تازہ ترین

باپ، زندگی کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈا سایہ

باپ، زندگی کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈا سایہ
  • واضح رہے
  • جون 18, 2022
  • 11:12 شام

باپ وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کی خاطر خون پسینہ ایک کرکے اپنی خوشیوں کا گلا بھی گھونٹ دیتا ہے۔ جبکہ اس کی قربانیوں کو اس نظر سے نہیں دیکھا جاتا جس کا وہ حقدار ہے

یہ حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب بچوں کے سر پر سے وہ گھنا اور شفیق سایہ اٹھ جاتا ہے۔ اس وقت انہیں پتا چلتا ہے کہ دنیا کتنی بے رحم ہے۔ اپنے سگے رشتے داروں کے رویے کس طرح سے بدلتے ہیں۔ کس طرح بچوں کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر دو وقت کی روٹی کیلئے جُت جانا پڑتا ہے۔ اس وقت باپ جیسی عظیم ہستی کی قدر معلوم ہوتی ہے۔

باپ ایک سائبان شفقت ہے جس کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ مشرقی معاشرے خصوصاً ہماری سوسائٹی میں تو اب بھی بیٹیوں کی زندگی کا پہلا ہیرو ان کے والد ہی ہوتے ہیں۔ والد کے زیر سایہ بیٹے بھی بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ باپ کی اپنی اولاد بیٹا ہو یا بیٹی سے محبت لازوال ہے۔

باپ خود تو ہر مشکل برداشت کرلے گا لیکن اپنے بچوں پر کوئی مصیبت نہیں آنے دے گا۔ یہی باپ ہے جو رات کو اپنے بچوں کیلئے دودھ لینے کیلئے اچھی ملک شاپ پر قطار میں کھڑا نظر آتا ہے۔ بیٹی کو کالج چھوڑنے اور واپس گھر لانے کیلئے تعلیمی اداروں کے باہر موٹر سائیکل پر انتظار کرتے نظر آتا ہے۔ بچوں کی بہترین کفالت کیلئے دفاتر میں اوور ٹائم کرتے نظر آتا ہے۔

دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لاکر دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے لیے اپنی خواہشات کو بھی مار دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے آگے جاتا یا ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، لیکن والد کی ہستی ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے۔ وہ بچوں کی ترقی پر پھولا نہیں سماتا۔

باپ کا رتبہ بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’باپ جنت کے بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے اور یہ بھی کہ اپنے باپوں سے حسن سلوک کرو ایسا کرنے سے تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کریں گے۔‘‘

ایک اور حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی ہے۔ اور فرمایا کہ سارے گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے سوائے والدین کے ستانے کے اس کی سزا مرنے سے پہلے جلد دنیا میں دے دیتا ہے۔

یقیناً ہر شخص کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض باپ اپنے بچوں کے ساتھ دوستی والا تعلق رکھتے ہیں، تو بہت سے سخت گیر بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ والد کی ڈانٹ ڈپٹ، سختی، ترشی، دراصل اولاد کی بہترین تربیت ہی کے لیے ہوتی ہے، جو بچے گھر میں والد کی سختی برداشت کرلیتے ہیں، وہ معاشرے کے بہت سے نشیب و فراز سے محفوظ رہتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے بچے والد سے زیادہ اپنی ماں کے قریب ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہی باپ کی ایک عظیم قربانی ہے۔ وہ اپنی اولاد سے دور رہتا ہے اور سارا دن معاش کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتا ہے۔ اسی لئے اولاد کے ساتھ وہ گہرا تعلق نہیں بن پاتا۔ حالانکہ یہ ساری تگ و دو وہ اپنی اولاد کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے ہی تو کر رہا ہوتا ہے۔

اسلام کی رو سے بچے کی پرورش میں باپ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہر صاحبِ اولاد مسلمان پر باپ ہونے کے ناطے بہت سی ذمہ داریاں بھی لازم ہوتی ہیں۔ اسے اپنے بچے کو زمانے کے سرد و گرم راستوں پر چلنے کا ڈھنگ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دینا ہوتی ہے۔

اسی طرح اولاد پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے والد کی حکم عدولی نہ کرے۔ خاص طور پر جب باپ ضعیف العمر ہوجائے تو جتنا ہوسکے اس کے ساتھ وقت گزارے، اس کی خدمت کرے۔ جب اس کا انتقال ہوجائے تو اس پر واجب الادا قرض لوگوں کو واپس کرے۔ ایک فرمانبردار اور نیک اولاد کی طرح اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بنے۔

کہتے ہیں کہ والد اگرچہ 9 مہینے تک اپنے بچے کو پیٹ میں نہیں رکھتا جیسے ماں کرتی ہے۔ مگر باپ اسے پوری زندگی اپنے دل میں رکھتے ہیں اس لئے باپ مکی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ باپ کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کر سکتی۔

والد کی محبت اولاد کے لئے ہمیشہ بے لوث ہوتی ہے۔ وہ اپنی ریاضت اور محبت سمیت اپنی پوری زندگی، اثاثے، تعلقات، دولت اور توانائی کے بدلے کچھ پانے کی امید نہیں رکھتا۔ کسی دانا نے کہا تھا کہ اکیلا باپ دس بچے پال لیتا ہے مگر دس بچے مل کر ایک باپ نہیں سنبھال سکتے۔

وہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال کو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کر اور روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت بہترین ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے باپ کا جو مقام رکھا ہے وہ بہت بڑا اور بلند ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے