تازہ ترین

بی جے پی نے مدارس میں قرآن پڑھانے پر پابندی لگا دی

bjp ne madaris main quran parrhane per pabandi laga di
  • واضح رہے
  • جنوری 2, 2021
  • 10:12 شام

آسام کی ریاستی اسمبلی سے منظور بل کے ذریعے مسلمانوں کو عصری تعلیم اور مراعات کے راگ الاپ کر دھوکا دیا گیا

داس پور: بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مساوی تعلیم کے نام پر سینکڑوں مدارس کو عام تعلیم کے اسکولوں میں تبدیل کرنے کا بل منظور کرلیا ہے۔ جس کی آڑ میں قرآن کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ نئے قانون کے نتیجے میں کم از کم 700 مدارس ختم ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آسام میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ہے اور مدارس کی تعلیم کی ایک طویل تاریخ ہے۔

آسام میں مدرسہ تعلیم کا سلسلہ 1780ء میں شروع ہوا تھا۔ جسے انگریز بھی ختم نہیں کر سکا۔ اب آسام کے مسلمان کئی برسوں سے مودی سرکار کے نشانے پر ہیں۔ جو انہیں بنگلہ دیشی تارکین وطن قرار دیتے ہوئے علاقے سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بھارت میں نیشنل رجسٹر آف سیٹزن (این آر سی) نام کا متنازع قانون بھی انہی مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے لیے منظور کیا گیا۔ جس کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے اور احتجاج ہوا تھا۔ آسام میں مسلمانوں کا تناسب کئی دیگر بھارتی ریاستوں سے زیادہ ہے۔ بھارت کی سوا ارب آبادی میں مسلمانوں کا مجموعی تناسب 14 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ آسام کی آبادی میں مسلمان 34 اعشاریہ 22 فیصد ہیں۔ یہ اعدادوشمار 2011ءکی مردم شماری پر مبنی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تین کروڑ آبادی والی ریاست آسام میں اسلام اس وقت دوسرا بڑا مذہب ہے اور مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کی تعداد بڑھنے کا سبب بنگلہ دیش سے نقل مکانی کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن آسام میں عرصے سے راسخ العقیدہ مقامی مسملمان آباد ہیں۔ جن میں گوریا، موریا اور دیشی ذات کے مسلمان شامل ہیں۔

مودی سرکار کی جانب سے اسلام دشمنی پر مبنی تازہ اقدامات چند روز قبل اٹھایا گیا۔ آسام کی اسمبلی میں ریاست کے تمام مدارس کو عصری تعلیم کے اداروں میں تبدیل کرنے کا بل منظور کیا گیا۔ بل کی منظوری کے وقت ریاستی وزیر تعلیم ہیمنت بسوا نے دعویٰ کیا کہ نئے قانون سے مسلمانوں کا فائدہ ہوگا اور تمام بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقع میسر آئیں گے۔

واضح رہے اسی طرح کے دعوے بعض دیگر ممالک میں بھی کیے جاتے ہیں۔ ہیمنت بسوا کی تقریر کے برعکس بی جے پی کا اصل چہرہ قانون میں موجود ایک شق میں سامنے آیا۔ جس کے تحت مدارس سے اسکولوں میں تبدیل ہونے والے تمام تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آسام کے جن مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے، وہاں عصری علوم کی تعلیم پہلے سے دی جا رہی تھی۔ یہ سرکاری مدرسہ بورڈ کے تحت آتے تھے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان مدارس میں قرآن اور اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ ریاضی اور سائنس کے مضامین پڑھائے جا رہے تھے۔ مودی سرکار نے بل کے تحت مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کرنے کیلئے یکم اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔ یعنی یکم اپریل سے مدارس کا وجود ختم ہو جائے گا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے