تازہ ترین

”اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافے کا عندیہ دیدیا“

میاں زاہد حسین
  • واضح رہے
  • اپریل 17, 2019
  • 11:36 شام

معروف صنعتکار میاں زاہد حسین نے ہوش ربا اضافے کو انڈسٹری کی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے ممکنہ اقدام سے کاروباری لاگت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اوگر ا نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اشارہ دے دیا ہے۔ حکومت نے اکتوبر 2018 میں گیس کے نرخ میں 143 فیصد اضافہ کیا تھا اور اب ایک بار پھراوگرا نے یکم جولائی 2019 سے گیس کی قیمت میں 75 سے 80 فیصد تک اضافہ کا عندیہ دے دیا ہے، جس کا سبب  SNGPLکی جانب سے گیس کی قیمت میں 723 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی اجازت ہے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا ہے کہ گیس نرخ بار بار بڑھنے کی وجہ سے ملک میں توانائی کا شعبہ عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے، جس سے نا صرف عوام بلکہ، ملکی صنعتیں، معیشت، ٹرانسپورٹ اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

میاں زاہد حسین نے خدشہ ظاہر کیا کہ گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ سے سی این جی سیکٹر کو بھی خاطر خواہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ حکومت ٹرانسپورٹ انڈسٹری میں سی این جی کی کھپت میں اضافے سے نا صرف سی این جی انڈسٹری کو گیس کی قیمتوں میں متوقع اضافے کے باعث ہونے والے ممکنہ نقصانات سے تحفظ دے سکتی ہے بلکہ ملکی معیشت کی ترقی کیلئے سالانہ 1 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھی محفوظ کر سکتی ہے۔ اگر حکومتی سطح پر ٹرانسپورٹ سیکٹر میں درآمدی آئل (پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ) کے بجائے سی این جی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے تو آئل امپورٹ بل میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے جس سے ملکی معیشت کا انرجی مکس متوازن ہو جائے گا اور سالانہ ایک ارب ڈالرکی بچت سے ملکی معیشت بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اوگرا کی جانب سے گیس کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ نہایت تشویش ناک ہے۔ اندازے کے مطابق صرف کراچی شہر میں ایک ہزار صنعتی یونٹس کے آپریشنز قدرتی گیس کے مرہون منت ہیں جو کہ ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر اس مجوزہ اضافے کا نفاذ عمل میں لایا گیا تو پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہو جائے گا، جس سے عوام اور صنعتکار یکساں متاثر ہوں گے۔ ملک کی بیشتر صنعتیں اس اضافے سے براہ راست متاثر ہوں گی اور ان کی مینو فیکچرنگ اور پروسیسنگ کی لاگت میں اضافہ سے ان کی کاروباری لاگت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اس طرح عام مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہو جائے گا اور ملکی برآمدات شدید متاثر ہوں گی۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ سالانہ 50 ارب روپے کی گیس چوری ہو جاتی ہے جس کا بوجھ براہ راست صارفین کو منتقل کر دیا جا تا ہے، جبکہ  SSGS اور  SNGPL کی سالانہ لائن لاسز 25 سے 30 ارب روپے ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے بجائے لائن لاسز کے خاتمہ اور گیس کی چوری پر قابو پایا جائے۔ کاروباری لاگت میں اضافہ سے صنعتوں کو درپیش مشگلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان موجودہ وقت میں صنعتوں کی تنزلی کا متحمل نہیں ہو سکتا جس سے بے روز گاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے حکومت صنعتوں کے فروغ اور ترقی کیلئے مستحکم بنیادوں پر پالیسیاں مرتب کرے اور صنعتکاروں اور بزنس کمیونٹی کی سفارشات کی روشنی میں صنعتوں کے مسائل کا حل تلاش کرے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے