تازہ ترین

60 برس میں امیر اور غریب ممالک کی فی کس آمدنی میں 400 فیصد فرق ریکارڈ

60 baras main ameer aur ghareeb ki fi kas amdani main 400 feesad farq record
  • واضح رہے
  • نومبر 27, 2020
  • 10:23 شام

مغربی بلاک کے بنائے گئے عالمی ادارے غربت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نو آبادیاتی ادارے ہیں۔ مقصد غریب ممالک کے وسائل لوٹنا ہے۔ میاں زاہد حسین

کراچی: معروف صنعتکار میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کی موجودگی میں دنیا میں کبھی امن اور خوشحالی نہیں آ سکتی نہ بھوک اور جہالت کا خاتمہ ممکن ہے۔ ان اداروں کا ظاہری مقصد غریب ممالک کی امداد ہے جبکہ حقیقی مقصد عالمی سطح پر مغربی ممالک کے مفادات کی تکمیل اور انکی اجارہ داری کو طول دینا ہے جس کے لئے غریب ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایف اے ٹی ایف مغربی بلاک کے بنائے ہوئے تمام ادارے غربت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ 1960 سے اب تک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی فی کس آمدنی کے فرق میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے جو اس وقت تک بڑھتا رہے گا جب تک یہ ادارے اپنی نو آبادیاتی پالیسیاں جاری رکھیں گے جس نے عالمی تجارتی نظام کو غیر متوازن کر رکھا ہے۔

ان اداروں میں جمہوریت کا نام و نشان نہیں ہے اور انہیں ڈکٹیٹرشپ کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سربراہوں کو الیکٹ نہیں سلیکٹ کیا جاتا ہے اور ووٹ کا نظام بھی ایسا بنایا گیا ہے جو مغربی ممالک کے حق میں جاتا ہے جس سے دنیا کے مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

دنیا کی 85 فیصد آبادی جو مغربی ممالک پر مشتمل نہیں ہے کو ووٹنگ کے پراسس میں بھی کھڈے لائن لگایا ہوا ہے۔ اگر امیر اور غریب ممالک کے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے توان اداروں میں ایک برطانوی ووٹ بنگلہ دیش کے 41 ووٹوں کے برابر ہے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق برطانیہ نے 1765 سے لے کر 1938 تک ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر اپنے پاس منتقل کئے جو اسکے آج کے جی ڈی پی سے17گنا زیادہ ہےں ۔ اس سے برطانیہ نے ترقی کی جبکہ ہندوستان کے رہنے والوں کی آمدنی نصف سے بھی کم رہ گئی جبکہ غریب ممالک جن کے خام مال اور مزدوروں کے بغیر امیر ممالک کا نظام نہیں چل سکتا کے ساتھ آج بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے