تازہ ترین

ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کی کہانی (دوسرا حصہ)

maloon mirza ghulam ahmed qadiyyani ki kahani part 2
  • واضح رہے
  • جون 24, 2021
  • 11:25 شام

اپنی جماعت کو مالی طور پر مستحکم کرنے کے بعد قادیانیوں نے ایک علیحدہ ریاست تک قائم کرنے کی کوشش کی

ان عوامل نے مسلمانوں اور قادیانیوں میں نزاع کو، زندگی کے تمام شعبوں تک وسیع کر دیا اور جب قادیانیوں نے اپنے سے اختلاف کرنے والے قادیانیوں تک کو قادیان بدر کرنے سمیت انہیں سماجی، اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ کا ہدف بنایا اور 1937ء میں عبدالکریم مباهلہ اور حکیم عبدالعزیز پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور فخرالدین ملتانی جیسے فعال و گرم جوش قادیانی کو قتل کر دیا گیا تو مسلمانوں نے اس گروہ کی جارحانہ ذہنیت کو اپنی حقیقی صورت میں سمجھا۔

اور انہوں نے محسوس کیا کہ ملت اسلامیہ کو قادیانیوں سے صرف اعتقادی ارتداد ہی کا نہیں، بلکہ معاشی، معاشرتی اور مجلسی استبداد کا بھی خطرہ ہے اور سیاسی پہلو سے قادیانی، مسلمانوں کے جس قدر دشمن ہیں اتنا دشمن شاید انگریز بھی نہیں۔

حالات و واقعات کے اس تسلسل کے دوران کانگریس کا عروج ہوا تو مرزا محمود نے پنڈت جواہر لال نہرو سے گرمجوشانہ تعاون کا رشتہ استوار کیا اور اگرچہ پنڈت نہرو، انگلستان کے ایک سفر سے واپسی کے بعد اس کا برملا اظہار اپنے خصوسی رفقاء سے کر چکے تھے کہ انگریز کو ہندوستان بدر کرنے کی مہم کی کامیابی کا ایک اہم تقاضہ یہ ہے کہ قادیانیوں کی قوت کمزور ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب پنڈت نہرو نے ڈاکٹر شنکر داس کے اس نقطہ نظر کو اپنالیا کہ ہندوؤں کے قومی مقاصد کیلئے ایک "ہندوستانی نبی" بہت زیادہ مفید ہے اور یہ "ہندوستانی نبی" ہی ہوسکتا ہے جو عرب اور مدینہ سے مسلمان کا رشتہ کمزور کرکے ایک بھارتی قصبہ قادیان سے اس کا تعلق مضبوط کرے۔

لہٰذا پنڈت نہرو قادیانیوں کے سرپرست کی حیثیت سے اٹھ کھڑے ہوئے تاآنکہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ کو میدان میں کودنا پڑا اور انہوں نے عقائد کی اہمیت، قوموں کے اجتماعی شعور، ملت اسلامی کی اساس، ختم نبوت جیسے اہم عنوانات پر دلائل و براہین سے بحث کی، جو مذہب کے اعتقادی اور امت مسلمہ کے اجتماعی پہلوئوں پر، مدت تک دانشوروں اور سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوگی۔

علامہ نے ایک جملے میں ایک عظیم حقیقت بیان کردی۔ فرماتے ہیں:

’’جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کیلئے کیوں مضطرب ہیں؟‘‘

انگریز اور ہندو، دونوں کی مصلحتوں کا تقاضا یہی تھا کہ وہ قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل رکھیں، اور اس جونک کو ملت اسلامیہ کا خون چوسنے کا موقع زیادہ سے زیادہ فراہم کریں اور اس مدعی نبوت کے طفیل امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰة والسلام میں انتشار کی جو خلیج وسیع ہو، اس سے کما حقہ فائدہ اٹھالیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کی کہانی (پہلا حصہ)

انگریز جب بے بسی کے عالم میں برصغیر سے بھاگنے لگا تو اس نے اس عالم سراسیمگی میں بھی اپنے ہوش و حواس بحال رکھے اور بانی پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ قادیانیوں کے سرخیل سر ظفر اللہ کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنائیں۔

وزارت خارجہ جیسے اہم ترین منصب کے علاوہ قادیانیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکومت کے حسب ذیل محکموں پر قابض ہونے کی اسکیم بنائی اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔

محکمے یہ تھے:

(1) فوج

(2) پولیس۔

(3) ایڈمنسٹریشن۔

(4) ریلوے۔

(5) فنانس۔

(6) سائنس۔

(7) کسٹمز۔

(8) انجینئرنگ۔

قادیانی حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہوئے اور ان مناصب سے انہوں نے وہ دونوں فائدے حاصل کئے جو آنجہانی مرزا محمود احمد نے ان الفاظ میں واضح کئے تھے:

’’پیسے بھی اس طرح کمائے جائیں کہ ہر صیغے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہر جگہ ہماری آواز پہنچ سکے اور ہماری جماعت فائدہ اٹھا سکے۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوه، ،11 جنوری 1954ء)

اسی کے ساتھ ساتھ قادیانی اس کوشش میں مصروف رہے کہ پاکستان کے کسی ایک علاقے کو خالص قادیانی علاقہ بنایا جائے۔ 1952ء میں انہوں نے ’’بین الاقوامی سیاسی سازش‘‘ کے تحت بلوچستان کو قادیانی علاقہ بنانا چاہا، مگر بات نہ بن سکی تو اس کے بعد انہوں نے جہاں ربوہ کو ایک مضبوط مرکز بنانے کیلئے خصوصی کوششیں کیں، وہاں انہوں نے حکومت کے تمام اہم شعبوں کو اس طرح گرفت میں لیا کہ قادیانی پورے نظام حکومت کو اپنے سیاسی ذہن کے ساتھ لے کر چلنے میں بسا اوقات کامیاب ہوئے۔

1969ء کے انتخابات میں قادیانیوں نے پہلی مرتبہ کھل کر ایک طالع آزما جماعت کی صورت اختیار کی اور معرکہ انتخاب میں کودے۔ پیپلز پارٹی کے حلیف بنے اور کمیونسٹوں سے مل کر انہوں نے ریاست کو سیکولر بنانے اور زندگی کے تمام اہم شعبوں بالخصوص سیاسی محاذ پر مسلمانوں کی زندگی کی سند حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

1971ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو مرزا ناصر نے بار بار انتخابی معرکوں میں قادیانی کارکنوں کی خدمات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور اندرونی سطح پر مرزا طاہر احمد کے ذریعے مسٹر بھٹو اور مسٹر کھر سے مضبوط تعلقات قائم رکھے اور اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے کہ حکومت پاکستان کی پالیسیاں قادیانیوں کے حسب منشا طے ہوں۔

قادیانیوں سے شدید مذہبی اختلاف رکھنے والوں کو حکومت کے ہاتھوں ختم یا بے اثر کیا جائے اور مثبت طور پر قادیانی حکومت کے ہر شعبہ اور اقتصادی مفادات سے متعلق محکموں میں کارفرما قوت بن جائیں۔

17 اپریل 1976ء کو یہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا کہ پاکستان کے عظیم دوست چین کے سفیر نے ربوہ کا خفیہ دورہ کیا، تقریبا 24 گھنٹے وہ ربوہ میں رہے، مگر اس کی خبر کہیں شائع نہ ہوئی۔ ہفت روزہ المنبر فیصل آباد نے اپنی 28 اپریل 1976ء کی اشاعت میں اس خفیہ دورے کی مکمل داستان شائع کی۔ بعدازاں ہفت روزہ لولاک فیصل آباد میں بھی اس کی تفصیل شائع ہوئی۔

1973ء کے جلسے سالانہ ربوہ کے موقع پر پاک فضائیہ کے دو طیاروں نے ائیر مارشل ظفر چوہدری قادیانی کی قیادت میں مرزا ناصر کو سلامی دی، اور جب مولانا مفتی محمود صاحب نے قومی اسمبلی میں اس مسئلے کو زیر بحث لانا چاہا تو مرکزی کمیونسٹ وزیر خورشید حسن میر آڑے آئے اور مفتی صاحب کو اپنی قرارداد پڑھنے تک موقع نہ دیا۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے