تازہ ترین

امین ہو تو حضرت ابو عبیدہؓ جیسا

ameen ho to abu ubaidah ra jaisa
  • واضح رہے
  • ستمبر 5, 2021
  • 12:59 شام

امت محمدیہ کے امین حضرت ابو عبیدہؓ پاکیزہ رُو، خوش شکل اور سُبک رفتار شخصیت کے مالک تھے۔ بے حد خوش اخلاق، منکسر المزاج اور شرم و حیا کا پیکر تھے

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”قریش کے تین آدمی سب سے زیادہ درخشندہ رو، سب سے زیادہ خوش اخلاق اور سب سے زیادہ با حیا ہیں۔ اگر وہ تم سے بات کریں گے تو کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تم ان سے بات کرو گے تو کبھی تمہاری تکذیب نہیں کریں گے، وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ اور امت محمدیہ کے امین حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبد اللہ بن جراحؓ فہری قریشی ہیں۔

البتہ جب کوئی سخت معاملہ پیش آتا یا کوئی کٹھن گھڑی سامنے آتی تو حضرت ابو عبیدہؓ ایک بپھرے ہوئے شیر کی مانند بھی نظر آتے۔ وہ رونق و صفائی اور تیزی اور کاٹ میں تلوار کی دھار کے مشابہ تھے۔حضرت ابو عبیدہؓ السابقون الاولون میں سے تھے، وہ حضرت ابوبکرؓ کے مسلمان ہونے کے دوسرے دن انہی کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

حضرت ابو بکرؓ ان کو، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ، حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت ارقمؓ بن ابی ارقم کو لے کر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان لوگوں نے آپ کے روبرو کلمۂ حق کا اعلان کیا۔ یہ لوگ بنیاد کی وہ خشت اولین تھے، جس پر اسلام کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی گئی۔

حضرت ابو عبیدہؓ نے ابتدائی مسلمانوں کے ساتھ مصائب و آلام کی جو سختیاں جھیلیں، روئے زمین پر کسی دین کے متبعین نے نہ جھیلی ہوں گی۔ انہوں نے بڑی پامردی اور عزم و حوصلہ کے ساتھ ان ابتلاﺅں کا مقابلہ کیا اور ہر موقع پر خدا اور رسولؐ کے ساتھ سچی محبت کا ثبوت دیا، لیکن غزوۂ بدر کے موقع پر وہ جس آزمائش میں مبتلا ہوئے، اس کی سختی ہر خیال و تصور سے بالاتر تھی۔

وہ جنگ بدر میں صفوں کے درمیان اس طرح بڑھ چڑھ کر اور پینترے بدل بدل کر حملے کررہے تھے جیسے ان کو نہ تو موت کا کوئی ڈر ہے، نہ زخمی ہونے کا کوئی اندیشہ۔ ان کے حملوں نے مشرکین پر ان کی ہیبت طاری کر دی اور قریش کے بڑے بڑے سورما ان کا سامنا کرنے سے کترانے لگے۔

لیکن ان میں سے ایک شخص ایسا تھا، جو ہر وقت ان کا سامنا کرنے کی کوشش کرتا اور ہر موڑ پر ان کے مقابل آجاتا، مگر وہ اس کے راستے سے ہٹ جاتے اور اس کے ساتھ مقابلہ کرنے سے پرہیز کرتے۔ وہ شخص بار بار ان کے اوپر حملہ آور ہوتا اور وہ ہر بار کترا کر دوسری طرف نکل جاتے۔

آخرکار اس نے حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کے لیے سارے راستے مسدود کر دیئے۔ ان کے سامنے آ کھڑا ہوا اور ان کے اور ان کے دشمنوں کے درمیان حائل ہو گیا۔ جب اس کی یہ حرکتیں حضرت ابو عبیدہؓ کی قوت برداشت سے باہر ہو گئیں تو انہوں نے اس کے سر پر تلوار کا ایک بھرپور ہاتھ مارا۔ اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہو گئے اور وہ بے جان ہو کر زمین پر گر پڑا۔

جانتے ہیں یہ مرنے والا شخص کون تھا۔ یہ ان کے والد عبد اللہ بن جراح تھے۔ جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت ابو عبیدہؓ کا امتحان ہر قسم کے خیال و گمان سے بلند تھا۔ یہ واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو عبیدہؓ اور ان کے والد کے متعلق قرآن نازل کرتے ہوئے فرمایا:

ترجمہ: ”تم کبھی یہ نہ پاﺅ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں، وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے۔ وہ ان لوگوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔“ (سورة المجادلة، 22)

حضرت ابو عبیدہؓ کیلئے فرمان الہیٰ کا صادر ہونا کچھ حیرت انگیز اور تعجب خیز نہ تھا۔ وہ اپنی قوت ایمانی، دینی نصح و خیر خواہی اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة و التسلیم کے لیے امانت داری کے اس بلند مقام پر فائز تھے کہ بہت سے لوگوں کی رشک آمیز نگاہیں ان کی طرف اٹھتی رہتی تھیں۔

محمد بن جعفر نے بیان کیا ہے کہ ایک بار نصاریٰ کا ایک وفد رسول اکرمؐ کی خدمت میں باریاب ہوا اور اس نے آپؐ سے درخواست کی کہ ”ابوالقاسم! آپ ہمارے ساتھ اپنے اصحاب میں سے کسی ایسے شخص کو بھیجئے، جس کو آپ ہمارے لیے پسند کرتے ہوں تاکہ وہ ہمارے درمیان ان جائیدادوں کا فیصلہ کرے، جن کے بارے میں ہمارے اندر اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔“ تو آپؐ نے ابو عبیدہؓ ابن جراح کو معاملے کا برحق اور مبنی بر انصاف فیصلہ کرنے کیلئے وفد کے ساتھ روانہ کیا۔

حضرت ابو عبیدہؓ صرف صفت امانت ہی سے متصف نہ تھے، وہ امانت داری کے ساتھ ساتھ زبردست قوت ایمانی کے مالک بھی تھے اور بہت سے مواقع پر ان کی اس قوت کا اظہار بھی ہو چکا تھا۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کو شکست اور ان کے میدان چھوڑ کر بھاگ جانے کے بعد مشرکین پیہم آوازیں لگا رہے تھے:

”ہمیں بتاﺅ! محمد کہاں ہیں؟ بتاؤ ہمیں کہاں ہیں محمد؟“ تو حضرت ابو عبیدہؓ ان دس افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اکرمؐ کی حفاظت کیلئے آپ کو چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا تاکہ آپ کی طرف بڑھنے والے مشرکین کے نیزوں کو اپنی سینوں پر روک لیں۔

جنگ ختم ہوئی تو آپؐ کے سامنے کے دو دانت شہید ہو چکے تھے۔ پیشانی مبارک زخمی ہوگئی تھی اور رخسار مبارک میں خُود کی کڑیاں چبھ گئی تھیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان کو رخسار مبارک سے نکالنا چاہا تو حضرت ابو عبیدہؓ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ یہ کام آپ میرے لیے چھوڑ دیں۔

حضرت ابو عبیدہؓ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر وہ ان کڑیوں کو ہاتھوں سے کھینچ کر نکالیں گے تو آپؐ کو تکلیف ہوگی۔ اس لیے انہوں نے ایک کڑی کو دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور زور لگاکر کھینچا تو وہ باہر آگئی، مگر ساتھ ہی ان کا بھی ایک دانت ٹوٹ گیا، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو بھی اپنے دانتوں کی مضبوط گرفت میں لے کر زور لگایا، کڑی پیشانی مبارک سے نکل گئی، مگر ان کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔

حضرت ابو عبیدہؓ شروع سے آخر تک تمام غزوات میں حضور اکرم ﷺ کے ہم رکاب رہے اور جب سقیفۂ بنی ساعدہ کا موقع آیا (جس موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت کی گئی تھی) تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابو عبیدہؓ سے کہا کہ ”اپنا ہاتھ بڑھایئے آپ کی بیعت کروں، اس لیے کہ میں نے رسول اکرمؐ کو آپ سے یہ کہتے سنا ہے کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور ہماری امت کے امین تم ہو۔“

تو انہوں نے جواب دیا: ”میں اس شخص سے آگے بڑھنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہوں، جس کو رسول اکرمؐ نے ہم مسلمانوں کا امام بنایا ہو اور آپؐ کی وفات تک وہ ہماری امامت کرتا رہا ہو۔“ اور اس کے بعد جب حضرت ابو بکرؓ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت ہو گئی تو حضرت ابو عبیدہؓ حق و صداقت کے معاملے میں ان کے بہترین خیر خواہ اور خیر و فلاح میں ان کے قابل اعتماد معاون ثابت ہوئے۔

پھر جب حضرت ابو بکرؓ نے اپنے بعد حضرت عمر بن خطابؓ کےلئے خلافت کی وصیت کی اور اس کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں تو حضرت ابو عبیدہؓ نے مکمل طور پر ان کی اطاعت کی اور ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی ان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ کون سا موقع تھا، جب حضرت ابو عبیدہؓ نے خلیفة المسلمینؓ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی؟

ہوا یہ کہ جس زمانے میں وہ شام کے علاقے میں لشکر مجاہدین کی قیادت فرما رہے تھے اور یکے بعد دیگرے فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے، پورے علاقے کو فتح کرتے ہوئے ایک طرف مشرق میں دریائے فرات اور دوسری جانب شمال میں ایشیائے کوچک تک پہنچ گئے تھے۔ شام میں اچانک طاعون کی زبردست اور غیر معمولی وبا پھوٹ پڑی، جس نے بے شمار انسانوں کو اپنے بھیانک خونی پنجوں میں جکڑ لیا اور دیکھتے دیکھتے ان گنت انسان لقمہ اجل بن گئے۔

حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو وہ سخت تشویش میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے ایک قاصد کو اس پیغام کے ساتھ حضرت ابو عبیدہؓ کی خدمت میں روانہ کیا کہ ”اچانک مجھے ایک ضرورت پیش آگئی ہے، جس میں میرے لیے آپؓ سے مشورہ کرنا ناگزیر ہے۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر میرا خط آپ کے پاس رات کے وقت پہنچے تو صبح کا انتظار کئے بغیر عازم سفر ہو جایئے اور اگر دن کو ملے تو شام ہونے سے پہلے رخت سفر باندھ لیجئے۔“ حضرت ابو عبیدہؓ کو جب حضرت عمرؓ کا یہ خط ملا تو انہوں نے فرمایا:

’’مجھے معلوم ہے کہ امیر المومنین کو مجھ سے کیا ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسے شخص کو بچانا چاہتے ہیں، جو بچنے والا نہیں ہے۔“ پھر انہوں نے ان کے جواب میں لکھا ”امیر المومنین! میں سمجھ گیا کہ آپ کو مجھ سے کیا ضرورت ہے۔ میں مسلمانوں کے لشکر میں اور اپنے دل میں اس قسم کی کوئی خواہش نہیں پاتا کہ میں اپنے آپ کو اس وبا سے محفوظ کرلوں، جس میں یہ سب لوگ مبتلا ہیں۔ میں اس وقت تک ان سے الگ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں اپنا فیصلہ نافذ نہیں کر دیتا، اس لیے جب میرا یہ خط آپ کو ملے تو آپ مجھے اپنی قسم سے بری کر دیجئے اور مجھے یہاں ٹھہرنے کی اجازت مرحمت فرما دیجئے۔“

حضرت عمرؓ نے یہ خط پڑھا تو رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے، حاضرین نے ان کی شدت گریہ کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا حضرت ابو عبیدہؓ کا انتقال ہو گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”نہیں، ان کا انتقال نہیں ہوا ہے، مگر موت ان سے زیادہ دور نہیں ہے۔“

حضرت عمرؓ کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا، اس لیے کہ اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد وہ طاعون میں مبتلا ہو گئے اور جب ان کی موت کی گھڑی قریب آگئی تو انہوں نے اپنی فوج کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو ایک وصیت کررہا ہوں، اگر اس پر عمل کرو گے تو ہمیشہ خیر و فلاح پر قائم رہو گے۔

دیکھو! نماز قائم کرو، ماہ رمضان کے روزے رکھو، صدقہ و خیرات کرتے رہو، حج اور عمرہ ادا کرو، آپس میں ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کیا کرو، اپنے اُمرا کے ساتھ خیر خواہی کرو، ان کے ساتھ خیانت اور فریب سے کام نہ لو اور دنیا تم کو دھوکے میں نہ ڈالے، اس لیے کہ اگر آدمی کو ہزاروں سال کی طویل زندگی بھی مل جائے، تب بھی اس کیلئے اس انجام سے دوچار ہونا ضروری ہے، جس سے اس وقت میں دوچار ہوں۔ والسلام علیکم رحمة اللہ و برکاتہ۔“

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے