تازہ ترین

علاؤالدین خلجی کی پتھریلی شخصیت، پس پردہ حقائق

alauddin khalji ki pathreeli shakhsiyat pas e parda haqaeq
  • واضح رہے
  • جون 23, 2021
  • 10:46 شام

خلجی خاندان کے سب سے مضبوط سلطان قرار دیئے جانے والے علی گرشاسپ المعروف علاؤالدین کے بچپن کے بارے میں مورخین نے زیادہ نہیں لکھا ہے

تاہم جتنی بھی کتب اور مضامین علاؤالدین خلجی کے حوالے سے دستیاب ہیں، ان کے معالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علاؤالدین خلجی کے رویے میں خاندانی چپقلش کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا۔ ان کی فطرت میں شاطری سما گئی۔ وہ بچپن سے ہی تعلیم سے دور رہے اور تلوار زنی، نیزہ بازی اور گھڑ سواری کی جانب رجحان تھا۔

علاؤالدین کے چچا اور خلجی سلطنت کے پہلے حکمراں جلال الدین خلجی ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے، جبکہ بادشاہ کی اہلیہ ان سے خار کھاتی تھیں۔ مجموعی طور پر علاؤالدین کو شاہی نظام میں ہونے والی سیاست اور سازشوں کی وجہ سے بھی وہ پیار نہ ملا، جو ایک بچے کو عموماً اس کے گھر والوں ملتا ہے۔

اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ علاؤالدین شہاب الدین مسعود کے بڑے صاحبزادے تھے، جو سلطان جلال الدین کے بڑے بھائی تھے۔ اور اس ناتے انہوں نے مستقبل میں سلطنت حاصل کرنا تھی۔ یہ بات ان کی چاچی سمیت خلجی خاندان کے بہت سے لوگوں کیلئے قابل قبول نہ تھی۔

دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ علاؤالدین کی عمر کافی کم تھی جب ان کے والد شہاب الدین کا انتقال ہوا۔ انہیں چچا سلطان جلال الدین نے پال پوس کر بڑا کیا۔ جبکہ چاچی کی جانب سے انہیں لعن طعن اور برے رویے کا سامنا رہتا تھا۔ بعض مورخین کا یہ بھی خیال ہے کہ سلطان جلال الدین اپنی اہلیہ کے زیر اثر تھے۔

اس کے برعکس تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ جلال الدین نے علاؤالدین کو نوعمری میں ہی بڑے بڑے عہدوں سے نواز دیا تھا۔ وہ اپنے چچا سلطان جلال الدین کے دست راست اور لاڈلے سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی سلطان نے اپنی بیٹی ملیکہ ای جہاں کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا۔ تاہم اسی تاریخ کو مزید پڑھا جائے تو کئی پہلوؤں سے علاؤالدین ہی اپنے چچا کے قاتل بھی نظر آئیں گے۔

بھارتی مصنف کشوری سرن لال اپنی کتاب ’’ہسٹری آف خلیجز‘‘ میں لکھتے ہیں: علاؤالدین کی ملیکا ای جہاں سے شادی ایک تلخ تجربہ ثابت ہوئی، ان کی ازدواجی زندگی کئی مسائل سے دوچار رہی، جس سے وہ بے حد تنگ تھے۔ ان خرابیوں میں ان کی چاچی/ساس کا عمل دخل واضح تھا، کیونکہ وہ علاؤالدین کو جلال الدین کی حکومت کیلئے خطرہ سمجھتی تھیں۔

کشوری سرن لال کے مطابق جلال الدین کے بادشاہ کی حیثیت سے عروج پانے اور شہزادی بننے کے بعد ملیکا ای جہاں بہت متکبر ہوگئی تھیں اور علاؤالدین پر اپنی شان و شوکت کا رعب جمانا چاہتی تھیں اور انہیں اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ملیکا ای جہاں کی والدہ انہیں شے دیتی تھیں کہ وہ علاؤالدین پر اپنا کنٹرول رکھے۔

16ویں اور 17ویں صدی کے مورخ حاجی الد دابر نے ملیکا ای جہاں سے ناخوشگوار رشتے کو علاؤالدین کی دوسری شادی کی وجہ قرار دیا ہے۔ علاؤالدین نے دوسری شادی ملک سنجر کی بہن مہرو سے شادی کی، جس پر ملیکا ای جہاں کو شدید غصہ آیا اور یہاں سے معاملات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔

اور بات تشدد تک جا پہنچی۔ علاؤالدین کے اس رویے کے بارے میں سلطان جلال الدین کو اطلاع دی گئی کہ وہ ان کی بیٹی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، مگر انہوں نے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کیا۔ جبکہ ان کی اہلیہ خبردار کرتی رہیں کہ داماد علاؤالدین ملک کے دور دراز علاقوں میں اپنی حکومت قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

چاچی کی نفرت کہیں یا دور اندیشی، علاؤالدین اپنے وقت کا سفاک ترین حکمران بن گیا۔ اور اس کی پتھریلی شخصیت نے بڑے بڑے پُل پاش پاش کر دیئے۔ مختلف مورخین نے متفقہ طور پر علاؤالدین کی پیدائش 1266ء کی بتائی ہے، جبکہ جائے پیدائش پر ابہام ہے، اس حوالے سے دہلی کے نواح یا افغانستان کے نام قابل فہم ہیں۔ علاؤالدین پہلے مسلمان حکمران تھے، جنہوں نے جنوبی ہند کو فتح کیا۔ اور ان کی سلطنت اتنے وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی کہ انگریز بھی اتنی بڑی حکومت نہیں بناسکے۔

علاؤالدین بڑے ٹھنڈے دل و دماغ کے مالک تھے اور جلد بازی کی بجائے حالات کے مطابق عمل پیرا ہونے کا حامی تھے، لیکن انتہائی سفاک انسان تھے۔ انہوں نے اپنے بزرگ چچا پر اپنے بھائی الماس بیگ کے ذریعے سے اعتماد کو قائم رکھا اور حصولِ اقتدار کے لیے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے علاوہ مناسب موقع کی تلاش میں رہا۔

1292ء میں علاؤالدین نے سلطان کی اجازت سے مالوہ کے شہر بھلیسا پر فوج کشی کی، جہاں سے انہیں بےانتہا مال وزر بطورِ مالِ غنیمت ہاتھ لگا۔ جس کا بیشتر حصہ سلطان کے پاس دہلی بھجوا دیا۔ علاؤالدین کے اس کارنامے اور دیانتداری سے سلطان اس قدر متاثر ہوئے کہ ’’عارضِ ممالک‘‘ کے اہم ترین عہدے پر متعین کرنے کے علاوہ اودھ کی گورنری بھی عطا کر دی۔

اس طرح کٹرہ مانک پور اور اودھ کے دو اہم ترین صوبے ان کے زیرِاقتدار آگئے۔ اس کے بعد علاؤالدین کی ہوس اقتدار اور بڑھ گئی۔ دیوگڑھی کی مہم میں علاؤالدین کی شاندار کامیابی نے ان کے وقار اور شہرت میں اس قدر اضافہ کیا کہ وہ تختِ دہلی کو حاصل کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔

گھریلو حالات مزید خراب ہو چکے تھے کیونکہ ان کی بیوی ملیکا ای جہاں اور ساس سلطان کو ان سے بدظن کرنے میں مصروف تھیں۔ ان حالات میں علاؤالدین نے اپنے چچا کو راہ سے ہٹا کر خود تختِ دہلی پر قابض ہونے کا منصوبہ بنایا اور سلطان کو کٹرہ بلاکر 20 جولائی 1296ء کو دھوکے سے قتل کروا دیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔

کارا میں 1296ء میں علاؤالدین نے باضابطہ طور پر خود کو ’’علاؤالدین محمد شاہ سلطان‘‘ کے لقب سے دہلی کا نیا سلطان قرار دیا۔ سلطنت کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ہی علاؤالدین کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور 1308ء تک ہندوستان پر منگولوں اور تاتاریوں کی جانب سے حملے ہوتے رہے۔ مگر علاؤالدین نے انہیں پے در پے شکست دی اور ان کا ہندوستان فتح کرنے کا خواب چکنا چور کردیا۔

علاؤالدین نے 1298ء میں جالندھر کی جنگ، 1299ء میں کلی کی جنگ، 1305ء میں امروہ کی لڑائی اور 1306ء میں راوی کی لڑائی سمیت 1308ء میں افغانستان کے غزنی کی جنگ میں منگولوں کا مقابلہ کیا، جن کا خوف پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔ علاؤالدین نے انہیں شکست دے کر فتح حاصل کی۔

ان مہمات سے فارغ ہوکر علاؤالدین خلجی نے اپنے انتہائی قابل اعتماد جنرل ملک کافور کی مدد سے جنوبی ہندوستان کو فتح کیا تھا۔ تاریخ کے انتہائی دلیر مگر سفاک حکمراں علاؤالدین خلجی 1316ء میں جسم میں پانی بھر جانے کی وجہ سے 49 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انہیں اپنے زندگی کے آخری ایام میں ورم کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔

جبکہ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ ان کے کمانڈر اور قریب ترین سمجھے جانے والے ملک کافور نے انہیں 4 اور 5 جنوری کی درمیانی شب زہر دے کر مار ڈالا۔ علاؤالدین خلجی کی موت کے چند برس بعد ہی خلجی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور پھر تغلق خاندان نے ہندوستان پر حکومت کی۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے