تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پندرہواں اور آخری حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 15
  • واضح رہے
  • جون 20, 2021
  • 3:42 شام

عالمگیر کا معمول تھا کہ اہم حکومتی معاملات پر اجلاس غسل خانے میں منعقد کرتا اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا تھا

محاصل کا نظام

عالمگیر کے عہد میں سلطنت کی سالانہ آمدنی اور مالیہ کا نظام کافی دلچسپ تھا۔ زمین کو مختلف سرداروں اور امرا میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اور سرداروں کو ان کی خدمت، کارکردگی اور انعام کے طور پر دی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی یہ زمین کسی مذہبی ادارے کے خرچ اٹھانے کیلئے بھی دی جاتی تھی، کسی عالم، مفتی یا مذہی رہنما (ہندو یا مسلمان) کو بھی بادشاہ کی طرف سے ان کے گزارے کیلئے عنایت کی جاتی تھی۔ یہ تمام ادارے وزارت مالیات کے تحت ہوتے تھے اور علاقے جاگیر کہلاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چودہواں حصہ)

انتظامیہ

ایک ریاست جو اہم ترین جز ہے اور جس کی وجہ سے حکومت کی کمزوری یا استحکام کا پتا چلتا ہے وہ اس کی انتظامی کارکردگی ہے۔ عالمگیر کے عہد میں حکومت اور عوام کو ایک دوسرے سے قریب رکھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور انتظامیہ کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے چار  طریقے اختیار کئے گئے تھے۔ عوام کے حالات سے مطلع رہنے کیلئے دیوان عام و خاص کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ ان دیوانوں کے ذریعے عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

عالمگیر نے عوام کو عاملوں کے ظلم و ستم سے بچانے کیلئے دیوان عدالت کا بھی اجرا کیا۔ اس کے علاوہ غسل خانے میں دیگر اجلاس بلاتا، جہاں ذی القدر امرا کے ساتھ مل کر ملکی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے احکامات نافذ کئے جاتے تھے۔ عالمگیر کے عہد میں انتظامیہ کے جن قوانین کا اجرا ہوا وہ اپنی مثال آپ تھے، جن میں رقص و سرور کی تمام محفلوں کو سرے سے ختم کردینا شامل تھا۔ شخصیت پرستی اور چاپلوسی کا کلچر بھی عالمگیر کو سخت ناپسند تھا، جس پر اس نے کئی اہم اقدامات اٹھائے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (بارہواں حصہ)

عالمگیر کی جانب سے یہ فرمان بھی جاری کیا گیا کہ اگر کسی مستحق کی کوئی رقم بادشاہ کی طرف نکلتی ہو تو وہ وکیل شرعی سے رجوع کرے، تاکہ یہ رقم اس کے حوالے کردی جائے، چنانچہ عالمگیر نے اس رقم کو بھی ادا کیا جو شہزادہ مراد نے سورت کے سودا گروں سے بطور قرض حاصل کی تھی۔

اسی طرح ایک اور اہم احسن اقدام یہ کیا کہ آپس میں مسلمان ایک دوسرے سے ملتے وقت سلام ضرور کریں نہ کہ کافروں کی طرح ماتھے تک ہاتھ اٹھاکر سیلوٹ کریں۔ اسی طرح عوامی صحت کے پیش نظر منشیات کے استعمال پر سخت پابندی عائد کی۔ اور ملک بھر میں چرس، تمباکو، شراب اور اسی قسم کی دیگر نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت کی ممانعت کردی گئی۔

ان مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہر شہر میں محتسب مقرر کئے گئے جو ان امور کا سختی محاسبہ کرتے اور ان کو دور کرنے کی سعی کرتے تھے۔ بنگال میں خاص طور پر چند دیگر ٹیکسوں کی معافی کا اعلان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دسواں حصہ)

ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عہد عالمگیری میں انتظامی معاملات پر کتنا سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ ہر فرد کی شہری آزادی اور وقار کا حکومت خود خیال رکھتی تھی۔ غیر ملکیوں کو ملک کے لوگوں کے مقابلے میں کم حقوق میسر تھے اور ملک کے افراد کا درجہ ان غیر ملکیوں کے مقابلے میں بہت ارفع اور اعلیٰ تھا۔

اس دور میں قوانین کا صحیح اور ضابطہ پر اجرا کرنے کیلئے قوانین کی ایک مدلل کتاب تصنیف عمل میں لائی گئی تاکہ عدلیہ کے قوانین اور انصاف کے سلسلے میں بہترین مددگار ثابت ہو سکے۔ اس کتاب کا نام فتاویٰ عالمگیری رکھا۔

مغلوں کی بحری قوت

عالمگیر کے دور میں بہترین اور لاجواب مغل جاسوسی نظام ایسا تھا کہ جس کی مثال کسی عہد کی تاریخ میں اتنی منتظم طور سے نہیں ملتی ہے۔ سب سے بڑھ کر مغلوں کی بحری قوت کا عالمگیر کے عہد میں اجراء ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنی مضبوط اور طاقتور بحری قوت بن کر ابھری کہ اس دور کے یورپی سمندری بیڑے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (آٹھواں حصہ)

ہندوستانی کارخانوں میں بنے ہوئے یہ جنگی جہاز دیگر اقوام مثلاً پُرتگیز، انگریز اور فرانسیسی جنگی جہازوں سے زیادہ مضبوط، بڑے اور بہترین جنگی ہتھیاروں اور سامان سے آراستہ تھے۔ ان جہازوں کے بنانے کے کارخانے سورت کے علاوہ بنگال کے اس وقت کے ساحلی علاقوں ہگلی، جیسور، چمکاری، کاری باری اور بالیشور کے مقام پر موجود تھے۔

ان کی کمان انتہائی بہادر امیر البحر سدی سنبھل یاقوت اور سدی قائم کر رہے تھے، جو مغل دربار کے اعلیٰ عہدوں پنج ہزاری پر بھی فائز تھے۔ ان کے تحت یہ مغل بحری فوج موجود تھی اور انہوں نے کسی بھی بحری جنگ میں کبھی ناکامی کا منہ نہ دیکھا۔

عہد عالمگیری میں ایک عام آدمی کے قومی تشخص اور عزت نفس کا اس طرح خیال رکھا جاتا تھا کہ گورنر حتیٰ کہ بذات خود بادشاہ بھی ان معاملات پر گہری نظر رکھتا تھا۔ صرف ایک ہی واقعہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں بادشاہ کے ذہن میں ایک عام شہری کی عزتِ نفس کیا تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

واقعہ کچھ یوں ہے کہ بمبئی میں ایک کمپنی کے ایک انگریز افسر نے اپنے ہندوستانی ملازم کو زدوکوب کیا۔ جس کی شکایت اس نے گورنر سورت سے کردی۔ گورنر نے حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص ان غیر ملکیوں سے لین دین اور خرید و فروخت نہ کرے اور کمپنی کے لوگوں پر یہ پابندی لگا دی کہ وہ باہر نہ نکلیں ورنہ انہیں گلیوں اور بازاروں میں قتل کر دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی عالمگیر کو تمام حالات سے مطلع کر دیا۔

بادشاہ نے کمپنی کے ڈائریکٹر سے جواب طلبی کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ 24 ہزار روپیہ جرمانہ بھی کر دیا۔ اس وقت کمپنی کا ڈائریکٹر مسٹر چائلڈ (CHILD) تھا۔ کمپنی نے فی الفور اسے برطانیہ آنے کو کہا۔ اس جرمانے اور واقعہ کا اس پر اس قدر اثر ہوا کہ انگلستان جانے کیلئے جب وہ جہاز پر سوار ہو رہا تھا تو پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ اس کو دل کا دورہ پڑا، وہ گر کر مر گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پہلا حصہ)

یہ واقعہ ڈاکٹر شفاعت کی کتاب "بمبئی اورنگزیب کے عہد میں، انگریزی زبان میں موجود ہے، جس کا مطالعہ کرکے سلطنت میں عوام کے تحفظ اور حکومت کے استحکام سمیت سرکاری امور سر انجام دہنے والے اور مختلف اداروں کے متحرک و فعال ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے