تازہ ترین

ملک میں شادی ہالز کیلئے کوئی ماسٹر پلان نہیں۔ خواجہ طارق

  • محمد علی اظہر
  • جون 10, 2020
  • 12:41 صبح

حکومت کاروبار بند رکھنے کی صورت میں بیل آؤٹ پیکیج دے۔ لاک ڈاؤن کے دوران دیئے گئے پیکیجز میں ہمیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ صدر میرج ہالز ایسوسی ایشن خواجہ طارق

واضح رہے: دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام ایس او پیز فالو نہیں کر رہے۔ آپ شادی ہالز میں ان پر کیسے عملدرآمد کرائیں گے؟

خواجہ طارق: ہم نے تجربے کے طور پر ناظم آباد کے ایک شادی ہال میں حفاظتی انتظامات کے ساتھ تقریب کا کامیابی سے انعقاد کیا ہے۔ میڈیا کو اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا، تاکہ وہ ہماری تیاریاں دیکھ سکیں۔ میڈیا نمائندوں کو استقبالیہ پر بتایا گیا تھا کہ ہر شادی ہال کے استقبالیہ پر ہمارا اسٹاف ’’پرنسل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ‘‘ (PPE) کے ساتھ موجود ہوگا۔ اندر داخل ہونے والے مہمانوں کو سینیٹائز کیا جائے گا۔ انہیں فیس ماسک دیئے جائیں گے۔ 5 سے زائد افراد کو ایک ٹیبل پر نہیں بٹھایا جائے گا۔ ان کے درمیان کم از کم دو، دو میٹر کا فاصلہ ہوگا۔ پانی اور کھانے کے ساتھ کراکری بھی ٹیبل پر سرو کی جائے گی، جو پلاسٹک فلم سے ریپڈ ہوگی۔ ہر ٹیبل کے ساتھ ایک ڈسٹ بن بھی رکھی جائے گی۔ تقریب کے دوران ڈس انفیکٹڈ لیکوئڈ سے فرش کی بار بار صفائی کی جائے گی، تاکہ وائرس کے پھیلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اسی طرح کے حفاظتی انتظامات فرنیچر کے سلسلے میں بھی کئے جائیں گے۔ جبکہ بینکوئٹس میں تمام اسٹینڈنگ ایئر کولرز کے فلٹرز کو وائرس سے پاک رکھنے کیلے تقریب سے پہلے ڈس انفیکٹ کیا جائے گا۔

واضح رہے: یہ ایس او پیز کب تک لاگو ہوجائیں گے؟

خواجہ طارق: ان ایس او پیز کو لاگو کرنے کیلئے ہمیں زیادہ سے زیادہ 2 سے 3 دن کا وقت چاہئے، کیونکہ اس سلسلے میں اسٹاف کی ٹریننگ کرنا ہوگی۔ حفاظتی سامان بآسانی مارکیٹ میں دستیاب ہے، لہٰذا ان چیزوں میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

واضح رہے: ان ایس او پیز کے حوالے سے سندھ حکومت سے کب مذاکرات کرنے جا رہے ہیں؟                                                                

خواجہ طارق: رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سندھ حکومت کی کووڈ کمیٹی کے ساتھ کمشنر کراچی کے دفتر میں مذاکرات ہوئے تھے۔ ہم نے اس حوالے سے کمیٹی کے اراکین امتیاز شیخ، مرتضیٰ وہاب، ناصر حسین شاہ اور سعید غنی کو بریف کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ جب ایس او پیز کے ساتھ دیگر اجتماعات کو اجازت دی جا رہی ہے تو ہمیں بھی شادی ہالز کھولنے دیں۔ میرج ہالز میں ایس او پیز کو نافذ کرانا مارکیٹوں، ٹرانسپورٹ وغیرہ سے زیادہ آسان ہے۔ شادی ہالز میں تو وہی مہمان آتے ہیں جو دولہا اور دلہن کے عزیز و اقارب اور قریبی جاننے والے ہوتے ہیں۔ ہم نے تجویز پیش کی تھی کہ بھیڑ سے بچنے کیلئے ہال کی گنجائش کے حساب سے 50 فیصد تک کم مہمان بلائے جاسکتے ہیں۔ یوں محدود تقاریب اور دیگر تجاویز تحریری طور پر کمیٹی کو پیش کی گئی تھیں۔ اس پر کمیٹی نے سفارشات کو تسلی بخش قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ NCC اجلاس میں حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ان تجاویز کو پیش کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ہماری سفارشات منظور نہیں ہو سکیں۔ اسی لئے ہم نے یہ سوچا کہ ہم ایس او پیز کے نفاذ کا عملی مظاہرہ کریں گے۔

واضح رہے: اس عملی مظاہرے کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ حکومت میرج ہالز کھولنے کی اجازت دیدے گی؟                                                 

خواجہ طارق: ہم پورے ملک کی ایسوسی ایشنز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ تمام ایسوسی ایشنز اپنے اپنے صوبوں میں کووڈ کمیٹیوں سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ ہم نے بھی ملاقات کیلئے کمشنر کراچی سے وقت مانگ لیا ہے۔ تاکہ انہیں میرج ہالز کھولنے پر قائل کرسکیں۔ ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ شادی ہالز معاشرے کی ضرورت ہیں۔ یہ وہ انڈسٹری ہے جو سب سے پہلے بند کی گئی۔ 13 مارچ سے بند ہے اور ابھی بھی پتا نہیں کہ یہ کب کُھلے گی۔ اگر آپ میرج ہالز میں شادی کی تقاریب کو روکیں گے تو ہوگا یہ کہ لوگ اپنے گھروں میں ایونٹس رکھ لیں گے، جس سے وبا پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ رہائشی آبادی والے گھروں میں زیادہ گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا اب چونکہ گھروں میں یہ فنکشنز ہو رہے ہیں تو یہ زیادہ خطرے والی بات ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ حکومت اس حوالے سے غفلت برت رہی ہے۔

واضح رہے: شادی ہالز کی بندش سے سیکٹر کو کتنا نقصان ہوا ہے؟

خواجہ طارق: اب تک کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ شادی ہالز صرف ایک انڈسٹری نہیں اس کے ساتھ 150 انڈسٹریوں کا کام وابستہ ہے۔ ان میں کیٹرنگ اینڈ بیوریج انڈسٹری، لائیو اسٹاک، فرنیچر، ساؤنڈ سسٹم، برائیڈل ویئر، فوٹوگرافی، ویٹرز، پالش، الیکٹریشن، ڈیکویشن، رینٹ اے کار کا کام شامل ہے۔ ان انڈسٹریوں کی ریونیو سائیکل پوری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ اس کام سے منسلک 70 سے 80 فیصد طبقہ دہاڑی دار ہے۔ انہیں مزدوری اس وقت ملتی ہے جب فنکشن ہوتا ہے۔ بہت سے شادی ہالز رینٹ پر ہیں۔ مالکان کرایہ دے رہے ہیں، بجلی کے بل بھر رہے ہیں اور اپنے اسٹاف کو تنخواہیں بھی دے رہے ہیں، لیکن اب ان کی بس ہو گئی ہے۔ ان کیلئے بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر کاروبار بند رکھنا ہے تو حکومت سے اپیل ہے کہ ہمیں بیل آؤٹ پیکج دیں۔ اب تک جتنے بھی پیکجز دیئے ہیں ہم اس میں سے کسی ریلیف میں نہیں آتے۔ کے الیکٹرک ایک ظالم ادارہ ہے، جو ابھی بھی پچھلے سالوں کے حساب سے ہزاروں لاکھوں کی اوریج بلنگ کر رہا ہے۔ کمپلین کرنے پر کہا جاتا ہے کہ آپ آجائیں ہم آپ کا معاملہ دیکھتے ہیں۔ مگر وہاں بلا کر پیر جڑوائے جاتے ہیں۔

واضح رہے: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شادی ہالز مسمار کرنے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں؟

خواجہ طارق: سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں 2018 میں کراچی میں 180 شادی ہالز گرائے گئے۔ اب شہر میں شادی ہالز کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم ہے۔ ہالز مسمار کرنے کے اقدام کا منفی اثر یہ پڑا کہ شادی کے فنکشنز مہنگے ہونے لگے۔ پہلے چونکہ کاروباری مسابقت تھی اور رفاحی پلاٹوں پر شادی ہالز ہونے کی وجہ سے تقریب کے چارجز بھی کم تھے، تو وہ اس اقدام کے بعد بڑھ گئے ہیں، کیونکہ بالواسطہ طور پر پیداواری یا کام کرنے کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ ملک بھر میں 13 ہزار شادی ہالز ہیں۔ ان کیلئے ماسٹر پلان میں کوئی جگہ نہیں۔ کسی شہر کے کسی بھی علاقے میں ان کیلئے ایریا مختص نہیں کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کمرشل اور رہائشی پلاٹوں پر شادی ہالز کا کاروبار منتقل ہوا تو کام مہنگا ہوگیا۔ دراصل حکومت نے سیکٹر کو آسانیاں فراہم نہ کرکے عوام کیلئے مصیبت کھڑی کی ہے اور یہ کام مہنگا کر دیا ہے۔

محمد علی اظہر

محمد علی اظہر نے ایک دہائی کے عرصے میں سب ایڈیٹنگ سمیت اسپورٹس اور کامرس رپورٹنگ میں اپنی صلاحیت منوائی ہے۔ وہ کراچی پریس کلب کے ممبر ہیں اور اردو نیوز ویب سائٹ "واضح رہے" کے بانیوں میں سے ہیں۔

محمد علی اظہر