تازہ ترین

پاکستان پھر دہشت گردی کی آگ میں جلنے لگا

pakistan phr dehshat gardi ki aag main jalny laga
  • محمد قیصر چوہان
  • مئی 15, 2023
  • 6:25 شام

ٹی ٹی پی افغانستان جبکہ”را“ کے دہشت گردا یران کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں و فاقی اور صوبائی حکومتیں سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ملکر دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کو شکست دینے کیلئے حکمت عملی بنائیں

پاکستان پھر دہشت گردی کی آگ میں جلنے لگاہے۔پاکستان سیاسی ،معاشی اور آئینی بحران میں مبتلا ہے ان حالا ت میں ملک دشمن قوتوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کردی ہیں،ملک کے مختلف حصوں بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات، سیکورٹی فورسز اور چوکیوں پر حملوں کے واقعات کا رونما ہونا تشویشناک بات ہے۔پاکستانی قوم کے نصیب میں دھماکے، دہشت گردی، آپریشن، انخلا حقوق غصب ہونا اور پھر کچھ روز کی خاموشی کے بعد دہشت گردی کی نئی لہر کا شروع ہوجانا لکھا ہوا ہے، پہلے شہریوں کے تحفظ کیلئے صرف پولیس ہوتی تھی اور ایک سی آئی ڈی ہوتی تھی۔ پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھتے گئے، سیکورٹی کے ادارے بڑھتے گئے، دہشت گردی کو روکنے کے ذمے دار ادارے خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ عیدالفطر کے دوسرے روز سوات کے علاقے کبل میں سی ٹی ڈی تھانے میں ہونے والے دو بڑے دھماکوں کو دہشت گردوں کی علاقے میں اپنی موجودگی جتانے اور پاکستان دشمن عزائم کے اظہار کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ ان دھماکوں میں 20اہلکاروں کی شہادت اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ عیدالفطر کے دوسرے روز سوات کے علاقے کبل میں سی ٹی ڈی تھانے میں ہونے والے دو بڑے دھماکوں کے بعد بعد آگ بھڑک ا ±ٹھی، قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا دہشت گردی نہیں بلکہ تھانے کے اندر موجود بارودی مواد پھٹاتھا۔دھماکو کے بعدعلاقے کے لوگوں نے مظاہرہ بھی کیا تھا۔ مظاہرین نے نگران صوبائی حکومت سے مطالبہ کیاکہ دھماکے کی تحقیقات کی جائیں، بدامنی برداشت نہیں کریں گے، دہشت گردی کے واقعے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔کبل میں سی ٹی ڈی تھانے میں ہونے دھماکوں کی نیچر کیا ہے، تحقیقات میں اس کا پتہ چل جائے گا لیکن پاکستان میں چونکہ دہشت گرد کارروائیاں کررہے ہیں، مختلف تجزیوں اور جائزہ رپورٹس میں بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ رواں برس دہشت گرد عناصر مزید کارروائیاں کرسکتے ہیں، دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کو بطور خاص نشانہ بنا رہے ہیں، اس پس منظر کی وجہ سے جب بھی کسی دھماکے کی خبر آتی ہے جو عوامی ذہن دہشت گردی کی طرف ہی جاتا ہے۔خیبر پختو نخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں، اس لیے کبل دھماکوں کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ عوام مطمئن ہوجائیں۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ کس نے اپنی ذمے داری ٹھیک سے ادا نہیں کی جو اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا اور مزید یہ کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ آیندہ اس قسم کے واقعات نہ ہوں۔

پاکستانی مسلح افواج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی کاوشوں کے نتیجے میں جو امن و امان کی فضا قائم ہوئی، اسے دوبارہ بگاڑ کی طرف لے جانے کی کوششوں کو بہرصورت ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی واضح ہے کہ دہشت گردوں کی ملک میں واپسی کیوں کر ممکن ہوئی؟۔کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے، جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی نے بین الااقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ملک و قوم کا بہت قیمتی سرمایہ دہشت گردی کی نذر ہو گیا ہے۔آج بھی وقت ہے ان مسائل پر سنجیدگی سے قانون سازی کی جائے۔ پاکستان میں روز بروز بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات حکومتی اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔عوام کو کچھ امید دلائی جائے، انھیں تازہ صورتحال سے آگاہ کیا جائے، دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔آج بھی پاکستان میں انتہاپسندی کے بیانیے کو تقویت دینے والے متحرک ہیں، عوام کو کنفیوژن میں ڈالا جا رہا ہے؟ سیکیورٹی اہلکار اور امن کمیٹیوں کے افراد مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی )کے دہشت گرد افغانستان جبکہ”را“ کے دہشت گردا یران کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

پڑوسی ملک بھارت سے وقتاً فوقتاً آنے والے پاکستان دشمن دھمکی آمیز بیانات ان دہشت گردوں کی تقویت کا ذریعہ ہیں۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کوئی گروہ کسی ملک میں تخریب، دہشت گردی، نقص امن یا ہراسگی پھیلانے والے اقدامات شروع کرتا اور بروئے کار لاتا ہے تو وہ تنہا نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے پوری منصوبہ بندی، سرمایہ، تکنیکی تربیت، رسد کے ذرائع اور بہت کچھ ہوتا ہے جیسا کہ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس اعلیٰ افسر کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری کے بعد دیئے گئے بیانات سے ظاہر ہوا۔پاکستان کو شمال مغربی سرحدوں کی جانب سے دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستانی علاقوں میں تسلسل سے کارروائیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ بلوچستان اورخیبرپختونخوا ان کا خاص نشانہ ہے، ان کی حکمت عملی میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ بلوچستان میں دیگر شرپسند گروہوں کا افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے تعلق بھی قائم ہے۔ بلوچستان میں بھی آئے روز سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ افغانستان اور ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے تسلسل کے ساتھ استعمال ہو رہی ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت برملا تحریک طالبان کی حمایت کر رہی ہے اور اسے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ طالبان کی عبوری حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ افغانستان میں امن قائم کر سکے کیونکہ وہاں بھی داعش صوبہ خراسان میں پوری طرح متحرک ہے۔

ادھر عدالت عظمیٰ کے پنجاب الیکشن کیس میں پاکستانی وزارت نے جواب داخل کرتے ہو ئے کہا ہے کہ ”ایران پاکستان کے خلاف بلوچستان میں دہشت گردوں کی مالی مدد، سہولت کاری اور ان کو ایران میں پناہ دینے کی کارروائی میں ملوث نظرآتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کو بھی پاکستان میں دہشت گرد سہولت کاری اور را کے دہشت گردوں کو ایران میں پناہ اور اس کی ہر طر ح سے مالی اور عسکری مد د کر رہا ہے تاکہ را پاکستان میں عدم استحکام اور دہشت گردی آپریشن جاری رکھ سکے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ماحول بنادیا گیا ہے“۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہے جب پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ صوتحال پیش کی گئی جس میں براہ راست ایران کے حوالے سے ملک کی بقا اور سلامتی کو سنگین خطرہ بتایا گیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی 2000 میں شروع ہوئی اور لوگوں کو اس سے کافی پریشانی کا سامنا رہا۔ یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی، ملک میں 2014 میں بھی انتہا پسند عسکری گروہوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، میاں نواز شریف کی حکومت اور پاکستانی افواج کی عمدہ کارگردگی کی بدولت اور عوام کے جرا ¿ت مندانہ حوصلے سے اس میں کامیابی نصیب ہوئی تھی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا، لیکن اب کئی سالوں کے بعد عوام میں اسی طرح دہشت گردی کا خوف کا پھر سے بڑھ جانا یقینی طور پر اپنی ان قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں جس طرح تسلسل کے ساتھ بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے بعد تو کوئی دو رائے نہیں کہ کالعدم تنظیمیں پوری تیاری کے ساتھ میدان میں واپس آچکی ہیں۔ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے عوام دہشت گردوں اور دہشت گردی کے حوالے بہت حساس ہوچکے ہیں کیونکہ وہ دہشت گردی کی وجہ بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔جب سے دہشت گردی کی وارداتوں کا دوبارہ آغاز ہوا ہے، عوام میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔دہشت گردی کی اس مسلسل لہر سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مختلف قسم کی دہشت گرد اور شرپسند تنظیموں کے درمیان رابطہ کاری بھی ہے اور ایک دوسرے سے مالی اور معلومات کا تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو دہشت گرد گروپوں کے اتحاد کے خلاف کارروائی کرنا پڑ رہی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں ملک کی سیاسی جماعتوں، مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی کا کردار انتہائی کمزور اور لاتعلقی والا ہے۔کچھ سیاسی ومذہبی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہیں۔ اپنے بیانیے میں اگرمگر اور چونکہ چنانچہ کا استعمال کر کے دہشت گردوں کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور حمایت بھی جاری رکھتے ہیں۔ اس قسم کے بیانیے کے حامل گروہوں نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور پاکستان کے عوام میں نظریاتی خلفشار اور ابہام پیدا کیا۔ افواج پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اتنے برسوں میں سرکاری مشینری، اداروں، سیاسی ومذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور گروپوں نے دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ان کے مالی مددگاروں اور انھیں معلومات فراہم کرنے والے آلہ کاروں کو جاننے، پہچاننے اور ان کے خلاف کارروائی ممکن بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟۔فوجی آپریشن اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک سویلین حکومت اور عوامی ادارے دہشت گردوں اور انتہاپسندی کے خلاف دوٹوک مو ¿قف اختیار نہیں کریں گے، دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ممکن نہیں ہے، فوج کی تربیت دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے اصول پر کی جاتی ہے لیکن نظریاتی بنیادوں پر دہشت گردوں کو شکست دینا سیاسی جماعتوں، مذہبی جماعتوں، اہل علم، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی اولین اور حتمی ذمے داری ہوتی ہے۔فوج اتنا تو کر سکتی ہے کہ کسی جگہ موجود دہشت گردوں کو گرفتار یا ختم کر کے علاقے کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کروا لے ، لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی، یہ مسئلہ بھی باقی رہے گا۔موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر فوجی نگرانی کا عمل مزید سخت کرنا چاہیے۔

چند روز پہلے جنوبی وزیرستان کے علاقہ انگور اڈے میں دہشت گرودں نے فوج کے ایک سینئر افسر بریگیڈئیر مصطفیٰ کمال برکی کو شہیدکیا۔ان کا تعلق انٹر سروسز انٹیلی جنس سے تھا اور انہوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ دلگداز میں ملوث دہشت گردوں کے خاتمے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں ان کی قیادت میں لڑنے والے سات جوان بھی زخمی ہوئے تھے۔دہشت گردی کا ایسا ہی ایک واقعہ اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے سگومیں پیش آیا جہاں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے دہشت گرد فرار ہو رہے تھے کہ سکیورٹی فورسز نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ تین دہشت گرد مارے گئے جبکہ پاک فوج کے 3 جوانوں نے بھی فائرنگ کے تبادلے میں جام شہادت نوش کیا تھا۔کچھ عرصہ قبل بنوں میں ”سی ٹی ڈی “ کی عمارت پر دہشت گردوں قبضہ کر لیا تھا۔ دنیا حیران تھی کہ سیکیورٹی فورس کی عمارت پر 25 سے 30 دہشت گردوں نے کیسے قبضہ کر لیا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا اور لوگوں کو یرغمال بنا لیا اور بعد میں جب افواج پاکستان اور اداروں نے ان کا گھیراو ¿ کیا تو وہ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کو افغانستان فرار ہونے کیلئے کھلا راستہ مہیا کیا جائے جس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغان طالبان حکومت اس کارروائی میں شامل ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کر کے پاکستان پر دباو ¿ بڑھانا چاہتی ہے۔عمران خان حکومت کی نرم پالیسی سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالبان اگست 2022میں باجوڑ، دیر اور سوات میں داخل واپس آگئے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنظیم سازی پر بھرپور توجہ دی۔ اب تک ان کی یہ کوشش ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کریں تاکہ ریاست کو زمین بوس کیا جا سکے۔ کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے، جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔پاکستان مخالف قوتیں ملک میں شرپسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں، پہلے مرحلے میں معیشت کو تباہ کرنا تاکہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے اور عالمی معاشی نظام سے کٹ جائے، خاکم بدہن ایسا ہو جائے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ صورت حال دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کیلئے آئیڈیل ہو گی۔

12 مئی2022 کو کراچی کے علاقے صدر میں بارودی مواد کا دھماکہ ہوا جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری فوری طور پر سندھودیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی۔ یہ ایک علٰیحدگی پسند گروپ ہے جو اسی طرح کے بلوچ گروپس جیسے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ریولوشنری آرمی کی طرز پر وجود میں آیا ہے۔ اس گروپ کو صوبہ سندھ میں پنجابیوں اور پشتونوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے مئی 2020 میں سندھودیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) اور جئے سندھ قومی محاذکے ساتھ پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس گروپ نے نومبر 2021 میں ضلع قمبر شہداد کوٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما رانا سخاوت راجپوت کے قتل کی ذمے داری بھی قبول کی۔ اپنے پیغام میں ایس آر اے نے خبردار کیا کہ ’تمام آباد کار سندھ چھوڑ دیں‘۔ یہ عمل ماضی میں بلوچستان لبریشن آرمی کی قتل کرنے کی حکمت عملی کی آئینہ دار ہے۔

دھماکے کے بعد حکام نے اپنی توجہ ایس آر اے کے تین عسکریت پسندوں پر کر لی جو حکام کے بقول حملے کے ذمے دار تھے اور ان میں سے دو کو ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں اللہ ڈنو بھی شامل ہیں جن کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ بم بنانے کا ماہر تھا اور انہوں نے صدر حملے میں استعمال ہونے والا بم تیار کیا تھا۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ انہیں شبہ ہے کہ اس دہشت گرد گروپ کی تربیت اور مالی امداد را کرتی ہے، اس کے رہنما اور اڈے ایران میں موجود ہیں جیسا کہ ایس آر اے کے رہنما سید اصغر شاہ جو دھماکے کی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر اللہ ڈنو کے ساتھ رابطے میں تھے۔اپریل 2017ءمیں ماڑہ کے قریب بلوچستان کوسٹل ہائی وے پر ایک حملے میں 14 افراد جان سے گئے تھے۔ حملے کی ذمے داری بلوچ راجی آجوئی سنگھ (بی آر اے ایس) نے قبول کی جو تین بلوچ علٰیحدگی پسند گروپوں پر مشتمل ایک سرپرست تنظیم ہیں۔ اس حملے کے بعد اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کھل کر کہا کہ ان تنظیموں کے تربیتی اور لاجسٹک کیمپ ایران میں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد ایران نے بھی پاکستان پر جیش العدل کے خلاف ’کارروائی نہ کرنے‘ کا الزام لگایا۔ جیش العدل ایک عسکریت پسند گروپ ہے جس نے اسی مہینے 10 ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک کرنے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ 2006 میں جب ’ذرائع‘ سے یہ اطلاع ملی کہ پاکستان نے زاہدان میں بھارتی قونصل خانے کے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کے بارے میں ایران کو تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب کلبھوشن یادو کے دہشت گرد نیٹ ورک پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا۔ پاکستانی حکام محتاط رہے کہ ایران پر براہ راست الزام نہ لگایا جائے جو کلبھوشن یادو کی پاکستان میں کارروائیوں کا اڈہ تھا۔

اس کے بعد اس سال جنوری میں جدید ہتھیاروں اور رات کو دیکھنے کے قابل آلات سے لیس بلوچ لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں نے پاکستان ایران سرحد پار کی اور کیچ میں ایک چوکی پر حملہ کیا جس سے 10 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ اس بار پھر ایران کی طرف انگلی اٹھائی گئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں بی ایل ایف کو سرگرمیوں کی اجازت ہے۔ کیچ حملے کے صرف تین دن بعد ایک اور انکشاف ہوا۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) منی لانڈرنگ کا ایک نیٹ ورک کو منظر عام پر لائی جو مبینہ طور پر ’بھاری رقم‘ ایران منتقل میں ملوث تھا۔ رقم کے ایک وصول کنندہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابوالفضل بہاءالدینی تھے جو ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے پاکستان میں سابق نمائندے ہیں۔سوال یہ ہے کہ حکام اس منی ٹریل تک کیسے پہنچے؟ کراچی میں ایران کی سرپرستی میں چلنے والی زینبیون بریگیڈ کے دو ارکان کی گرفتاری اور ان سے تفتیش کے بعد تحقیقات کا آغاز ہوا۔ سی ٹی ڈی عہدے دار عمر شاہد حامد کے مطابق دونوں نے ایران میں تربیت حاصل کی تھی اور تفتیش کے مطابق وہ کراچی میں علما یوسف لدھیانوی اور نظام الدین شامزئی کے قتل میں ملوث تھے۔

زینبیون بریگیڈ ایک مسلح جتھہ ہے جسے ایران کے پاسداران انقلاب اور قدس فورس کی طرف سے اسلحہ اور تربیت فراہم کی جاتی ہے۔یہ ملیشیا پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دو سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔ بعض اوقات فاطمیون بریگیڈ (جو افغانوں پر مشتمل ہے) کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اس ملیشیا کو شام بھیجا گیا اور شاید عراق میں بھی۔ شام میں یہ ملیشیا بشار الاسد کی افواج کے ساتھ مل کر لڑی۔ اس تنظیم نے اکثر داعش کے خلاف بھی لڑائیاں لڑیں۔ ان جنگوں کے خاتمے کے بعد خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ جنگی تجربہ رکھنے والی اس ملیشیا کو دوسرے مقاصدکیلئےپاکستان میں دوبارہ بھیجا جا سکتا ہے۔ کیا یہ خطرے کی گھنٹی لگتی تھی لیکن ایران میں قائم گروپوں کی جانب سے حملوں اور ایران سے وابستہ افراد کی گرفتاریاں قابل تشویش ہیں۔یہ سچ ہے کہ جب پاکستانی پالیسی ساز ایران کے معاملے پر غور کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں اندرون ملک ردعمل کا خوف بہت زیادہ ہوتا ہے۔پاکستان میں نئی شروع ہونے والی پراکسی جنگ ختم کرنے کیلئے پاکستانی حکومت کو نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد کرانا پڑے گا۔

وفاقی وصوبائی حکومتوں کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میںمعاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنا ہو گا۔ انصاف کا بول بالا کرنا ہو گا اور ان لوگوں کی بھی بیخ کنی کرنی ہوگی جو ان دہشت گردوں کیلئے سہولت کاری کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اپنی سیکیورٹی کو دوبارہ فعال کرنا ہو گا۔بہت ہو چکا پانی سروں سے گزر گیا اب فیصلے کا وقت ہے اب یا کبھی نہیں۔ عوام کو بھی اب کڑی نظر رکھنی ہوگی کہ مزید آگے کوئی دوسری دہشت گردی کی واردات نہ ہو جائے یا دہشت گرد دوبارہ کسی اور موقع سے فائدہ نہ اٹھا پائیں۔ اس وقت ملک کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف معاشی بدحالی نے حکومتی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے تو دوسری طرف ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھاتی ہوئی دہشت گردی نے ان کی انتظامی صلاحیتوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ملکی حالات یقینی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب یہ معاملات الزام تراشیوں یا پھر کاسمیٹک قسم کے عارضی حل پیش کرنے سے ٹھیک ہونے والے نہیں۔ بات کسی ایک پارٹی یا پھر کسی سیاسی اتحاد کے بس کی بھی نہیں اس کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرنا ہو گی۔سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کومیثاق معیشت بھی کرنا ہوگا اور امن وامان کی صورتحال پر بھی کوئی مستقل اور جامع پالیسی بھی بنانا ہو گی کیونکہ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو کمزور اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اور دہشت گردی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ قدم قدم پر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اگر ہم حالات میں واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو دونوں کو بیک وقت کنٹرول میں لانا ہوگا۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے جھانکیں تویہاں بھی ہمیں غربت، جہالت یا بے روزگاری نہیں، بلکہ کچھ گروہ کارفرما نظراآتے ہیں جو ریاست، حکومت یا ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ان حالات میں عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ شاخوں اور برگ و بار کو کاٹنے پر محنت اور توانائیاں صرف کرنے کے بجائے جڑوں کو کاٹا اور ا ±کھاڑا جائے۔ ا ± ن نفرتوں، تنازعات ، اختلافات اور تضادات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو ملک پر طاری دہشت گردی کے حقیقی اسباب ہیں۔ہر فرد کو اس جنگ میں فوج کے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔ دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے۔ شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے یا فوج کی۔ ان کی ذمے داری اپنی جگہ لیکن جب تک عوام میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہیں، اس وقت تک دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیاب نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے فوری سزائیں دی جاسکیں۔

بلاتخصیص تمام مذہبی مدارس کے نصاب اور ملک بھر کے نصاب تعلیم میں بعض تبدیلیاں لانا ناگزیرہو چکی ہیں۔ دہشت گردی کے عفریتکو کچلنے کیلئے ہمیں اپنی پولرائزڈ سوسائٹی کو دوبارہ ایک قوم میں بدلنا ہوگا۔بے شک ہمارے سکیورٹی اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کامیاب آپریشنز کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور کافی حد تک ان کا صفایا بھی کردیا لیکن ان باقیات اور سہولت کار اب بھی موجود ہیں جو اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ امر قابل غور ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف مو ¿ثر کارروائیوں کے باوجود ان کی باقیات کا مکمل صفایا نہیں ہو پا رہا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سکیورٹی سسٹم میں اب بھی کہیں نہ کہیں کمزوریاں موجود ہیں جن کا دہشت گرد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ان تمام کمزوریوں کو دور کیا جائے جس کا دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں،تب ہی ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان