تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دسواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 10
  • واضح رہے
  • اپریل 27, 2021
  • 5:14 شام

شاہ جہان کے ایک غیر مستحکم عہد میں اورنگزیب عالمگیر کو حکومتی عملداری بحال اور برقرار رکھنے کیلئے متعدد ریاستوں کا گورنر لگایا گیا تھا

شاہ ایران نے محض مذہبی تعصب کو ہوا دیتے ہوئے دکن کی حکومتوں کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مذہب اور عقیدے کی بنا پر ابھارا اور پھر بھی ہندوستان میں اپنی سلطنت کو وسعت دینے میں ناکام رہا، کیونکہ اس کے سازشی منصوبوں کے سامنے اورنگزیب عالمگیر کھڑا تھا۔

26 فروری 1636ء میں اُس وقت کا بادشاہ شاہ جہاں خود اورنگزیب کے ساتھ دولت آباد آیا، اپریل 1636ء میں اورنگزیب کو علاقہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ دکن کے جن علاقوں کا اسے گورنر مقرر کیا گیا ان میں چار صوبہ جات اور 84 قلعہ جات تھے۔ ان چار صوبوں میں 2 بالا گھاٹ میں تھے۔ ان میں ایک خاندیش جس میں اسیر گڑھ کا قلعہ اور مشہور شہر برہان پور تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

دوسرا ابرار تھا جس کا مشہور قلعہ کاویل تھا۔ بقیہ صوبوں میں ایک صوبہ دولت آباد اور احمد نگر کو ملا کر بنایا گیا تھا اور دوسرا صوبہ تلنگانہ جس کا مشہور شہر قندھار تھا اور اس کی سالانہ آمدنی 5 کروڑ روپے تھی۔ خان زماں اور خاں جہاں کو بطور مددگار اور آغا افضل کو اعتماد خاں کا خطاب دے کر دیوان مقرر کیا گیا تھا۔

خاں زماں کا ایک سال بعد انتقال ہوگیا تو شائسہ خاں کو اس کی جگہ روانہ کیا گیا۔ ایک سال کے بعد اورنگزیب کو شادی کے سلسلے میں دارا سلطنت واپس آنا پڑا اور یہاں کچھ عرصے قیام کے بعد اس حکم کے ساتھ واپس بھیجا گیا کہ وہ فوراً جاکر نکلانہ پر قبضہ کرلے۔

اس موقع پر شاہ جہاں اور دکن کی ریاستوں کے مابین ایک بار پھر سیاسی کشمکش ششروع ہوگئی جو اس کے دور کے اختتام تک جاری رہی۔ 1657ء میں جب ایک بڑی فوج کو عالمگیر کو مزید تقویب پہنچانے کیلئے بھیجا گیا تو بیجا پور اور گولکنڈہ علاقے مغلوں کو سیاست کو قبول کرنے پر مجبور ہوگئے۔

تاہم عین فتح کے وقت جب ان قلعوں کی چابیاں اورنگزیب کے حوالے کی جا رہی تھیں تو شاہی فوجوں کو ایک دم واپسی کا حکم ملا اور بادل نخواستہ اورنگزیب کو ان ریاستوں سے صلح کرنا پڑی اور خود بھی اپنی مہم کا خاتمہ کرکے شمالی ہند کی طرف جانا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

شاہ جہاں کا عہد دکن کی ریاست میں ایک اکھاڑہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بادشاہ کے وقتاً فوقتاً ایسے احکام پہنچتے تھے جو گورنر (اورنگزیب) کو عجیب و غریب حالات سے دوچار کردیتے تھے۔ دکن کی یہ ریاستیں دوہری پالیسی پر عمل پیرا تھیں۔ ایک طرف تو وہ اورنگزیب سے تعلق رکھے ہوئے تھیں تو دوسری جانب ان کا براہ راست تعلق دربار دہلی سے تھا جو دراصل دارالشکوہ سے تعلقات تھے۔

اپنی اس دوغلی اور دوہری پالیسی کی وجہ سے دکن کی یہ ریاستیں شاہ جہاں کے عہد میں اپنی بقا کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ جبکہ اپنی حکومت کے آخری حصہ میں شاہ جہاں کی سوجھ بوجھ درباری سازشوں کی شکار ہوکر رہ گئی تھی۔ دارا کے زیر اثر ہونے اور اورنگزیب سے دور رہنے سمیت اورنگزیب دشمنی کی وجہ سے مغل دکن میں کامیابی سے پوری طرح ہمکنار نہیں ہوسکے تھے۔

مغلوں کو یہ کامیابی بڑی حد تک اورنگزیب کے دورِ حکومت میں حاصل ہوئی۔ 31 جولائی 1658ء میں اپنی عارضی تخت نشینی کے بعد اورنگزیب نے دکن کی سیاست میں اس واسطے زیادہ دلچسپی لی کہ اس نے اپنی جوانی کا ایک لمبا عرصہ یہاں گزارا تھا اور دکن کی سیاست کے زیرو بم سے بخوبی واقف تھا۔

اورنگزیب عالمگیر کی تخت نشینی کے ابتدائی دور میں دکن کی ریاستوں کی مالی حالت بے حد خراب تھی اور سیاسی اعتبار سے وہ غیر مستحکم تھیں۔ لیکن اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود وہ مرہٹوں کو ہر قسم کی مدد فراہم کرتی تھیں، جو اس علاقے میں غلط مغل پالیسی کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئے تھے۔

اورنگزیب نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی دکن کی طرف توجہ دی مگر اس جگہ شاید شمالی ہند کے ساسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سیاسی ٹھکر کھا گیا اور وہ یہ تھی کہ اپنی حکومت کے ابتدائی دور سے دکن کی مہموں میں خود شریک نہ ہوا اور اس کی تمام تر ذمہ داری مغل جرنیلوں پر چھوڑ دی۔

شائسہ خاں اور پھر دلیر خاں کو روانہ کرنے کا نتیجہ الٹ نکلا اور حالات سدھرنے کے بجائے بگڑتے چلے گئے۔ دلیر خاں کی دکن میں فوجی کمانڈر کی حیثیت سے تعیناتی کے بعد وہ مکمل طور پر دکن کی سیاست میں چھایا رہا، چنانچہ 1678ء سے 1679ء میں گولکنڈہ کے ہاتھوں بیجا پور کو شکست ہوئی اور بیجا پور میں سیاسی بحران نے یہ کیفیت پیدا کر دی کہ حکومتی رٹ بظاہر ختم ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (آٹھواں حصہ)

اورنگزیب عالمگیر کو جب ان باتوں کا علم ہوا تو اس نے ایک حکم نامہ کے تحت دلیر خاں کو تنبیہ کی اور حکم دیا کہ بیجا پور کو مکمل طور سے مغل سیادت میں لایا جائے۔ چنانچہ مغل اثر کو ریاست میں مزید بڑھانے کیلئے اس نے اپنی سیاست میں اس امر کی بھی کامیابی حاصل کرلی کہ عادل شاہ کی لڑکی بادشاہ بی بی سے کسی مغل شہزادے کی شادی کردی جائے، جس میں وہ کامیاب بھی رہا۔

اورنگزیب کو اب تک دکن میں صرف اس قدر دلچسپی تھی کہ وہ جرنیلوں کی مدد سے اس علاقے میں امن و امان قائم رکھے اور مفسد عناصر کو زیادہ اٹھنے کا موقع نہ دے، لیکن 1680ء میں شہزادہ اکبر کی بغاوت اور اس کے دکن فرار ہونے کی وجہ سے عالمگیر نے دکن کی فوجوں کی قیادت خود اپنے ہاتھ میں لے لی تھی، تاکہ باغی شہزادے کی دکن میں موجودگی کے باعث کوئی نازک صورتحال پیدا نہ ہو پائے۔

اورنگزیب کی دکن جانے کی وجہ صرف یہی ایک تھی اور ویسے بھی اس کے فیصلوں کی بدولت علاقے میں حالات اتنے سازگار ہوگئے تھے کہ وہ دکن میں رہے اور یہاں کی مختلف مہمات جو ادھوری پڑی تھیں، کو پورا کرکے ہی لوٹے۔ شہزادہ اکبر کو تنہا جرنیلوں کی نگرانی میں چھوڑ دینا بھی مناسب نہ تھا، کیونکہ اس نے مرہٹوں کے یہاں پناہ لے رکھی تھی۔

بادشاہ کو اندازہ تھا کہ مرہٹے دکن کی ریاستوں کی مسلسل مدد کی وجہ سے کافی طاقت ور ہو چکے تھے۔ ان مرہٹوں کی طاقت کو توڑنے کیلئے دکن کی ان دونوں ریاستوں کا خاتمہ ضروری تھا اور یہ اونگزیب کی دکن آمد کے بعد اس کی پالیسی کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ عملاً یہ چیز اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوئی جب ان دونوں ریاستوں کی تباہی کے ساتھ مرہٹہ طاقت کو بھی زوال آیا۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے