تازہ ترین

عوام ذہنی ،قلبی اور اعصابی اذیت میں مبتلا

awam-zehni-qalbi-or-asabi-izziyat-mai-mubtala
  • محمد قیصر چوہان
  • مارچ 11, 2023
  • 2:58 شام

کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملک کو اس کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں ہے؟

روٹی ، کپڑا ، مکان،تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری میں شامل ہے۔لیکن ہماری ریاست اس میں مکمل طور پر فیل ہو چکی ہے۔غریب عوام دن رات محنت کرکے جوٹیکس ادا کرتے ہیں ہمارے بے حس حکمران غریب کے خون پسینے کی کمائی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں اور آفیشلز کی سیکورٹی پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمائندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ صدر مملکت ، وزیراعظم، وزرائ، مشیران و معاونین اور بیوروکریٹس کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی سیاست داں موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے طبقہ اشرافیہ سے ” فیض“ نہ اٹھایا ہو ، خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ، ایسے میں کون اس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔

کاش، ہمارے حکمران عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں جبکہ ملک کی ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کے پُر آسائش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کینٹین سے جو کھانا کھاتے ہیں، اس پر بھی انہیں سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ عوام کیلئے سبسڈی ختم کی جارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کیلئے سالانہ تقریبا دو ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفرا اسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک پرانی رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دیتا ہے ، کیا ہم کسی بھی طرح یہ مراعات کم کر کے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر نہیں ڈال سکتے؟

awam-zehni-qalbi-or-asabi-izziyat-mai-mubtala

کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملک کو اس کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں ہے؟ ۔وطن عزیز کے اقتصادی مسائل کا بوجھ وسائل پر قابض اشرافیہ کی ہوس زر اور عوامی مسائل سے حکمرانوں کی لاتعلقی کے ساتھ مل کر ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ایک عام پاکستانی، غریب، سفید پوش، دیہاڑی دار آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پُرآسایش بنانے کیلئے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔

ایمان دار اور پر عزم قیادت کے فقدان کے باعث قومی خزانے اور قومی وسائل کے ساتھ جس بے دردی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا وہ اب عام آدمی کے ذہن کی در دیوار پر نقش ہے ملک میں پیدا ہونے والے نومولود کی سانسیں تک عالمی اداروں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اس وقت معاشی ناو ¿ ڈوب رہی ہے ادارے خساروں کے بوجھ تلے دب کر آخری سانسیں لے رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی ضروریات زندگی کی خریداری میں معاشی مشکلات کا ہمالیہ کھڑا کر دیا ہے کیونکہ اشیائے خور و نوش سے لے کر ضروریات زندگی کی تمام اشیاءکی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔

یہ ادراک اب عام آدمی کو بھی ہے کہ مہنگائی ایک گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے۔حکومتی مشینری مہنگائی قابو کرنے کیلئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مہنگائی میں اضافے کی سہولت کار کے طور پر کام کر رہی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔رمضان کے دوران ویسے ہی گرانفروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہوجاتی ہے، اب ان حالات میں جبکہ ماہ صیام میں چند دن باقی ہیں ، مہنگائی کس حد تک بڑھے گی اس کا تصور تک نہیں کیاجاسکتا کہ لوگ کس طرح سے ماہ صیام کے دوران اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے ؟۔کمر شکن مہنگائی ، بے روزگاری ،”دہشت گردی“،انصاف کی عدم دستیابی ”بد عنوانی“ کرپشن اور لاقانونیت کا اژدھا پھن پھلائے بہت کچھ نگلنے کو تیار ہے اور عوام کو پل پل ذہنی ،قلبی اور اعصابی اذیت سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے، مہنگائی مزید بڑھے گی تو عوام بلبلا اٹھیں گے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان