تازہ ترین

عرب اور مکہ معظمہ کا انتخاب دعوتِ اسلام کے مرکز کے طور پر

satellite-image-of-saudi-arabia
  • محمد یوسف فرید
  • جون 12, 2020
  • 12:11 صبح

پوری دنیا کےلیے ایک ایسے مرکزی مقام کا انتخاب ضروری تھا جہاں سے دعوتِ اسلام کو پورے عالم میں پہنچایا جا سکے

ڈاکڑ حمید اللہ صاحب نے کچھ وجوہات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ دعوت اسلام کے لیے عرب اور مکہ معظمہ کے انتخاب میں کونسے عوامل ہوسکتے ہیںکہتے ہیں کہ جب تمام ہی دنیا کی حالت اصلاح طلب تھی تو اس کی اصلاح کی دعوت کا مرکز کہاں ہو

جغرافی وجہ

پرانی دنیا کے نقشے پر نظر ڈالئے تو نظر آجائے گا کہ ایشیا، یورپ، افریقہ اوراب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام ہی دنیا کی حالت اصلاح طلب تھی تو اس کی اصلاح کی دعوت کا مرکز کہاں ہو
جغرافی وجہ
پرانی دنیا کے نقشے پر نظر ڈالئے تو نظر آجائے گا کہ ایشیا، یورپ، افریقہ اور اوقیانوسیہ کے براعظموں میں جزیرہ نما عرب کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ مرکز بھی ایسا کہ ایشیا میں ہوتے ہوئے بھی وہاں سے افریقہ اور یورپ بہت قریب ہیں ۔ خاص کر ان دونوں براعظموں کے اس زمانے کے متمدن ترین علاقے یعنی یونان، مصر، روما سے بھی مرکزیت تھی، جس نے عرب کے بھی مرکز معظمہ کوناف زمین کا نام دلادیا تھا ۔

makkah map

کسی مرکز سے ہر انتہائی حصہ قریب ترین ہوتا ہے ۔ اور ہر جگہ پہنچنا مرکز ہی سے سہل ترین ہوتا ہے ۔ آب و ہوا کا اثر طباءع اور اخلاق پر جو کچھ پڑتا وہ اب مسلم ہے ۔ سرد ممالک والوں کی ذکاوت، پہاڑی اور صحرائی لوگوں کی جفاکشی، زرخیز ممالک والوں کی تمدنی ترقیاں وغیرہ مسلمہ قانونِ قدرت پر مبنی معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک بہت ہی محدود رقبے کے اندر مکے کی وادی غیر ذی زرع، طاءف کی رشک شام و روم کی خنکیاں ، مدینے کی زرخیزی وغیرہ کا ایسا اجتماع حجاز میں عمل میں آیا کہ اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی ۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ ایشیا، یورپ اورافریقہ سے طبعی مماثلت کے ساتھ ساتھ عرب میں ان تینوں براعظموں کے سیاسی مفادات بھی آنحضرت ﷺ کی ولادت کے وقت پوری قوت سے اثر انداز تھے ۔ قسطنطنیہ کے رومیوں نے شمالی عرب پر، ایرانیوں نے مشرقی، اور حبشیوں نے جنوب مغربی عرب پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ اور عرب تینوں براعظموں کا سنگم اور عمل و ردِ عمل کا مرکزی نقطہ بنا ہوا تھا ۔
عمرانی وجہ

تاریخ عالم پر محض ایک سرسری نظر سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وحشیت و بدویت کے بعد ہی کسی قوم کا ارتقاء اور اس کے ہاتھوں انقلاب آفریں کارنامے انجام پاتے ہیں ۔ اور عروج وتمدن کے زمانے میں کسی قوم میں برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو وہ اپنی آپ اصلاح نہیں کرسکتی، بلکہ جلد ہی انحطاط و زوال کے ذریعے سے اس کا رہنما یا نہ وجود دنیا سے ختم ہو جاتا ہے ۔ دنیا کی متمدن قوموں کو عموماََ وحشیوں اور بدویوں ہی نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود مغلوب کرلیا، رومی شہنشاہی کو جرمنوں نے، چینیوں کو ترکمانوں نے جس طرح زیر کیا، وہ دنیا کو معلوم ہے ۔ عہد نبوی کی متمدن دنیا کو صحرائے عرب کے بدویوں کے ذریعے سے جھنجھوڑنے کی ضرورت تھی ۔

کوئی ملک پوری طرح حضری اور متمدن زندگی گزارنے لگے تو اس میں زندگی پیدا کرنے والے نئے پیوند کا لگنا اندرونی وسائل سے ممکن نہیں ہوتا ۔ اس کے بر خلاف اگر خانہ بدوش بدویوں کے ماحول میں کہیں کہیں شہری زندگی کے آثار پیدا ہوگئے ہوں تو ایسا علاقہ وقتاََ فوقتاََ صحرا نشینوں کو اپنے اندر کھینچ اور جذب کرکے تازہ قوت حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ بات عرب میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے

نا معلوم وجہ سے دنیا کے تین حصے بڑے نسل کش ہیں ۔ صحرائے گوبی، جرمنی کا کالا جنگل اور عرب سینکڑوں ہزاروں سال سے انہیں علاقوں سے اجتماعی ہجرتوں کی موجیں اٹھتی رہی ہیں ۔ اور آس پاس کے علاقوں پر چھا جاتی رہیں ۔ کیونکہ خود ان کے اپنے اندر آبادی کی تیز ترقی کی تو قوت ہے ۔ لیکن آبادی کی پرورش کےلیے غذا وغیرہ کے وسائل بہت کم ہیں ۔ یہ بات جو عرب کو حاصل ہے دنیا کے مرکز میں ہونے کے باعث مزید اہمیت پیدا کردیتی ہے ۔
عرب خاص کر حجاز میں ابتک کوئی نبی نہیں آیا تھا ۔ وہاں کے لوگوں نے اب تک اپنی ذہنی قوتیں کسی کام میں خرچ نہ کی تھیں ۔

اور ان کی توانائیاں سب محفوظ بلکہ لبریز تھیں ۔ نپولین کے استنباط کے مطابق سینکڑوں سال سے خانہ جنگیوں اوربے امینیوں کے باعث ان میں جفا کشی، جاں فروشی، صبر و ضبط مستعدی، سادگی اور اسی طرح کے دیگر بلند کردار جو ترقی کناں قوموں کے لیے درکار ہیں خوب پرورش پاچکے تھے ۔ بعض دیگر وجوہ سے بات کا پاس،خودداری،عزتِ نفس ان میں مستحکم تھے ۔ صحرائی زندگی اور کھلی فضا میں پرورش کے باعث ان کی بصارت، سماعت اور دیگر حواس بھی شہریوں کے مقابل غیر معمولی طور پر تیز تھے ۔ لکھنے پڑھنے کا ( گنتی کے پندرہ بیس آدمیوں کو چھوڑیں تو) چونکہ کوئی رواج نہ تھا اس لیے حجازیوں کے حافظے بہت زبردست تھے ۔ غذا میں سادگی، صحرا کا ناگزیر نتیجہ تھا ۔ اور برسوں میں بھی کوئی بیمار نہ ہوتا تھا ۔

زراعت پیشہ لوگوں میں جو وابستگی وطن بلکہ ز میں زدگی ہوتی ہے ۔ اس کے باعث ان کا مہمات پسند ہونا، وطن سے کسی بھی لمحے دوردراز مقام پر جانے پر آمادہ رہنا اور اسی طرح کے مستعدی کے دیگر امور ممکن نہیں ، صنعت و حرفت میں بھی ز میں زدگی کافی ہوتی ہے ۔ صرف تجارت پیشہ ہی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جوسفرو سیاحت کی ترغیب بھی پاتے اوراس پر مجبور رہ کر اس کے عادی بھی ہوجاتے ہیں ۔ مکہ والوں کی بستی قرانی الفاظ میں ’’بن کھیتی‘‘ کی وادی ہے ۔ یہاں زراعت تو کیا صنعت و حرفت کےلیے بھی کوئی سہولت نہیں ۔ اور تو اور غذا تک کی درآمد کی ضرورت ہے ۔ ایسے لوگوں کی مستعدی اور تیار باشی کے کیا کہنا ۔

فتوحات اور توسیع نیز ان کے استحکام کے لیے حرکت پذیری Mobility کو جو اہمیت حاصل ہے وہ آج مسلم ہے ۔ جس زمانے میں بے جان سواریاں بجز سمندری جہاز کے اور کچھ نہ تھیں ، اور برق اور بھاپ پر ابھی انسان کو تسخیر حاصل نہیں ہوئی تھی تو تیز تر سواری گھوڑے کی تھی ۔ اور کار آمد ذریعہ حمل و نقل اونٹ جس کا صبر و تحمل، غذا کی سادگی و کمی، کثیر بوجھ کا اٹھا سکنا، دودھ اور گوشت وغیرہ کا قابلِ غذا ہونا سب جانتے ہیں ۔ گھوڑوں اور اونٹوں سے عرب کو جو خصوصیت ہے وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ۔ ہزاروں کی عربی فوج اپنے اونٹوں کی مدد سے جس تیزی سے حرکت کرسکتی اور لمبے لمبے دھاوے مارسکتی تھی وہ عربی فتوحات کی سرعت، کامیابی اور استحکام کے اہم وسائل میں سمجھی جاتی ہے ۔ اور ماہرین حربیات قدیم سے عربوں پر رشک کرتے رہے ہیں ۔

چین اور ہندوستان کی تجارت عرب ہی سے ہوکریورپ جاتی تھی ۔ قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انہوں نے جو تجارتی معاہدے (ایلاف) کر رکھے تھے اور ’’ رحلۃ الشتاء و الصیف ‘‘ کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں ۔ ان سے بڑھ کر اقوام کی مزاج شناس، ملکوں کی راہ شناس، سب سے واقفیت کے باعث خود شناس قوم اس وقت کم ہوگی ۔
حکمرانی کا سلیقہ

مکے اور طاءف اور پھر مدینے کی شہری مملکتوں میں جو تھوڑا بہت سیاسی نظام تھا وہ خوش قسمتی سے سماجی مساوات پر مبنی تھا ۔ سرداری اور اعیانت سے کوئی جات پات کے ناقابل شکست بندھن نہیں پیدا ہوگئے تھے ۔ سب آزاد اور سب برابر کے ہوتے تھے ۔ محض عقل و تجربہ کسی کو سردار منتخب کراتے تھے ۔ اس ماحول میں رچے ہوئے ہونے کے باعث انہیں جب دنیا پر حکمرانی کا موقع ملے تو انسانوں میں مساوات کی جیسی توقع ان سے ہوسکتی اور رنگ و زباں و وطن کے اختلافات کو بے اثر قرار دینے کی ان سے جتنی امید ہوسکتی تھی نہ برہمنیت میں ممکن تھی نہ ایرانیت میں نہ رومیت میں ، نہ طبقات کا تفرقہ ذہنوں میں اتنا راسخ تھا کہ نکالے نہ نکل سکتا تھا ۔
لسانی وجہ

عربی زبان بھی انتخاب کا ایک باعث ہوسکتی تھی ۔ اس کا خط جمالیاتی اور خطیاتی نقطہ نظر سے جو صلاحیتیں رکھتا تھا اور خود زبان ادائے مطالب اور فصاحت و بلاغت کی جو غیر متناہی قابلیتیں رکھتی تھی وہ دیگر ہمعصر متمدن زبانوں مثلاََ پہلوی، یونانی، سنسکرت اور لاطینی نہ چینی پر بدرجہا تفوق رکھتی تھی ۔
نفسیاتی وجہ
چند ساحلی یا سرحدی رقبوں کو چھوڑ کر عرب پر اب تک کسی بیرونی سلطنت کا قبضہ نہیں ہوا تھا ۔ بلکہ وہ اپنی آزادی کے ساتھ ہمیشہ بیرونی پناہ جویوں کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوتا رہا ۔ دنیا کی رہنمائی کے لیے کسی غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوم کی جگہ وہی قوم اوروں پر ترجیح رکھتی سمجھی جاسکتی ہے جو آزادوں کی بھی آزاد ہو ۔

اوقیانوسیہ کے براعظموں میں جزیرہ نما عرب کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ مرکز بھی ایسا کہ ایشیا میں ہوتے ہوئے بھی وہاں سے افریقہ اور یورپ بہت قریب ہیں ۔ خاص کر ان دونوں براعظموں کے اس زمانے کے متمدن ترین علاقے یعنی یونان، مصر، روما سے بھی مرکزیت تھی، جس نے عرب کے بھی مرکز معظمہ کوناف زمین کا نام دلادیا تھا ۔

کسی مرکز سے ہر انتہائی حصہ قریب ترین ہوتا ہے ۔ اور ہر جگہ پہنچنا مرکز ہی سے سہل ترین ہوتا ہے ۔ آب و ہوا کا اثر طباءع اور اخلاق پر جو کچھ پڑتا وہ اب مسلم ہے ۔ سرد ممالک والوں کی ذکاوت، پہاڑی اور صحرائی لوگوں کی جفاکشی، زرخیز ممالک والوں کی تمدنی ترقیاں وغیرہ مسلمہ قانونِ قدرت پر مبنی معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک بہت ہی محدود رقبے کے اندر مکے کی وادی غیر ذی زرع، طاءف کی رشک شام و روم کی خنکیاں ، مدینے کی زرخیزی وغیرہ کا ایسا اجتماع حجاز میں عمل میں آیا کہ اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی ۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ ایشیا، یورپ اورافریقہ سے طبعی مماثلت کے ساتھ ساتھ عرب میں ان تینوں براعظموں کے سیاسی مفادات بھی آنحضرت ﷺ کی ولادت کے وقت پوری قوت سے اثر انداز تھے ۔ قسطنطنیہ کے رومیوں نے شمالی عرب پر، ایرانیوں نے مشرقی، اور حبشیوں نے جنوب مغربی عرب پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ اور عرب تینوں براعظموں کا سنگم اور عمل و ردِ عمل کا مرکزی نقطہ بنا ہوا تھا ۔

عمرانی وجہ

تاریخ عالم پر محض ایک سرسری نظر سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وحشیت و بدویت کے بعد ہی کسی قوم کا ارتقاء اور اس کے ہاتھوں انقلاب آفریں کارنامے انجام پاتے ہیں ۔ اور عروج وتمدن کے زمانے میں کسی قوم میں برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو وہ اپنی آپ اصلاح نہیں کرسکتی، بلکہ جلد ہی انحطاط و زوال کے ذریعے سے اس کا رہنما یا نہ وجود دنیا سے ختم ہو جاتا ہے ۔ دنیا کی متمدن قوموں کو عموماََ وحشیوں اور بدویوں ہی نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود مغلوب کرلیا، رومی شہنشاہی کو جرمنوں نے، چینیوں کو ترکمانوں نے جس طرح زیر کیا، وہ دنیا کو معلوم ہے ۔ عہد نبوی کی متمدن دنیا کو صحرائے عرب کے بدویوں کے ذریعے سے جھنجھوڑنے کی ضرورت تھی ۔

کوئی ملک پوری طرح حضری اور متمدن زندگی گزارنے لگے تو اس میں زندگی پیدا کرنے والے نئے پیوند کا لگنا اندرونی وسائل سے ممکن نہیں ہوتا ۔ اس کے بر خلاف اگر خانہ بدوش بدویوں کے ماحول میں کہیں کہیں شہری زندگی کے آثار پیدا ہوگئے ہوں تو ایسا علاقہ وقتاََ فوقتاََ صحرا نشینوں کو اپنے اندر کھینچ اور جذب کرکے تازہ قوت حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ بات عرب میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔

نا معلوم وجہ سے دنیا کے تین حصے بڑے نسل کش ہیں ۔ صحرائے گوبی، جرمنی کا کالا جنگل اور عرب سینکڑوں ہزاروں سال سے انہیں علاقوں سے اجتماعی ہجرتوں کی موجیں اٹھتی رہی ہیں ۔ اور آس پاس کے علاقوں پر چھا جاتی رہیں ۔ کیونکہ خود ان کے اپنے اندر آبادی کی تیز ترقی کی تو قوت ہے ۔ لیکن آبادی کی پرورش کےلیے غذا وغیرہ کے وسائل بہت کم ہیں ۔ یہ بات جو عرب کو حاصل ہے دنیا کے مرکز میں ہونے کے باعث مزید اہمیت پیدا کردیتی ہے ۔

عرب خاص کر حجاز میں ابتک کوئی نبی نہیں آیا تھا ۔ وہاں کے لوگوں نے اب تک اپنی ذہنی قوتیں کسی کام میں خرچ نہ کی تھیں ۔ اور ان کی توانائیاں سب محفوظ بلکہ لبریز تھیں ۔ نپولین کے استنباط کے مطابق سینکڑوں سال سے خانہ جنگیوں اوربے امینیوں کے باعث ان میں جفا کشی، جاں فروشی، صبر و ضبط مستعدی، سادگی اور اسی طرح کے دیگر بلند کردار جو ترقی کناں قوموں کے لیے درکار ہیں خوب پرورش پاچکے تھے ۔ بعض دیگر وجوہ سے بات کا پاس،خودداری،عزتِ نفس ان میں مستحکم تھے ۔ صحرائی زندگی اور کھلی فضا میں پرورش کے باعث ان کی بصارت، سماعت اور دیگر حواس بھی شہریوں کے مقابل غیر معمولی طور پر تیز تھے ۔ لکھنے پڑھنے کا ( گنتی کے پندرہ بیس آدمیوں کو چھوڑیں تو) چونکہ کوئی رواج نہ تھا اس لیے حجازیوں کے حافظے بہت زبردست تھے ۔ غذا میں سادگی، صحرا کا ناگزیر نتیجہ تھا ۔ اور برسوں میں بھی کوئی بیمار نہ ہوتا تھا ۔

زراعت پیشہ لوگوں میں جو وابستگی وطن بلکہ ز میں زدگی ہوتی ہے ۔ اس کے باعث ان کا مہمات پسند ہونا، وطن سے کسی بھی لمحے دوردراز مقام پر جانے پر آمادہ رہنا اور اسی طرح کے مستعدی کے دیگر امور ممکن نہیں ، صنعت و حرفت میں بھی ز میں زدگی کافی ہوتی ہے ۔ صرف تجارت پیشہ ہی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جوسفرو سیاحت کی ترغیب بھی پاتے اوراس پر مجبور رہ کر اس کے عادی بھی ہوجاتے ہیں ۔ مکہ والوں کی بستی قرانی الفاظ میں ’’بن کھیتی‘‘ کی وادی ہے ۔ یہاں زراعت تو کیا صنعت و حرفت کےلیے بھی کوئی سہولت نہیں ۔ اور تو اور غذا تک کی درآمد کی ضرورت ہے ۔ ایسے لوگوں کی مستعدی اور تیار باشی کے کیا کہنا ۔

فتوحات اور توسیع نیز ان کے استحکام کے لیے حرکت پذیری Mobility کو جو اہمیت حاصل ہے وہ آج مسلم ہے ۔ جس زمانے میں بے جان سواریاں بجز سمندری جہاز کے اور کچھ نہ تھیں ، اور برق اور بھاپ پر ابھی انسان کو تسخیر حاصل نہیں ہوئی تھی تو تیز تر سواری گھوڑے کی تھی ۔ اور کار آمد ذریعہ حمل و نقل اونٹ جس کا صبر و تحمل، غذا کی سادگی و کمی، کثیر بوجھ کا اٹھا سکنا، دودھ اور گوشت وغیرہ کا قابلِ غذا ہونا سب جانتے ہیں ۔ گھوڑوں اور اونٹوں سے عرب کو جو خصوصیت ہے وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ۔ ہزاروں کی عربی فوج اپنے اونٹوں کی مدد سے جس تیزی سے حرکت کرسکتی اور لمبے لمبے دھاوے مارسکتی تھی وہ عربی فتوحات کی سرعت، کامیابی اور استحکام کے اہم وسائل میں سمجھی جاتی ہے ۔ اور ماہرین حربیات قدیم سے عربوں پر رشک کرتے رہے ہیں ۔

چین اور ہندوستان کی تجارت عرب ہی سے ہوکریورپ جاتی تھی ۔ قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انہوں نے جو تجارتی معاہدے (ایلاف) کر رکھے تھے اور ’’ رحلۃ الشتاء و الصیف ‘‘ کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں ۔ ان سے بڑھ کر اقوام کی مزاج شناس، ملکوں کی راہ شناس، سب سے واقفیت کے باعث خود شناس قوم اس وقت کم ہوگی ۔

حکمرانی کا سلیقہ

مکے اور طاءف اور پھر مدینے کی شہری مملکتوں میں جو تھوڑا بہت سیاسی نظام تھا وہ خوش قسمتی سے سماجی مساوات پر مبنی تھا ۔ سرداری اور اعیانت سے کوئی جات پات کے ناقابل شکست بندھن نہیں پیدا ہوگئے تھے ۔ سب آزاد اور سب برابر کے ہوتے تھے ۔ محض عقل و تجربہ کسی کو سردار منتخب کراتے تھے ۔ اس ماحول میں رچے ہوئے ہونے کے باعث انہیں جب دنیا پر حکمرانی کا موقع ملے تو انسانوں میں مساوات کی جیسی توقع ان سے ہوسکتی اور رنگ و زباں و وطن کے اختلافات کو بے اثر قرار دینے کی ان سے جتنی امید ہوسکتی تھی نہ برہمنیت میں ممکن تھی نہ ایرانیت میں نہ رومیت میں ، نہ طبقات کا تفرقہ ذہنوں میں اتنا راسخ تھا کہ نکالے نہ نکل سکتا تھا ۔

لسانی وجہ

عربی زبان بھی انتخاب کا ایک باعث ہوسکتی تھی ۔ اس کا خط جمالیاتی اور خطیاتی نقطہ نظر سے جو صلاحیتیں رکھتا تھا اور خود زبان ادائے مطالب اور فصاحت و بلاغت کی جو غیر متناہی قابلیتیں رکھتی تھی وہ دیگر ہمعصر متمدن زبانوں مثلاََ پہلوی، یونانی، سنسکرت اور لاطینی نہ چینی پر بدرجہا تفوق رکھتی تھی ۔

نفسیاتی وجہ

چند ساحلی یا سرحدی رقبوں کو چھوڑ کر عرب پر اب تک کسی بیرونی سلطنت کا قبضہ نہیں ہوا تھا ۔ بلکہ وہ اپنی آزادی کے ساتھ ہمیشہ بیرونی پناہ جویوں کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوتا رہا ۔ دنیا کی رہنمائی کے لیے کسی غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوم کی جگہ وہی قوم اوروں پر ترجیح رکھتی سمجھی جاسکتی ہے جو آزادوں کی بھی آزاد ہو ۔

محمد یوسف فرید

محمد یوسف فرید پیشے کے اعتبار سے انجینئیر ہیں اور سوشل میڈیا پر بلاگز لکھتے ہیں.

محمد یوسف فرید