تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چوتھا حصہ)

Aurangzeb Alamgir
  • واضح رہے
  • مارچ 5, 2021
  • 9:36 شام

اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت کا بیشتر حصہ سلطنت کے ہندو شہریوں کیلئے ٹیکس فری رہا، جسے جانبدار تاریخ نویس جھٹلاتے ہیں

جزیہ ایک عربی لفظ ہے جو لفظ جزا سے مخرج ہے اس کے معنی معاوضہ کے ہوتے ہیں۔ یہ اسلامی حکومت میں ایک ٹیکس ہے جو غیرمسلموں سے ان کے جان ومال کی حفاظت کے معاوضہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس کو ادا کرنے کے بعد وہ ایک طرف تو ان تمام ٹیکسوں سے مبراء قرار دیئے جاتے ہیں جو صرف مسلمان، اسلامی حکومت کو ادا کرتے ہیں۔یعنی زکٰوة و عُشر وغیرہ اور دوسری طرف وہ ملک کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے سے بھی مبراء ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں ہندوستان میں پوری عہد سلطنت میں غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ اکبر کے عہد تک غیر مسلم یه جزیہ ادا کرتے تھے، اکبر نے اپنے عہد میں جزیہ کو غیر مسلموں پر معاف کردیا تھا اور یہ اس کی سیاسی چال تھی، جس کا مقصد نئی نئی مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کو استوار کرنا تھا۔ دیگر یہ کہ اس نے افغانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں سے چالاکی سے بہترین طریقہ سے اس طرح کام لیا۔ اس نے نہ صرف ان ہندوؤں کی مدد سے افغانوں کی طاقت کو کچلا بلکہ خود راجپوتوں کو راجپوتوں سے لڑا کر ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔

جہانگیر اور شاہ جہاں کے عہد میں ہندوؤں پر کوئی ٹیکس یا جزیہ نہ لگایا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر جب سے تخت نشین ہوا اس وقت سے مختلف ٹیکسوں کی ایک بڑی تعداد غیر مسلموں پر معاف کر دی گئی۔ ان معاف شدہ ٹیکسوں میں وہ ٹیکس بھی شامل تھے جو صرف ہندو رسومات کی ادائیگی کے وقت ادا کیے جاتے تھے۔ اس سے قبل ہندو اپنے مقدس مقامات پر جاتے تھے تو انہیں حکومت کو ایک بڑی رقم ٹیکس کی صورت میں ادا کرنی پڑتی تھی، چنابچہ انہی ٹیکسوں کے ساتھ اس نے اسی قسم 80 دیگر ٹیکس ہندوؤں پر سے ختم کر دیئے۔ ان میں مویشی چرائی، سڑکوں پر آمد روفت، گھاٹ اترائی، تحفہ تحائف کا زبردستی پیش کرنا وغیرہ شامل تھا۔ ان میں سے بیشتر ٹیکس ایسے تھے جو حکومت کے لیے بے حد ضروری اور اہم تھے۔ بقول فاروقی حکومت کو 25 سے 30 لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہوتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیسرا حصہ)

اس کے علاوہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں پر جو ٹیکس عائد ہوتے تھے اور جو بادشاہ کو ہر ماہ ادا کیے جاتے تھے اور جس سے حکومت کے خزانے میں ہر ماہ ایک کثیر رقم جمع ہوتی رہتی تھی۔ اورنگزیب نے کہا کہ یہ چیز حقیر ہے کہ اس قسم کے ٹیکس لگائے جائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندوؤں کیلئے اپنے دور حکومت میں آسانیاں پیدا کرنا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے ہدایت کر دی کہ آئندہ یہ ٹیکس بھی نہ لیا جائے۔

گنگا میں ہندوؤں کی جلی ہوئی ہڈیوں پر بھی ٹیکس عائد کیا جاتا تھا۔ اورنگ زیب نے اپنے عہد میں اسے بھی ختم کر دیا۔

جزیہ کو دوبارہ عائد کرنے کی وجوہات بھی ایک دور رس اسکیم کے تحت تھیں۔ ان اسکیموں کو عالمگیر کے عہد کے پہلے بارہ سالوں کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ دراصل ہندوؤں کے حکومت کے خلاف مجرمانہ کردار اور شورش پسند افعال کو روکنے کے لیے پہلا قدم تھا تاکہ امن و امان بحال کیا جا سکے۔

خافی خاں کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ:

کفار فجار کی شورش ان کے ساتھ بد کردار گروہ جو ان علاقوں کے زمیندار تھے اور جنہوں نے اطاعت سے منہ موڑ تھا اور جس سے اجمیر اور اکبر آباد کے نواحی علاقوں میں گڑ بر مچی تھی، چنانچہ ان علاقوں میں خیمہ لگانے کا حکم صادر ہوا جس میں خواجہ معین الدین چشتی کے روضہ مبارک کی زیارت کے ساتھ ساتھ سرکش راجپوتوں کو تنبیہ کرنا شامل تھی۔ چنانچہ اجمیر کی طرف کوچ کا حکم دیا گیا اور کفار کو بدحال کرنے اور سرمایہ حاصل کرنے کے لیے ہندوؤں سے جن کا تعلق دارلحرب سے تھا، جزیہ وصول کیا گیا اور اس قسم کے احکام تمام صوبہ جات میں صادر کئے گئے۔

جزیہ کے نفاذ کا اعلان علماء و فضلاء کے مشورے کے بعد کیا گیا تھا اور اس میں کئی ہندو امراء مبراء تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

ایسرداس ناگر لکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ:

اس محکم امر کے اجراء کا فرمان جاری کیا گیا کہ سلطنت کے حلقے میں سرکاری ملازمین (غیر مسلم) سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ بلکہ نواحی علاقوں اور حوالی شہروں کے ذمیوں سے شرح شریعت کے مطابق اس تفصیل کے ساتھ وصول یابی کی جائے کہ ایسے دولت مندوں سے جن کی آمدنی دو ہزار پانچ سو چالیس درهم سالانہ ہے اور جس کے تیرہ روپے بنتے ہیں۔

اسی طرح متوسط طبقہ جس کی آمدنی دو سو پچاس روپے ہوتی ہے (یا اتنی املاک کا مالک ہے) اس سے چھ اور پانچ روپے، اور وہ فقیر جن کی املاک کُل پانچ اور دو روپیہ ہے اور جو کمزور ہیں اور ان کے بیوی بچے بھی نہیں۔ ان سے بارہ درم (ساڑھے تین ماشہ کا ہوتا تھا) جس کے تین روپے چار آنے ہوتے ہی ہر سال وصول کیے جائیں۔ معذوروں، مفلوجوں، اندھوں اور سوکھے ہاتھ والوں سے اس سے معاف رکھیں۔

اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں جزیہ کا اجراء کوئی نئی بات نہ تھی کہ ہندو تاریخ نوسیوں نے اس کی خاص اہمیت کے ساتھ بات کی ہے۔ حالانکہ یہ جزیہ صرف ہندوؤں پر نہ تھا بلکہ پارسی، عیسائی، یہودی اور سکھ بھی اسے ادا کرتے تھے۔ غیرمسلموں کے لیے جزیہ کے نفاذ کا اتنا فائدہ ہوا کہ بوقت ضرورت انہیں فوج میں لڑنے کے لیے بلایا جانا بند ہوگیا۔ دیگر یہ کہ جو غیرمسلم فوج کے کسی بھی شعبہ میں ملازم ہوتے تھے انہیں یہ جزیہ ادا نہیں کرنا پڑتا تھا۔

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے