ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (تیسرا حصہ)

tipu sultan ki 49 saal ki zindagi part 3
  • واضح رہے
  • جولائی 31, 2021
  • 9:21 شام

مرہٹوں اور نظام جنہوں نے انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ موقع ملتے ہی دوسری کشتی کے سوار ہوگئے

مرہٹوں اور نظام کے ساتھ شراکت داری کے زمانے میں بادشاہ نے سلطان کا لقب اختیار کیا تھا، جسے دونوں ہمسایہ ممالک نے تسلیم کیا۔ خطبے میں مغل حکمران کی جگہ اپنا نام شامل کرایا۔ نیا روپیہ جاری کیا۔ انتظامی معاملات درست کئے۔ نیا آئین حکومت نافذ کیا۔

سرنگا پٹم میں مسجد اعلیٰ کی تعمیر کا کام مکمل کیا گیا۔ سن ہجری کی جگہ سن محمدی جاری کیا جو آغاز نبوت سے شروع ہوتا تھا۔مہینوں کے نئے نام رکھے اور ملک بھر میں مختلف صنعتیں جاری کروائیں۔

۱۷۸۴ء میں سلطان نے عثمان خاں کو سفیر بناکر قسطنطنیہ بھیجا تھا۔ وہاں سے حوصلہ افزا جواب آیا تو غلام علی خان لنگڑے، شاہ نور اللہ، لطف اللہ، لطف علی بیگ اور محمد حنیف کو ایک سفارت پر روانہ کیا۔ جسے قسطنطنیہ کے بعد فرانس اور پھر انگلستان بھی جانا تھا، مگر یہ سفارت صرف ترکی ہی سے واپس لوٹ آئی۔

سلطان ترکی نے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ٹیپو سلطان کیلئے پروانۂ سلطان بھجوایا۔ اسی طرح سلطان نے کریم خاں زند،حاکم ایران، زمان شاہ درانی حاکم افغانستان اور شاہ فرانس کے پاس بھی الگ الگ سفارتیں بھجوائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (دوسرا حصہ)

اس وقت لارڈ کارنواس گورنر جنرل بن کر ہندوستان آیا۔ اس نے آتے ہی تمام معاہدوں سے انحراف شروع کردیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹیپو سلطان کو شکست دیئے بغیر انگریزی حکومت قائم کرنے کے خواب کی تعبیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ سلطان کے خلاف فوجی برتری نہ ہونے کے سبب کارنواس نے سازشوں کا ایک جال بچھانا شروع کردیا۔

ادھر مرہٹوں اور نظام کے ساتھ انگریزوں کی گفت وشنید جاری تھی کہ ٹراونکور کے راجہ نے انگریزوں کی شہ پر سلطانی علاقہ کوچین پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران ٹراونکور نے دلندیزیوں سے دو قلعے جیاکوٹہ اور کرنگانور خرید لئے، جو دفاعی لحاظ سے میسور کی سرحد پر اہم حیثیت رکھتے تھے۔

کارنواس نے اس سودے پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اور دلندیزی گورنر نے بھی اس میں اپنی عدم واقفیت کا اظہار کیا۔ ان حالات میں دسمبر ۱۷۸۹ء کو جب ٹیپو سلطان نے اپنی سرحدوں کا جائزہ لیا تو انہوں نے راجہ کو ایک خط لکھا کہ دونوں قلعے اسے واپس کردیئے جائیں۔ نیز کوچین کا علاقہ بھی واپس کردیا جائے۔

راجہ کے غیر ذمہ دارانہ جواب پر ٹیپو سلطان نے اس کی گو شمالی کرنے کیلئے کچھ فوج بھیجی، جس کے ساتھ راجہ کی فوجوں کی چھوٹی سی جھڑپ ہوئی۔جولائی ۱۷۹۰ء میں مدراس کے گورنر نے کانواس کی ہدایت کے مطابق ٹیپو سلطان کو لکھا کہ جھگڑے کے تصفیے کیلئے کمشنر مقرر کئے جائیں۔

ٹیپو سلطان نے اتفاق کیا اور کہا کہ بہتر ہے کمشنر اس کے پاس بھیج دیئے جائیں۔ جب میڈوز گورنر بنا تو اس نے کمشنر سے انکار کردیا۔ ٹیپو سلطان نے اپنے سفیر بھیجنا چاہے تو اس پر بھی نہ مانا اور کہلا بھیجا کہ صلح چاہتے ہو تو تاوان ادا کرو۔

بعد کے واقعات جو بھی ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے ٹراونکور کے واقعہ کو بہانہ بناکر تیسری بار حملہ کردیا۔ ابتدا میں جنرل میڈوز نے فوج کی کمان سنبھالی۔ اس نے جنوبی سمت سے میسور پر حملہ کردیا۔

مئی سے دسمبر ۱۷۹۰ء تک اس کے حملے ناکام رہے۔ فروری ۱۷۹۱ میں کارنواس نے کمان سنبھالی اور سیدھا بنگلور کی طرف بڑھا۔ سلطانی فوج مدافعت میں ناکام رہی اور کارنواس نے بنگلور کو فتح کرنے کے بعد مئی ۱۷۹۱ میں سرنگاپٹم کا محاصرہ کرلیا۔ مگر چیچک پھوٹ پڑنے کی وجہ سے محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (پہلا حصہ)

ابھی کارنواس محاصرہ اٹھاکر پلٹا ہی تھا کہ مرہٹے اس کی مدد کو آگئے۔ اور یوں فروری ۱۷۹۲ء میں اس نے دوبارہ سرنگا پٹم کا محاصرہ کرلیا۔ سامان رسد کی موجودگی میں اسے محاصرے کی طوالت کا کوئی خوف نہ تھا۔ جبکہ سلطانی فوج ہر قسم کی کمک سے محروم ہو چکی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب انگریز چاہتے تو سلطنتِ میسور کا خاتمہ کرسکتے تھے، مگر ٹیپو سلطان کا دبدبہ ان پر اس قدر طاری ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کو مصالحت کا پابند بنانے میں ہی عافیت جانی۔

اس مصالحت میں طے پایا کہ:

۱۔ ٹیپو سلطان نصف سلطنت اتحادیوں (انگریز، مرہٹے اور نظام) کے حوالے کردے۔

۲۔ تین کروڑ تیس لاکھ پگوڈے کی رقم تاوان دے۔ اس میں سے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ کی رقم فوراً ادا کی جائے اور باقی رقم فی الفور ادا کردی جائے۔

۳۔ تمام اسیرانِ جنگ رہا کر دیئے جائیں۔

۴۔ معاہدے کی شرطیں پوری ہونے تک سلطان کے دو بیٹے بطور یرغمال اتحادیوں کے پاس رہیں۔

اس معاہدے سے ٹیپو سلطان پر سیاسی، معاشی اور انتظامی طور پر سخت ضرب لگی۔ اندازہ لگانے کی بات ہے کہ جس ملک کا مالیہ ڈھائی کروڑ ہو، وہ نصف ملک بھی ہاتھ دے اور تین کروڑ سے زیادہ تاوان بھی دے۔ اس کی معاشی حالت کیسی ہوجائے گی۔

اس کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہ ہاری اور ان کی ادالعزمی میں کوئی فرق نہ آیا اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ جفاکشی کے ساتھ انتظام سلطنت میں لگ گئے۔ انہوں نے سرکشوں کی سزا دی اور وفا داروں سے حلف لیا ۔ اسی طرح شعبہ زراعت کی حوصلہ افزائی کی اور فوج کو ازسر نو مستحکم کیا۔ یوں صرف پانچ ہی برس کی انتھک محنت سے ملکی معیشت کو سنبھالا دیا۔

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے