تازہ ترین

کورونا وائرس سے بچوں کی شرح پیدائش میں کمی

birth rate falls
  • واضح رہے
  • اکتوبر 10, 2020
  • 8:45 شام

سبب عالمگیر وبا سے ہونے والی معاشی تنگی اور بے روزگاری ہے، جس نے یورپی ممالک میں برتھ ریٹ کو زیادہ متاثر کیا ہے

لندن: کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل نے دنیا بھر میں برتھ ریٹ گرا دیا ہے۔ یورپین ماہرین کا بتانا ہے کہ گزشتہ 8 ماہ کے دوران بچوں کی پیدائش میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ اس عرصے میں ہزارہا شادیاں منسوخ بھی ہوئیں اور لوگوں کو اپنے روزگار کے لالے پڑ گئے۔

اب کورونا وائرس کے اثرات کم ہونے کے بعد کئی ممالک نے معیشت بحالی کیلئے مختلف نوعیت کے اقدامات کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ سنگاپور کی حکومت بچے پیدا کرنے کے رجحان میں اضافے کو معیشت کی بحالی کیلئے اہم تصور کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگاپور میں زیادہ بچے پیدا کرنے پر والدین کو ”بے بی بونس“ دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ سنگاپور نے اپنے شہریوں وبائی مرض سے بحالی میں مدد فراہم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ جس میں زیادہ بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والے افراد کو 10 ہزار سنگاپورین ڈالر تک دئیے جاسکیں گے۔ یہ رقم صرف ایک بار ہی ادا کی جائے گی۔

واضح رہے کہ سنگاپور میں برتھ ریٹ پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک میں سب سے کم ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سنگاپور کی حکومت کئی دہائیوں سے برتھ ریٹ کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود بچوں کی پیدائش میں سنگاپور ورلڈ انڈیکس میں آخری نمبروں پر ہے۔ 2018ءمیں بھی سنگاپور میں برتھ ریٹ 8 سال کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال سنگاپور میں ہر عورت نے اوسطاً ایک بچے کو جنم دیا۔

اسی طرح چین میں بھی رواں برس کے اوائل میں ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملی۔ حیران کن طور پر 70 برس قبل جدید چین کے قیام کے بعد بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے کم رہی۔ یہ گراوٹ بھی ایسے موقع پر دیکھی گئی جب چین نے ”ون چائلڈ“ کی پالیسی میں نرمی کر دی تھی۔ یعنی چین کی حکومت کے فیصلے کے بعد چینی عوام زیادہ بچے پیدا کر سکتے تھے۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے بننے والی معاشی صورتحال نے انہیں اس کا متحمل نہیں ہونے دیا۔

دوسری جانب برطانوی اخبار گارجین نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جن ممالک میں بچوں پیدائش کا رجحان کم ہوا ہے، وہ دولت مند اور ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ ان میں اٹلی اور اسپین جیسے ممالک شامل ہیں، جہاں بچوں کی پیدائش کو ایک سال کیلئے ملتوی کرنے کا رجحان پایا گیا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ان دونوں ہی یورپی ممالک میں شرح پیدائش کورونا وائرس کے آئوٹ بریک سے پہلے بھی کم تھی۔

اس حوالے سے لندن اسکول آف اکنامکس میں عالمی ہیلتھ پالیسی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کلیر ونہم نے کہا کہ جو لوگ اپنی جسمانی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہوں گے۔ وہ خاندانی منصوبہ بندی کو التوا میں ڈالنے کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحت کا تحفظ اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے غالب امکان ہے کہ لوگ اس دور میں بچے کی پیدائش سے گریز کریں گے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے