تازہ ترین

عہد ساز شخصیت مولانا نظام الحق تھانوی کا پہلا انٹرویو (حصہ اول)

مولانا نظام الحق تھانوی
  • محمد عدنان کیانی
  • اپریل 9, 2019
  • 10:01 شام

آپ مشہور و معروف عالم دین اور خطیب پاکستان مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے صاحبزادے ہیں، جو کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بھانجے تھے۔

ایک نامور خاندان کی نسبت کے ساتھ عالمی شہرت یافتہ خطیب و اسکالر اور اسلامی مبلغ ہیں، جن کے ہاتھوں پر کئی غیر مسلم کلمہ شہادت پڑھ چکے ہیں۔ کرائسٹ چرچ میں نہتے مسلمانوں پر دہشت گرد حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن پاک کی سعادت آپ کے حصے میں آئی۔ غیر مسلم ملک کی پارلیمنٹ میں قرآن پاک کی تلاوت کے واقعے کو عالمی میڈیا، اخبارات و جرائد نے بھرپور نشر کیا اور اسے ایک تاریخی واقعہ قرار دیا۔ مولانا نظام الحق تھانوی آج کل نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن میں سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کا پہلا انٹرویو ہے، جو آپ نے اپنی شدید مصروفیات میں سے وقت نکال کر ‘‘واضح رہے’’ کو دیا ہے۔

س: حضرت آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج: میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا بیٹا ہوں، میری تاریخ پیدائش 4 دسمبر1953  ہے اور میں کراچی کے علاقے  جیکب لائن  میں پیدا ہوا، بچپن کے دن جیکب لائن اور دہلی مرکنٹائل سوسائٹی میں گزرے۔ ہم الحمدللہ 13 بہن بھائی تھے۔ میرا نمبر بھائیوں میں پانچواں ہے ہم 8  بھائی تھے، اب7  رہ  گئے اور 5  بہنیں ہیں۔ ایک بھائی شان الحق اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں جو مجھ سے چھوٹے تھے۔ میں آسٹریلیا میں تقریباً 25  برس رہا ہوں اور اب 7 یا8  ماہ سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہوں۔ یہاں کیلبرنی مسجد میں میری خطابت بھی ہے، تدریس بھی ہے اور ہم یہاں بچوں کو مکتب کا کورس بھی پڑھاتے ہیں۔ ہمارے والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ موچی جہاں بھی جائے اسے جوتے ہی گاٹھنے پڑھتے ہیں بہرحال ہم جہاں بھی جاتے ہیں اللہ تعالی نے ہمارے لئے دین کا کام مختص کیا ہے  جو ہماری خوش قسمتی ہے۔ ہمارے والد صاحب رعب دار شخصیت کے مالک تھے مگر اتنے سخت مزاج بھی نہیں تھے کہ ہم ان سے بات نہ کرسکیں۔ ہم مختلف محفلوں میں ان کی باتوں سے، ان کی طبیعت سے اور ہر طریقے سے استفادہ کرتے تھے۔ والد صاحب کا انتقال1980  میں ہوا۔1978 میں جب میں شادی سے پہلے برطانیہ سے واپس وطن آیا تو ایک بار والد صاحب فرمانے لگے کہ بھئی وہ  آپ کے سسر شادی کیلئے جلدی کررہے ہیں تو میں نے کہا کہ ابا جی کچھ عرصہ اگر رک جائیں، میں کوئی جاب کر لوں، اس کے بعد شادی کرلوں گا۔ تو فرمایا اچھا اگر نوکری نہیں ملے گی تو پھر شادی نہیں کروگے؟ اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں کوئی نوکری مل جائے گی پھر اس کے بعد شادی کرو گے تو یہ میں تمہیں بتادوں کہ اللہ تعالی نے کس کی قسمت سے کس کس کا رزق لکھا ہے کسی کو نہیں پتا! تو جو اللہ کے احکام ہیں، حضوراکرم ﷺ کے درس ہیں اس پر عمل کرو۔ یہ اللہ کی دین ہے، رزق اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے اسے زندگی کے معاملات میں مخل نہیں ہونا چاہئے۔ میرے الحمدللہ7 بچے ہیں، جن میں 4 بیٹیاں اور 3  بیٹے ہیں۔ سب آسٹریلیا میں ہی مقیم  ہیں۔

س: اپنی تعلیم، اساتذہ و بزرگوں اور روحانی تعلق کے بارے میں بھی بتائیں؟

ج: میں نے جیکب لائن میں اپنی مسجد میں حافظ نذیر احمد صاحب سے تجوید و ناظرہ پڑھا۔ اس کے بعد جامعہ اشرفیہ سے بھی تجوید پڑھی، ہم جیکب لائن کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ اس میں  ہمارا یونیفارم نیلی پینٹ، سفید قمیض اور لال ٹائی تھا۔ لیکن چونکہ ہم ایک دینی گھرانے سے تعلق  رکھتے تھے تو ظاہر ہے ہماری ٹائی نہیں ہوا کرتی تھی، ہمیں یہ اہمیت نہیں پتا تھی کہ بھئی ٹائی کیوں نہیں پہننی! بس یہ پتا تھا کہ ابا کہتے تھے کہ نہیں تو بس ٹائی نہیں۔ تو ایکدن اسی بات پر پی ٹی سر نے ہماری سرزنش کی۔ جب ہم گھر آئے اور والد صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے اسی وقت ایم ایم قریشی صاحب کو فون کیا اور بہت برہم ہوئے، انہیں کہا کہ ان بچوں کا نام میں یہاں سے کٹوا رہا ہوں، پھر ہمارا داخلہ شہید ملت روڈ پر واقع دہلی مرکنٹائل سوسائٹی اسکول میں کرایا گیا، جہاں سے ہم نے تعلیم مکمل کی۔ میٹرک کے بعد نیشنل کالج بہادرآباد، کراچی سے انٹر کرتے ہی میں امریکہ چلا گیا اور وہاں وائی ایم سیاے کالج شکاگو سے ‘‘اے ایس’’ کیا۔ پھر انگلینڈ چلا گیا اور پارک لین یونیورسٹی سے بزنس اسٹڈیز میں گریجویشن کیا۔ دینی تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ میں نے باقاعدہ کوئی سند تو نہیں لی، مگر اساتذہ کا ساتھ ضرور رہا، ہمارے والد صاحب اور بہت سے علمائے کرام جو ان کے پاس آتے جاتے تھے سب کی صحبت سے جو کچھ حاصل کیا وہ کسی سند سے کم نہیں۔ الحمد  للہ بزرگوں کی نظر کرم اتنی تھی کہ یہ کبھی احساس نہیں ہوا کہ یااللہ ہمارے اندر کوئی کمی ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جب میں آسٹریلیا آیا تو یہاں میں نے ایک عرب عالم خلیل شامی سے امامت کا کورس کیا۔ اس میں 13 اسٹوڈنٹس تھے، جن میں ایک میں ہی اردو اسپیکنگ تھا، باقی سارے عرب تھے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ آپ انگریزی میں خطبہ لکھ کر لائیں، چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں جمعہ وغیرہ کا خطبہ کیسے تیار کیا جاتا  ہے۔ لہٰذا اس کو میں انگریزی میں لکھ کر لاتا تھا، یہی نہیں لکھنے کے بعد استاد خلیل شامی کہتے تھے کہ کلاس روم میں ڈلیور بھیکرنا ہے۔ پھر میں خطبہ کرتا بھی تھا۔ خلیل شامی مجھے بڑے غور سے سنتے تھے۔ جب رزلٹ نکلا تو میں فرسٹ آیا۔ باقی 12 طلبہ حیران تھے۔ خلیل شامی صاحب نے بتایا کہ نظام کے خطبے سے میں نے استفادہ کیا ہے۔ کیونکہ جب یہ خطبہ کررہے ہوتے تھے تو میرے دل میں آتا تھا کہ یہ میرے لئے نئی بات ہے اور اس کی میں تحقیق کروں گا اور جب تحقیق کرتے تو وہ بالکل درست ثابت ہوتی، جس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ ہم نے تو ظاہر ہے جو بزرگوں سے باتیں سنیں وہی آگے بڑھائیں۔ اب الحمدللہ اتنا  ہے کہ تقریباً ہر موضوع پر اس سے متعلق آیات و احادیث اپنے والد محترم کے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی نے اس میں بڑا اثر رکھا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے بس یہ اللہ کی دین ہے۔ جہاں تک روحانی نسبتوں اور تعلق کی بات ہے تو   بہرحال ہمارا تعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے ہے۔ ان کے مواعظ اور ان کے ملفوظات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، حضرت تھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات اور مناجات سے حقیقت میں جو کچھ ہمیں حاصل ہوا، جو فائدہ اٹھایا اسےسب سے زیادہ پُراثر پایا۔ تو روحانی تعلق حضرت تھانویؒ سے ہی ہے، باوجود اس کے کہ ہم نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہیں مگر والد صاحب سے ان کے بارے میں اتنا سنا کہ اب ایسا لگتا ہے کہ گویا ہم اس دور میں تھے۔ اس کے بعد حضرت تھانویؒ کے خلفاء میں سے مفتی محمد حسن صاحب جو جامعہ اشرفیہ کے مہتمم تھے، سے گہرا تعلق رہا۔ مولانا عبید اللہ صاحب سے بھی میرا بہت قلبی تعلق رہا، میں کہتا ہوں کہ میں ان کا پسندیدہ تھا اور میرے پسندیدہ وہ تھے، کیونکہ میں کبھی ان کی بات کو نہیں ٹالٹا تھا اور وہ بھی میری بات کو نہیں ٹالتے تھے۔ میں ہمیشہ ان سے رابطے میں رہا اور جب بھی کوئی دشواری پیش آتی تو ان سے ہی اس کا حل دریافت کرتا تھا۔ اللہ تعالی انہیں غریق رحمت فرمائے۔

مولانا نظام الحق تھانوی 1

س: پاکستان میں گزرے ایام کے دوران آپ کی کیا خدمات رہیں اور پھر بیرون ملک جانے کا اتفاق کیسے ہوا؟

ج: پاکستان میں رہتے ہوئے میرے ذمہ کوئی خاص خدمات نہیں تھیں۔ سچی بات ہے کہ والد صاحب کے زمانے میں مختلف مواقع پر ان کے ساتھ رہنا اور دیگر علمائے کرام  کی صحبت پانا اس سب کا ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر رہا ہے۔ والد صاحب کی ذمہ داریاں دوسری شخصیات سے کچھ الگ  تو نہیں تھیں، دین کی خدمت تھی، اللہ تعالی نے جو انہیں انداز خطابت دیا تھا وہ بہرحال منفرد اور یکتا تھا اور میرا خیال ہے غالباً وہ انداز کسی میں نہیں ہے۔ پاکستان میں 1978 میں شادی کے بعد میں نے کاروبار بھی کیا، دین کی جو خدمت  ہوسکی وہ کی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد مسقط بھی جانا ہوا، وہاں بھی میں نے تدریس کی، بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور جتنی میری قابلیت تھی اس کے مطابق انہیں دین کی سمجھ بوجھ دی۔ وہاں میں نے کافی محنت کی اور جب تک دانہ پانی تھا وہیں رہا اور اس کے بعد پاکستان آگیا۔ کچھ عرصے کے بعد میں اسلام آباد چلا گیا اور اقوام متحدہ یو این ایچ  سی آر میں کام کیا، اس سے نکل کر پھر میں نے اسلام آباد میں ایک کمپنی گلوبل پیکرز میں جنرل مینیجر کے طور پر ملازمت کی۔ اس کے بعد  1995میں آسٹریلیا چلا گیا۔ روانگی سے قبل مولانا جمشید صاحب سے رائیونڈ میں ملا اور ان سے کہا کہ حضرت مجھے کچھ نصیحت فرما دیں، کچھ دعائیں عنایت فرما دیں۔ میں آسٹریلیا جارہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کیوں جا رہے ہو۔ میں نے کہا حضرت نیت تو یہ ہے کہ وہاں کوئی دین کا کام کروں۔ فرمانے لگے کہ بس میں تم سے یہی کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی طرح دین کا کام جاری رکھنا، دین کا کام نہ چھوڑنا، اب جو بھی کرو اس کے ساتھ دین کے کام کو منسلک رکھو۔ الحمدللہ ان کی دعائیں ایسی لگیں کہ جس دن سے میں یہاں آیا میں نے بچوں کو دین پڑھانا شروع کیا۔ اس کے علاوہ وایونگ کی مسجد میں سینٹرل کوسٹ  نیو ساوتھ  ویلز (آسٹریلیا) میں خطابت و امامت کے فرائض اعزازی طور پر انجام دیتا رہا۔ وہاں جن لوگوں سے اللہ نے میری شناخت کرائی اور والد صاحب سے تعلق کی وجہ سے اللہ  تعالیٰ نے جو عزت دی حقیقت ہے میں اس کا اہل نہیں تھا۔

س: آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ کیوں تشریف لائے اور اب یہاں کیا مصروفیات ہیں؟

ج: ہوا یوں کہ مجھے انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ یعنیٰ"ایمان" کے صدر کا فون آیا۔ انہوں نے طاہر نواز کے نام سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ مجھے آپ کا نمبر کرائسٹ چرچ میں کسی نے دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ آسٹریلیا میں، میں نے ان کے پیچھے جمعہ پڑھا اور مجھے بہت اچھا لگا۔ طاہر نواز صاحب کو اس شخص نے تجویز دی تھی کہ چونکہ آپ کو امام یا خطیب کی اشد ضرورت بھی ہے تو نظام صاحب کو کال  کرکے دیکھ لیں، کیا پتا وہ مان بھی جائیں اور آ جائیں۔ طاہر نواز صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم یہاں آپ کو پوزیشن پیش کررہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ جناب میں آپ کو جانتا نہیں، آپ مجھے جانتے نہیں، میں نے آپ کو دیکھا نہیں، آپ نے مجھے دیکھا نہیں تو میرے لئے ایسے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے، کوئی بردکھوے کی صورت ہونی چاہئے یا تو آپ یہاں آئیں یا میں وہاں آتا ہوں۔ تو فرمانے لگے آپ بتائیے آپ کب آسکتے ہیں کہ ہم آپ کو ٹکٹ وغیرہ بھیج دیں۔ خیر طے ہوا اور میں نیوزی لینڈ آگیا۔ یہاں میں اس طور پر آیا کہ مجھے 2 جمعے پڑھانے کا موقع ملا اور دیگر نمازیں اور ان کے بعد بیان کرنے کا بھی موقع ملا۔ جب 10  سے 12 دن  گزر گئے تو میں نے ان سے کہا کہ کل انشاء اللہ میری فلائٹ ہے، وہ کہنے لگے آپ نے ابھی تک کچھ بتایا نہیں۔ میں نے کہا کہ جب سے میں آیا ہوں، اسی تلاش میں ہوں کہ مجھے کوئی ایسی چیز مل جائے کہ جس کی بنیاد پر میں ناں کر دوں لیکن مجھے ابھی تک کوئی ایسی چیز ملی نہیں۔ لوگوں کی محبت اس درجے کی کہ میں انکار نہیں کر سکتا، غرض کہ ہر طریقے، ہر پہلو سے میں نے پرکھا تو مجھے خیر ہی خیر نظر آئی، وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے کہا بات یہ ہے کہ آپ کے فیڈ بیک کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ایک بات جو انہوں نے کہی وہ یہ کہ میں آپ کو صرف ایک فیڈ بیک سناسکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں فیجی کے ایک بزرگ ہیں، جو چاچا کہلاتے ہیں (ان سے میں بھی ان دنوں میں مل چکا تھا انہیں جانتا تھا) انہوں نے جو آپ کے متعلق کہا ہے وہ آپ سن لیں پھر فیصلہ آپ کا ہے۔ چاچا نے کہا ہے کہ "میں کتنے عرصے سے یہاں نمازی ہوں لیکن زندگی میں پہلی بار مجھے ایسا لگا جیسے ہمارے سر پر کوئی ہاتھ آگیا، ہماری کوئی سرپرستی کرنے آگیا۔" تو بس اس وجہ سے مجھ سے انکار نہ ہوا۔ اس ساری محبت اور کمیونٹی کے لگائو کی وجہ سے میں نے ان سے کہہ دیا کہ آسٹریلیا میں میرے کچھ وعدے ہیں اور دوسری کمٹمنٹ یہ کہ میں پاکستان کا ٹکٹ لے چکا ہوں، جنوری میں جانا ہے تو بس یہ کہہ کر میں آگیا۔ پھر اکتوبر میں نیوزی لینڈ آگیا۔ یہاں ویلنگٹن نیوزی لینڈ کے دارالحکومت میں ہوں اور یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں صومالین زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ کمبوڈین بھی ہیں، چینی مسلمان بھی یہاں ہیں اور الحمدللہ ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان کے لوگ بھی ہیں، ایک گلدستہ ہے جس میں ہر طرح کے  پھول ہیں۔

یہاں مصروفیت یہ ہے کہ فجر کی نماز کے بعد میرا  10 منٹ تک کا بیان ہوتا ہے اور نماز مغرب کے بعد بھی بیان ہوتا ہے۔ البتہ میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ جو بھی یہاں ان کے معمولات ہیں ان میں سے ایک موضوع لے کر چلوں اور اسے ختم کرنے کے بعد ہی دوسرا ٹاپک اختیار کروں۔ اس کے علاوہ شام 4  سے لیکر عصر تک یہاں کلاسز شروع ہوجاتی ہیں، بہت سے بچے آجاتے ہیں، جو مکتب بھی پڑھتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔ تو اللہ کا شکر ہے کلاسز جاری ہیں، درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

لنک: عہد ساز شخصیت مولانا نظام الحق تھانوی کا پہلا انٹرویو (حصہ دوم)
اور: عہد ساز شخصیت مولانا نظام الحق تھانوی کا انٹرویو (آخری حصہ)

محمد عدنان کیانی

محمد عدنان کیانی بین الاقوامی سطح پر جانی جانے والی دینی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ اردو و انگریزی کالم نگاری اور سب ایڈیٹنگ سمیت سماجی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ مذہبی امور پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

محمد عدنان کیانی