تازہ ترین

بموں کی برسات میں اذان کی گونج

Bombs ki barsaat main azan ki goonj
  • واضح رہے
  • اپریل 1, 2021
  • 1:03 صبح

جنگ زدہ شام کے تباہ حال شہر غوطہ میں ابو غسان محمد نامی موذن اپنی جان پر کھیل کر مسجد آتے اور اذان دیکر خود ہی اقمات کرتے تھے

شام کا علاقہ مشرقی غوطہ دو سال پہلے ہونے والی تباہ کن بمباری کے نتیجے میں کھنڈر بن چکا۔ اب بھی شہر پوری طرح بحال نہیں ہوسکا ہے۔ داعش اور فری سیرین آرمی کے خلاف جنگ کے دوران روسی اور شامی فضائیہ سمیت امریکی اتحادی فورسز نے چن چن کر مساجد کو نشانہ بنایا تھا۔

غوطہ کی تباہ ہونے والی مساجد میں ایک تاریخی اہمیت کے حامل خانہ خدا جامع مسجد حذیفہ بھی شامل ہے۔ اس مسجد میں نماز ادا کرنے والے بیشتر نمازی بھی بمباری کی زد میں آکر شہید ہوگئے تھے اور بعض شام کا یہ جہنم کدہ چھوڑ کر گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بہت سے لوگ اپنے آبائی علاقے کو واپس لوٹ رہے ہیں۔

قیامت خیز فضائی حملوں کے دوران یہاں جو زندہ بچ گئے تھے، انہوں نے زیر زمین سرنگوں میں پناہ لے رکھی تھی۔ مگر بموں کی بارش میں بھی ایک ایسا شخص ہے، جو حقیقتاً جان پر کھیل کر خانہ خدا کو آباد اور اذان و نماز کے اسلامی شعائر کو زندہ رکھنے کیلئے روزانہ پانچ وقت مسجد حذیفہ کا رخ کرتا رہا۔

Bombs ki barsaat main azan ki goonj

90 برس قبل تعمیر ہونے والی اس مسجد کی چھت اور دیواروں کا اکثر حصہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ مگر باہمت ابو غسان محمد سلیلو ملبے پر اذان دے کر خود ہی اقامت کرتے اور خود ہی اکیلے پانچوں نمازیں ادا کرتے تھے۔

ابوغسان 21 برس سے اس مسجد کے موذن ہیں۔ ایمان افروز امر یہ ہے کہ بموں کی برسات میں بھی وہ اپنا فریضہ ادا کرتے رہے ہیں۔ ترک خبر رساں ادارے اناطولیہ سے بات چیت کرتے ہوئے ابوغسان کا کہنا تھا کہ میری اس مسجد کے ساتھ پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ اس لئے جب تک زندہ ہوں، میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2012ء سے اب تک کئی بار اس مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلے اس پر بیرل بم گرایا گیا، پھر اس پر میزائل برسائے گئے۔ بعد میں یہ روسی بمباری کا بھی نشانہ بنی۔ اب تو اس کے منبر و محراب اور در و دیوار سمیت کچھ بھی سلامت نہیں، مگر اس کے باوجود میں نے اذان دینے میں کبھی ناغہ نہیں کیا۔

Bombs ki barsaat main azan ki goonj

جامع مسجد حذیفہ مشرقی غوطہ کی سب سے بڑی اور اہم مسجد تھی۔ جہاں حفظ قرآن کے ساتھ ذکر و اذکار کے حلقے لگتے تھے۔ رمضان میں ختم قرآن اور اعتکاف کا اہتمام ہوتا تھا۔

ابو غسان کے مطابق ایک وقت تھا کہ یہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوتی تھی۔ مگر جنگی حالات میں وہ ہر نماز کے وقت فضا میں بمبار طیاروں کے گزرنے کا انتظار کرتے تھے۔ پھر ملبے کے ڈھیروں سے ہوتے ہوئے مسجد کے کھنڈرات تک پہنچ کر اذان دیتے تھے۔ چونکہ چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ اس لئے انتظار کے باوجود کوئی نمازی نہیں آتا تو اکیلا ہی جماعت کی نیت سے نماز ادا کرتا تھا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق شام میں خانہ جنگی اور کیمیائی حملوں کے دوران صرف غوطہ میں 2400 سے زائد شہید ہو ہوگئے تھے، جبکہ ایک لاکھ 85 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔غوطہ شامی حزب اختلاف کا آخری مضبوط مرکز تھا، جہاں 4 لاکھ افراد محصور تھے، ابھی یہاں جنگ ختم ہونے کے دو سال بھی زندگی پوری طرح بحال نہیں ہوسکی ہے۔

تحریر: ضیاء چترالی

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے