تازہ ترین

برما کی تاریخ

burma ki tareekh
  • واضح رہے
  • جولائی 10, 2021
  • 10:38 شام

جنوب مشرقی ایشیائی ملک کو دورِ حاضر میں اس کی ظالم اور طاقتور فوج کی وجہ سے پوری دنیا میں منفی شہرت حاصل ہے

برما (موجودہ میانمار) بنیادی طور پر بامر لوگوں کا ملک ہے، جو چینی تبتی نسل کے ہیں اور دریائے اراوادی کے کنارے بستے ہیں۔ برما کی تاریخ کے مطابق بامر قبائل 9ویں صدی میں بالائی اراوادی میں آباد ہوئے اور 1050ء میں یہاں پگان سلطنت قائم کرلی۔

بامروں کی ثقافت، بدھ مت مذہب اور برمی زبان دیکھتے ہی دیکھتے اس سرزمین پر ایسے غالب آئی کہ منگول دست درازی، ٹنگو سلطنت اور برطانوی راج جیسے متعدد ادوار آئے اور چلے گئے، لیکن اس کے باوجود آج کا میانمار مکمل طور پر برمی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔

میانمار جس کی سرحدیں بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، لاؤس اور چین سے ملتی ہیں، بدھ مت انتہا پسندی کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں لکھا گیا ہے کہ بامر نسلی گروہ کی یہ برمی ریاست مکمل طور پر اپنے کلچر کے زیر اثر ہے، اسی لئے یہاں کسی دوسری ثقافت کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔

دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کیلئے برما کی تاریخ انتہائی تلخ اور سفاکانہ رہی ہے اور تقریباً ہر دور میں یہاں اقلیتوں کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ روہنگیا مسلمان جو صوبہ رخائن میں کئی صدیوں سے آباد تھے، منظم نسل کشی کے بعد ان کی آبادی کا صفایا کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ برما سات صوبوں میں تقسیم ہے اور اس میں 135 قسم کی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جو مختلف علاقوں سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ برما کی 68 فیصد آبادی بامر لوگوں پر مشتمل ہے، جو صدیوں سے یہاں حکمرانی کر رہے ہیں۔ 87.9 فیصد افراد بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔

2014ء کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 5 کروڑ 40 لاکھ آبادی والے برما میں مسلمانوں کی تعداد 8 لاکھ ہے، جو 4.3 فیصد بنتی ہے۔ تاہم یہ اعداد و شمار حقیقت سے بالکل میل نہیں کھاتے، کیونکہ عالمی اداروں کے تصدیق شدہ اعداد و شمار کی رو سے اب تک 7 لاکھ مسلمان جان بچاکر بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔

برما کا مسلم اکثریتی صوبہ رخائن روہنگیا نسل کے مسلمانوں سے عملاً خالی ہوگیا ہے۔ یہ روہنگیا افراد اس بدقسمت صوبے میں کئی صدیوں سے آباد تھے، جو ہمیشہ ہی بدھ مت کے پیروکاروں کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے اور یہاں کئی سو سالوں سے مسلمانوں کا خون بہایا جاتا رہا ہے۔

رخائن یا آراکان درحقیقت ایک آزاد مسلم ریاست تھی جو روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ 1784ء تک یہ ایک مستقل آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ میں موجود رہا، اس کے بعد برما نے اس پر قبضہ کیا تو اراکان بھی برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔

برطانیہ سے آزادی کی تحریکیں جب برصغیر میں چلیں تو پاکستان اور بھارت کی طرح برما بھی آزاد ہوا۔ برما نے 4 جنوری 1948ء کو اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ قبل ازیں یہاں 1824ء سے 1948ء تک انگریز کی حکومت رہی۔

آزادی کے بعد برما نے آراکان کو ایک صوبے کے طور پر بھی اپنے ساتھ ضم رکھا اور اسے ایک آزاد مسلم ریاست کی حیثیت سے دوبارہ ابھرنے نہیں دیا۔ بدھ مت انتہا پسندوں اور برمی حکومت نے آراکان پر قبضہ کے بعد یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ اس صوبے سے مسلمانوں کا خاتمہ کیا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف وحشت ناک آپریشن کیے اور برما کی حکومت مسلمانوں کے خلاف وقفے وقفے سے فسادات کی آگ بھڑکاتی رہی ہے۔

1942ء میں بودھوں نے مسلمانوں کے خلاف منظم تحریک شروع کی۔ 1942ء میں مارچ سے جون کے دوران ایک لاکھ 50 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور 5 لاکھ مسلمانوں کو بے گھر کر دیا۔ پھر 1950ء میں مسلمانوں کے خلاف تحریک اٹھی، اس دوران بھی ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور بے گھر کیا گیا۔

1962ء میں برما فوج نے کنٹرول سنبھالا۔ برما کی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں 1982ء تک 20 لاکھ سے زائد مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں کو شہید کیا گیا۔

1991ء اور 1997ء میں بھی مسلمانوں پر بڑے منظم حملے ہوئے اس دوران بھی ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ جون 2012ء سے ایک بار پھر مسلمانوں پر حملوں کا آغاز کیا گیا، یہ حملے اکتوبر 2016ء تک جاری رہے۔

2018ء میں انتہائی سفاکانہ آپریشن شروع کیا گیا جس میں رخائن میں پورے کے پورے گاؤں جلا دیئے گئے۔ مردوں کو زندہ جلا دیا گیا، خواتین کی عصمت دری کرکے قتل کیا گیا اور بچوں کو زمین میں گاڑ دیا گیا۔ یہ وحشیانہ کارروائیاں کئی ماہ تک جاری رہیں، جس کے نتیجے میں لاکھوں روہنگیا اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

برما میں فوج انتہائی مضبوط ہے، جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام سویلینز کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے۔ یہاں بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرح کئی بار مارشل لاء لگاکر منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک آج تک اندرونی خلفشار سے دوچار ہے۔

حال ہی میں جب جب آنگ سان سوچی کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو عوام نے فوجی تسلط کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ تاہم سفاک برمی فوج نے مظاہرین کے اوپر سے ٹینکر گزار دیئے، فائر کھول دیئے۔ اقتدار کیلئے سینکڑوں افراد کی جان لے لی۔

برمی فوج کے حوالے سے ایک اور امر بھی قابل غور ہے کہ یہ انتہا پسند بدھ مت راہبوں کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل پیرا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2006ء میں برما کی فوجی حکومت نے اچانک ایک نجومی کے مشورے پر دارالحکومت کو ینگون سے نئے شہر نیپیداؤ منتقل کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 676,578 مربع کلو میٹر پر پھیلے برما کا سب سے بڑا شہر ینگون ہے، جو 1753ء سے دارالسطنت تھا۔ 1930ء میں ہونے والے نسلی فسادات اور جلاؤ گھیراؤ کے سبب ینگون کا بنیادی شہری ڈھانچہ تباہ و برباد ہوگیا تھا، جو آج تک بھی اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں آسکا۔

برما کے سات صوبے شان٬ کایا٬ کچھین٬ رخائن٬ کرین٬ مون اور چھین ہیں۔ جبکہ سات ہی ڈویژن ہیں، جو مانڈلے٬ مگوے٬ پیگو٬ ایراودی٬ رنگون٬ تناسرم اور اورسگائن ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے