تازہ ترین

ذیابطیس سے نبرد آزما محمد علی باکسنگ بھی لڑ رہے ہیں

پاکستانی نژاد برطانوی باکسر محمد علی
  • واضح رہے
  • اپریل 7, 2019
  • 1:18 شام

پاکستانی نژاد برطانوی باکسر محمد علی دنیا کے پہلے ڈائیبٹک باکسنگ چیمپئن بننا چاہتے ہیں۔روچڈیل میں رہائش پذیر 24 سالہ علی اپنی چاروں ابتدائی فائٹس بآسانی جیت چکے ہیں۔

حال ہی میں ہونے والی فائٹ میں محمد علی نے برطانوی باکسر ایم جے ہال کو چت کیا۔ یہ فائٹ برطانیہ کے شہر بولٹن کے مکرون اسٹیڈیم میں ہوئی، جس میں نوجوان باکسر نے حریف کو متعدد بار ناک ڈائون کیا اور فائٹ 36 کے مقابلے میں 40 پوائنٹس سے اپنے نام کی۔ یوں محمد علی نے اب تک ہونے والی چاروں بائوٹس پوائنٹس کی بنیاد پر جیتیں اور اب وہ اگلے مقابلے میں حریف کو ناک آئوٹ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ 7 ماہ قبل باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والے پاکستانی نژاد باکسر محمد علی نے ”واضح رہے“ سے اپنے ابتدائی کیریئر اور ذاتی زندگی سے متعلق گفتگو کی، جسے انٹرویو کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

س: آپ کا آبائی تعلق کہاں سے ہے؟

ج: میرا آبائی تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع لیّہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن سے ہے۔ میرے والد برٹش پاکستانی تھے، جنہوں نے پاکستان آکر میری والدہ سے شادی کی اور پھر دوبارہ برطانیہ آگئے۔ ہم دو بہن بھائی ہیں۔ میرے والدین نے ہر موقع پر مجھے سپورٹ کیا، میرے لئے دعائیں کیں اور مجھے کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ میں آج جس مقام پر ہوں اپنے والدین اور ٹرینرز کی بدولت ہوں۔ والدہ مجھے ہمیشہ ٹریننگ کی پابندی کرنے کا کہتی ہیں اور ڈائٹ کیلئے خود خوراک تیار کرتی ہیں، تاکہ میں فٹ رہوں۔

س: آپ کو ذیابیطس کی تشخیص کب ہوئی؟

 ج: 4 برس کی عمر میں پتا چلا کہ مجھے ٹائپ ون ڈائبیٹیز ہے۔ میں دن بدن کمزور ہو رہا تھا، جس پر والدین مجھے اسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ مجھے یہ بیماری ہے۔ میرے والد اور والدہ دونوں کو شوگر نہیں۔ البتہ میرے دادا کو یہ مرض ضرور لاحق تھا۔ تاہم میں نے ذیابیطس کو کبھی اپنی کمزوری نہیں سمجھا، بلکہ اس مرض سے لڑ لڑ کر میں مزید مضبوط ہوا ہوں اور پہلا ڈائیبٹک باکسر بن کر میں نے تاریخ رقم کی ہے۔

س: پروفیشنل باکسر بننے کا خیال ذہن میں کب آیا؟

ج: میں نے 13 برس کی عمر میں پیشہ ور باکسر بننے کی ٹھان لی تھی۔ میں نے اسکول اور کالج میں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال تقریباً سبھی گیم کھیلے ہیں۔ بچپن سے ہی کھیلوں کی طرف رحجان تھا، لیکن باکسنگ میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود ہار نہیں مانی۔ یہی وہ وقت تھا جب میں نے برٹش باکسنگ بورڈ میں پروفیشنل باکسر بننے کی درخواست دی، جسے بورڈ نے مسترد کر دیا۔ درخواست یہ کہہ کر مسترد کی گئی تھی کہ برٹش باکسنگ بورڈ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ڈائبٹیز کو لائسنس نہیں دیتا۔ اسی سال 2015ء میں میرے مخلص دوستوں نے ٹرینرز اور ڈاکٹرز کی ایک ٹیم تشکیل دی، جنہوں نے مجھے بطور پروفیشنل باکسر تیار کیا۔ اس میں میری ڈائٹ کا عمل دخل بہت زیادہ ہے اور اس حوالے سے بہت احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ مجھے پروفیشنل باکسر بنانے میں باسکنگ پروموٹر اسد شمیم کا کلیدی کردار ہے، جو اب میرے منیجر ہیں۔ ڈاکٹر ایان گیلین، اسد شمیم اور اپنے ٹرینر ایلیکس میٹویینکو کی مدد سے میں نے برٹش باکسنگ بورڈ کو چیلنج کیا اور تقریباً تین سال کی مسلسل محنت و کوشش کے بعد مئی 2018ء میں پرفیشنل لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

س: آپ نے مستقبل کے حوالے سے کیا پلاننگ کی ہے؟

ج: میں دنیا کا پہلا ڈائیبٹک باکسر بننا چاہتا ہوں۔ ورلڈ ٹائٹل کیلئے 2020ءتک مشکل حریف کو چیلنج دوں گا۔ یہ میرے کیریئر کی ابتدا ہے۔ گزشتہ برس مئی میں برٹش باکسنگ بورڈ کی جانب سے باکسنگ کی اجازت ملنے کے بعد سے چاروں فائٹس اپنے نام کر چکا ہوں۔ 15 سمتبر 2018 کو ہونے والی کیریئر کی پہلی فائٹ میں، میں نے لتھوانیا کے باکسر آندریج سیپر کو ہرایا۔ 17 نومبر کو دوسری فائٹ میں ڈینی لٹل کو مات دی۔ 8 دسمبر کو برطانوی حریف جیک فلیٹلی کو شکست سے دو چار کیا۔ اور 9 مارچ کو ایم جے ہال کیخلاف ہونے والی فائٹ بھی اپنے نام کی۔ میں اب بھی یہی کہوں گا کہ یہ میرے کیریئر کی شروعات ہے۔ میں اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھوں گا اور انشاءاللہ کسی حریف کو ناک آئوٹ بھی کروں گا۔

س: کیا آپ پاکستان آنے کی خواہش رکھتے ہیں؟

ج: میں گزشتہ برس ایک اسپورٹ ایونٹ میں شرکت کیلئے پاکستان آیا تھا اور لاہور پریس کلب میں صحافیوں سے بھی ملاقات کی تھی۔ میری خواہش ہے کہ میں ایک بار پھر پاکستان آئوں اور کراچی، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں کا دورہ کروں۔ میری خواہش ہے کہ میں پاکستان میں ایک ڈائبیٹک سینٹر قائم کروں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 17 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ انٹرنیشنل ڈائبیٹک فیڈریشن کے مطابق اس وقت دنیا میں 425 ملین افراد ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہیں، جن میں سے 70 فیصد کا تعلق پسماندہ ممالک سے ہے۔ میں ذیابطیس کیخلاف اپنی لڑائی کے نتائج سے ہم وطنوں کو مستفید کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے ملک اور عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے