تازہ ترین

ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کی کہانی (پہلا حصہ)

maloon mirza ghulam ahmed qadiyyani ki kahani part 1
  • واضح رہے
  • جون 21, 2021
  • 2:38 شام

اسلامی تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ جب مسیلمہ کذاب نے دعویٔ نبوت کیا تو سیدنا صدیق اکبرؓ کے دور میں سب سے پہلا جہادی لشکر اسی کیخلاف روانہ کیا گیا

اسی طرح خلیفہ ہارون الرشید کے عہد خلافت میں بھی ایک بدبخت نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور کہا کہ میں نوح علیہ السلام ہوں، کیونکہ عمرِ نوح کے ایک ہزار پورے ہونے میں 50 برس کی کمی باقی رہ گئی تھی، جس کے پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور کہا قرآن مجید میں اس کی تصدیق موجود ہے۔ (معاذ اللہ)

ہارون الرشید نے علماء کے فتویٰ سے بحکمِ ارتداد اس کی گردن اڑا دی اور پھر عبرت کیلئے سولی پر لٹکا دیا۔ (کتاب المحاسن والمساوی للبیہقی ۱/۶۴، ختم نبوت: ۳۰۷)

فتنہ کی ابتدا

مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے تو اس سے کہیں بڑھ کر تھے اور وہ نجانے کیا کیا بکتا رہتا تھا۔ جبکہ اس کے پاس اپنے کسی دعوے کو ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہ تھی۔ مولانا اللہ وسایا تحریر کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے سن شعور کے بعد اپنے خاندان کی روایت کے مطابق انگریز حکومت سے رابطہ قائم کیا اور بات باقاعدہ ملازمت تک پہنچی۔

ملازمت کے دوران اس کا تعلق عیسائی مشینریوں سے ہوا اور وہ تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ ترک ملازمت کے بعد مرزا قادیانی نے ایک جانب عیسائی پادریوں سے مناظرے شروع کئے اور دوسری جانب عیسائی حکومت کو اللہ ذو الجلال کا سایۂ عاطفت قرار دیا اور ہندوستان اور بیرون ہند انگریز حکومت کی اطاعت کو مذہبی فریضہ کہا۔ اسی طرح برطانوی حکومت کی مخالفت کو نمک حرامی اور دین اسلام سے انحراف ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کی۔

ملعون مرزا قادیانی اپنے دعوی الہام سے مرنے تک، انگریزوں کیلئے جاسوسی کو دینی کام تصور کرتا رہا اور ایسے مسلمانوں اور غیر مسلمین کے کوائف وائسرائے ہند کو بھجواتا رہا جو خفیہ یا اعلانیہ انگریز سرکار کے خلاف تھے یا ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے معاون تھے۔

اسی دوران مرزا غلام احمد قادیانی نے درجنوں مسلم ممالک میں اپنی کتابیں شائع کیں اور بعض ممالک میں مبلغ بھی بھجوائے جو ان لوگوں کی جاسوسی کرتے تھے، جو برطانیہ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ اور انگریز انہیں اپنے بہیمانہ مظالم کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اور یہ قادیانی کارکن ان ممالک کے باشندوں کو جہاد کے بارے میں بد دل کرتے تھے۔

ایک عرصے تک مختلف قسم کے مذہبی دعاوی کے بعد ملعون مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کا ایک اہم طبقہ آغاز سے ہی مرزا قادیانی کو ایک مخدوش انسان تصور کرتا تھا۔

اس کے الہامات کو وہ ’’دعویٰ نبوت‘‘ یا اس دعویٰ کی تمہید قرار دیتا تھا اور مرزا مسلسل و پیہم دعویٰ نبوت سے انکار بھی کرتا تھا، ختم نبوت کو اساس ایمان بھی تسلیم کرتا تھا اور برملا کہتا تھا کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں تو اسلام سے خارج اور کفار میں شامل تصور کیا جاؤں۔

لیکن جب اس نے واضح الفاظ میں اور قسمیں اٹھاکر اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کردیا تو مسلمانانِ ہند نے چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کے اجماع کے مطابق مرزا قادیانی کو کافر، مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔

مسلمانوں اور قادیانیوں کے مابین اختلاف کا آغاز تو مرزا قادیانی کے دعاوی سے ہوا، دعویٰ نبوت نے اس اختلاف کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کردیا، اسی دوران مرزا نے دوسرے جملہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے بالمقابل اپنی انفرادیت اور عظمت کا اظہار کیا تو امت مسملہ کے جذبات میں اور زیادہ شدت پیدا ہوئی۔

مرزا قادیانی نے بعض انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام بالخصوص سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور انہی کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت علیؓ، سیدنا حسین ابن علیؓ، اہل بیت اور بعض دوسرے صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کیں اور اپنے آپ کو ان سب سے برتر اور افضل ثابت کرنے کی کوشش کی تو اس کا رد عمل بھی شدید صورت میں رونما ہوا۔

یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ مرزا قادیانی مر گیا۔ دوسری طرف مرزا محمود نے 1913-14ء میں جماعت پر قابض ہونے کے فوراً بعد انگریز حکومت سے اپنا رشتہ مستحکم کیا۔ جنگ عظیم اوّل (1914ء سے 1919ء) میں نہ صرف یہ کہ انگریز کی کھلم کھلا حمایت کی بلکہ جب انگریز بغداد پر قابض ہوا تو اس پر مرزا محمود نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔

قادیان میں شیرینی تقسیم ہوئی اور چراغاں کیا گیا، ایسی ہی خوشی کا اظہار ترکی کی شکست اور دوسرے مسلمان ممالک پر انگریز اقتدار کے مستحکم ہونے کے مواقع پر کیا گیا۔

قادیان میں شیرینی تقسیم ہوئی اور چراغاں کیا گیا، ایسی ہی خوشی کا اظہار ترکی کی شکست اور دوسرے مسلمان ممالک پر انگریز اقتدار کے مستحکم ہونے کے مواقع پر کیا گیا۔

جنگ عظیم اوّل کے بعد مرزا محمود نے اپنی جماعت کی سیاسی برتری کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام کو زیادہ اہمیت دی اور مسلمانوں کی پسماندگی سے فائدہ اٹھا کر اپنی جماعت کو مالی اعتبار سے مضبوط کیا۔ اور پھر قادیانیوں نے سرکاری محکموں میں پنجے گاڑے۔

قادیان میں یہاں تک ہوگیا کہ قادیانی مسلم دکانداروں سے ’’تجارتی معاہدہ’’ کے عنوان سے ایک فارم پُر کرایا کرتے تھے، جس میں دوسری اہم شرائط کے علاوہ یہ شق شامل تھی کہ وہ کسی ایسے گروہ سے تعلق نہیں رکھیں گے جو مذہبی بنیادوں پر قادیانیوں کا مخالف ہو۔ اور اپنے محلوں میں مسلمان دکانداروں سے سالانہ ٹیکس طرز کی وصولیابیاں کیا کرتے تھے۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے