تازہ ترین

بھارت کی ممبئی نگریہ سات ناکارہ جزیروں کا چربہ

bharat ki mumbai nagariya 7 nakara islands ka charba
  • واضح رہے
  • جون 28, 2021
  • 11:57 شام

پرتگال کے بادشاہ نے ممبئی کے ساتوں جزیرے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیئے تھے، جو رشتہ داری کے نتیجے میں انگریزوں کے حصے میں آگئے

انگریزوں سے پہلے پرتگالی انڈیا میں موجود تھے اور انہیں وہاں خاصا عرصہ ہو چکا تھا۔ نہ صرف گوا بلکہ ارد گرد کی کئی بندرگاہوں پر پرتگالیوں کا راج تھا۔ حتیٰ کہ سندھ کے کئی علاقوں پر ان کے تسلط کو ایک صدی کا عرصہ گزر چکا تھا۔ واضح رہے کہ پرتگالیوں نے 1555ء میں ٹھٹھہ (سندھ) پر حملہ کر کے تباہی مچائی تھی۔

اس سے تقریباً بیس برس قبل 1534ء میں پرتگالیوں نے گجراتی سلطان کو قتل کر کے بمبئی کے تمام جزائر اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ انہیں ان جزیروں کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ ان جزیروں کو حاصل کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہاں گرجا گھر تعمیر کئے جائیں، عیسائی مبلغوں کو تعینات کیا جائے تاکہ مقامی ”کولیوں“ کو کرسچن بنایا جا سکے۔

اس زمانے میں بمبئی کے ویران جزیروں سے زیادہ اہمیت گوا، دیر اور دیگر شہروں کی تھی، جو پرتگالیوں کے قبضے میں تھے۔ جبکہ انگریز ان کے مقابلے میں ”کنگلے“ تھے۔ جب پرتگالیوں کی طرف سے انگریزوں کو بمبئی کے جزیرے ملے، تو وہ اسی میں خوش ہو گئے تھے۔

انگریزوں کی ایک تجارتی کمپنی ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ نے مغل بادشاہوں سے انڈیا میں تجارت کرنے کی اجازت حاصل کر کے سورت اور کالیکٹ جیسے چند شہروں میں اپنی منڈیاں قائم کر لی تھیں۔ انگلینڈ کے بادشاہ چارلس دوم کو اپنی پرتگالی بیوی کیتھرین کے ذریعے بمبئی کے جزیرے ملے، تو ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ ان ویران جزیروں کو کس مصرف میں لائیں اور ان کی افادیت کیا ہے؟

انہیں معاشقوں ہی سے فرصت نہیں تھی۔ انہیں اپنی بیوی سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ جبکہ مختلف داشتاﺅں سے ان کے کم از کم 12 بچے تھے۔ پانچ چھ سال کے بعد چارلس دوم نے ان جزیروں کو غیر اہم سمجھ کر چند پاﺅنڈ کے عوض کرائے پر ”برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی“ کے حوالے کر دیا۔

بہر حال یہ حقیقت ہے کہ انگریز انتظامیہ، کامرس اور بزنس کے معاملے میں انتہائی قابل اور ہوشیار ہیں۔ انہوں نے بتدریج اپنے کاروباری دفاتر قریبی بندرگاہ سورت سے بمبئی منتقل کر دیئے۔ انہوں نے محنت کش، کاریگر، تجارت اور ملازمت پیشہ لوگوں کو بمبئی آنے کی ترغیب دی اور وہاں کام کرنے کے سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔

انگریزوں نے اس کے علاوہ امن وامان کی صورت حال بہتر بنائی۔ اس طرح وہاں آنے والے لوگ خوش رہنے لگے۔ دیکھا دیکھی وہاں لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور کاروبار میں اضافہ ہونے لگا۔ تجارتی سہولتیں اور پرسکون ماحول دیکھ کر قریبی صوبے گجرات کے پارسی، بوہری، یہودی اور ہندو تاجر سورت اور دیو جیسے شہروں کو چھوڑ کر بمبئی منتقل ہونے لگے۔ 1661ءمیں بمبئی کی آدم شماری صرف دس ہزار تھی اور یہ 1675ء میں ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔

بمبئی، برمودا، بہاما اور ہانگ کانگ جیسے جزیروں پر یورپین کا بھی قبضہ رہا۔ لیکن جب یہ انگریزوں نے حاصل کئے تو انہوں نے وہاں خوب کام کیا اور ہر علاقے کو ترقی دے کر کچھ سے کچھ بنا دیا۔ چند ویران جزائر کو انہوں نے بہتر، خوب صورت، ماڈرن اور امیر بمبئی بنا دیا۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے سورت شہر کے پارسی واڈیا اور ٹاٹا جیسے سیٹھ بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں جہاز بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا پورا کاروبار بھی سورت سے بمبئی منتقل کر دیا۔ اسی طرح گجرات کے سنارم لوہار اور کپڑا تیار کرنے والے کاریگر بمبئی آ نکلے۔ یہاں ہر قسم کا کاروبار پھیلنے لگا۔ اس حد تک مڈغاسکر سے لائے جانے والے سیاہ فام غلاموں کی خریدو فروخت بھی بمبئی میں ہونے لگی۔

1817ء میں انگریزوں اور مرہٹوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ اس میں انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد انگریزوں نے بمبئی کے جزیروں کو آپس میں ملانے کا کام شروع کیا۔ سمندر کو مٹی اور پتھروں سے بھرا گیا۔ اس پر سڑکیں اور راستے بنائے گئے۔ انجینئرز دیگر کاموں میں مصروف ہو گئے۔ 1845ء میں ماہم کی سڑک (CAUSEWAY) تیار ہو گئی۔ ساتوں جزیروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا گیا اور وہ زمین کا ایک حصہ بن گئے۔

بمبئی کی ترقی میں پارسیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کئی امیر پارسیوں نے گجرات کے شہر سورت سے اپنا کاروبار بمبئی کیا اور خود بھی وہیں رہنے لگے۔ پارسیوں کا ”ٹاور آف سائیلنس“ سیٹھ مودی ہجرے واچا نے 1672ء میں تعمیر کرایا تھا۔ پارسی اپنے مردوں کو نہ تو مسلمانوں کی طرح دفن کرتے ہیں اور نہ ہی ہندوﺅں کی طرح جلاتے ہیں۔ بلکہ کسی پہاڑی کی چوٹی پر کنواں نما ایک گول ٹاور بناتے ہیں۔ اسے "TOWER OF SILENCE" کہا جاتا ہے۔

اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد وہ اس کی لاش کو وہاں چھوڑ آتے ہیں۔ اس ٹاور کے گرد منڈلانے والے مردار خور گدھ اور دیگر پرندے دو تین دنوں میں اسے چٹ کر جاتے ہیں۔ کراچی میں بھی ڈیفنس مارکیٹ کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی پر پارسیوں کا یہی ٹاور موجود ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے