تازہ ترین

آبائی علاقوں سے دربدر آسٹریلوی پرندے چہچہانا بھول گئے

abai elaqon se darbadar australian parinde chehcehana bhool gae
  • واضح رہے
  • اپریل 5, 2021
  • 10:48 شام

ماحولیاتی اثرات اور اپنی پیدائش کی جگہ تبدیل ہونے سے ”ہنی ایٹرز“ نامی نایاب پرندے وہ گانا/ دُھنیں بھول گئے جس سے وہ مادہ کو لبھاتے تھے

افسوس کا مقام ہے کہ انسانوں کی جانب سے قدرت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کا خمیازہ بے زبان پرندے بھگت رہے ہیں۔ انسان جو بظاہر اپنی زندگی بہتر کرنے میں جٹا ہوا ہے، وہ دراصل کائنات کے ان چرند پرند کا بالواسطہ طور پر دشمن بنا ہوا ہے۔

جیسا کہ قارئین سرخی پڑھ چکے ہیں کہ آسٹریلیا میں ”ہنی ایٹرز“ نامی پرندوں کی ایک نسل چہچہانا بھول گئی ہے اور ماہرین اس کا سبب بتانے سے اجنتاب کر رہے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس کا سبب وہ ماحول ہے جس سے اب ہنی ایٹرز محروم ہوچکے ہیں۔ ان کے ارد گرد پہلے سکون بخش قدرتی ماحول ہوا کرتا تھا۔ لیکن انسانوں کی ارتقاء کے سبب ان سے وہ ماحول بہت حد تک چھن چکا ہے۔

ہنی ایٹرز جس علاقے میں پرورش پایا کرتے تھے وہاں اب بڑے بڑے پرندے آکر بسنا شروع ہوگئے ہیں، کیونکہ وہ بھی اپنے علاقوں سے دربدر ہوگئے ہیں۔ اور زیادہ طاقتور ہونے کے سبب وہ ہنی ایٹرز کے علاقے میں پھیل چکے ہیں اور اس سے ان کی آبادی پر فرق پڑ رہا ہے۔

اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے آسٹریلوی سائنسدانوں نے ایک ایسا تجربہ کیا ہے، جو ان پرندوں کی بحالی کے بجائے انہیں مزید اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اب ماہرین جنگلات میں میوزک تھراپی کی مدد سے ہنی ایٹرز کو ان کا بھولا بسرا گانا یاد کرانے کی مشق کرا رہے ہیں، جن سے نر پرندے مادہ کو لبھاتے تھے اور یوں ان کی نسل کی پڑھوتری ہوا کرتی تھی۔

abai elaqon se darbadar australian parinde chehcehana bhool gae

 

وہ مشرقی آسٹریلیا کے جنگلات میں موسیقی کے جدید ڈیجیٹل آلات کی مدد سے اس پرندے کی بقایا نسل کو توجہ دے رہے ہیں اور ان کیلئے ڈیجیٹل ساﺅنڈز ٹریکس نصب کئے گئے ہیں۔ تاہم یہ تجربہ الٹ ہوگیا ہے اور ہنی ایٹرز اپنی بھولی ہوئی دھنیں گانے کے بجائے غلط گانا گا رہے ہیں، جس کی تصدیق برطانوی جریدے گارجین نے بھی کی ہے۔

واضح رہے کہ اپنا رواپتی گانا بھول جانے اور اب غلط دھن میں چہچہانے سے اس پرندے کی نسل کی معدومی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

آسٹریلیا کے مشرقی جنگلات میں ہزاروں کی تعداد میں پائے جانے والے ”ہنی ایٹرز“ یا ”ہنی برڈ“ نامی یہ پرندے گانا اور چہچہانا بھول جانے کی وجہ سے جوڑے نہیں بنا پا رہے ہیں جس کی وجہ سے اس نسل کے نر پرندے نا تو گا رہے ہیں اور نا ہی ان کی چہکار کی وجہ سے متاثر ہوکر ان کے پاس مادہ پرندے آرہی ہیں، اسی لئے ان کی جانب سے نئے گھونسلے اور انڈے بچوں کا مرحلہ یکسر ٹھہر چکا ہے اور یوں ان کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔

دی آسٹریلین یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ہنی برڈز نامی اس شکر خور نر پرندوں کی کل تعداد محض 300 باقی رہ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ پرندہ آسٹریلیا میں کئی دہائیوں تک بہت بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا۔

abai elaqon se darbadar australian parinde chehcehana bhool gae

 

آسٹریلیا کی ”نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز“ کی جدید تحقیق میں کہا گیا ہے کہ نسل کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھنے والے بڑے پرندے اب آہستہ آہستہ معدومی کا شکار ہو رہے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق ہنی ایٹرز گنجان ماحول میں خوب زور و شور سے گاتے ہیں جن میں مختلف قسم کی پیچیدہ دھنیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

آسٹریلیوی محقق راس کریٹس نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی اور سائنسی ماہرین کی تحقیق کے مطابق نر پرندے جوڑا بنانے، گھونسلا تعمیر کرنے اور انڈے دینے، سہنے اور ننھے بچوں کی افزائش عمل سے قبل خاص قسم کی چہچہاہٹ بھری خوبصورت آوازیں نکالتے تھے اور بڑے نر پرندوں کی اس چہچہاٹ کو دیکھنے اور سننے والے چھوٹے نر پرندے اسی ماحول سے خود بھی چہچہانا سیکھتے تھے، لیکن بڑے پرندے مسلسل کم ہونے کی وجہ سے اب وہ ان آوازوں سے نابلد ہو چکے ہیں اور اگر چہ کہ اب وہ خود بالغ ہیں لیکن اپنے بڑوں جیسی چہچہاہٹ کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ایک اور آسٹریلوی محقق ڈیجن اسٹوجینووک کہتی ہیں کہ گانے والے پرندوں میں جنسی عمل ابھارنے والے گانے ان کی آبادی کو بڑھانے کیلئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ آسٹریلوی محققین نے یہ تشویش ناک بات بھی منکشف کی ہے کہ اس وقت شہری آبادی میں صرف 18 نر پرندے باقی بچے ہیں، جو پوری ہنی برڈز آبادی کا محض 12 فیصد ہیں۔ یہ شاندار پرندے دوسرے پرندوں کے گانوں کی نقل تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے روایتی نغمے نہیں گا سکتے۔

واضح رہے کہ پروں میں کالے اور پیلے رنگ کے نشانات رکھنے والا کمیاب پرندہ پہلے مشرقی آسٹریلیا کے بیشتر علاقوں میں پایا جاتا تھا، مگر اب یہ جنوب مشرق کے جنگلات تک محدود ہے اور اب پرانے نغمے فراموش کرچکا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے