کردی تاکہ ہندوستانی عوام کو کالی چائے کا عادی بنایا جاسکے۔

فری ملنے والی چائے نے جلد ہی رنگ دکھایا اور ہندوستانیوں، خصوصاً متوسط اور غریب طبقے میں اس کا رواج عام ہوگیا۔ جنگ عظیم اول کے خاتمے پر انگریزوں نے چائے کی تجارت پر چین کا تسلط توڑنے کے لیے اس کی کاشت ہندوستان ہی میں شروع کردی۔

سلہٹ اور دارجلنگ کے خطے اس فصل کے لیے بہترین ثابت ہوئے اور پھر ہندوستان کی کئی ریاستوں میں چائے کی کاشت شروع ہوگئی۔ لپٹن نامی کمپنی نے ان باغات کے ٹھیکے حاصل کئے اور سبز پتیوں کو فرمنٹ (گلا، سٹرا) کر کالی چائے بنانی شروع کردی۔ رفتہ رفتہ یہ نئی قسم کی چائے برصغیر کا مقبول ترین مشروب بن گئی۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے