تازہ ترین

زرعی شعبہ بحران کا شکار

zarrei shauba behran ka shikaar
  • محمد قیصر چوہان
  • مئی 3, 2023
  • 11:44 صبح

زراعت معاشی ترقی کا بنیادی ستون ہے ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے

یہ حقیقت ہے کہ زراعت پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے ، پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے اور جی ڈی پی میں اضافہ کے لحاظ سے یہ ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔لیکن افسوس کہ اس اہم ترین شعبے پر اتنی توجہ کسی دور حکومت میں نہ دی گئی جس کا یہ مستحق ہے نتیجہ سب پر عیاں ہے کہ ہم ،جو زرعی اجناس برآمد کرنیوالے تھے اب ہم گندم درآمد کررہے ہیں۔ زراعت کو جدید سائنسی ٹیکنالوجی مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہونے لگی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے زراعت کے شعبے پر بہت زیادہ منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث ملک کو فوڈ سیکیورٹی کے خدشات بھی لاحق ہیں۔ پاکستان میں زرعی شعبے کے حوالے سے زمینی اصلاحات کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ، اگر حکومت حقیقی جذبے کے ساتھ زرعی شعبے میں زمینی اصلاحات متعارف کراتی ہے تو یہ زرعی شعبے کی پائیدار ترقی کے لیے ایک اہم سنگِ میل اور انقلابی اقدام ہوگا۔ایک اندازے کے مطابق2025 میں پاکستان میں 72ملین ٹن خوراک کی کمی ہو گی جو کہ انتہائی خطرناک حالت ہے، اگر پاکستان نے ان خطر ناک حالات سے بچنا ہے تو زراعت پر توجہ دینی چاہیے اور پانی کی کمی کو پورا کرنا چاہیے۔

پاکستان نے حال ہی میں گندم سعودی عرب اور روس سے امپورٹ کی ہے۔ پاکستان کبھی گندم اور دوسری اشیاءدوسرے ممالک کو فراہم کرتا تھا لیکن آج یہ خود باہر سے منگوا رہا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے یہ پاکستان کے لیے انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔بجلی کے فکس ریٹ کا نہ ہونا، مہنگی کھاد، مہنگا ڈیزل اور زرعی ٹیکس نے کسان کو بے حال کر دیا ہے۔ پاکستان کیونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے زراعت پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت سب سے بڑا اور بہترین نہری نظام پاکستان میں ہے، اتنا بڑا اور بہترین نظام ہونے کے باوجود بھی پاکستانی زراعت تنزلی کا شکار ہے۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی زراعت اور معیشت کس سمت جا رہی ہے۔ پاکستان میں ڈیم کی کمی کی وجہ سے ہر سال بہت سارا پانی ضایع ہو جاتا ہے۔پاکستان میں اس وقت تین بڑے ڈیم اور85 چھوٹے ڈیم، 19بیراج،12بڑی کینال45 چھوٹی کینال ہیںجبکہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے پانچ ہزار دو سو دو ڈیم ہیں اور چین کے بائیس ہزار ڈیم ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک کسی بھی حکمران نے زراعت پر توجہ نہیں دی، اگر پاکستان آج بھی زراعت پر توجہ دیتا ہے تو وہ معیشت میں دنیا کی سپر پاور ممالک کی معیشت کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان نے زراعت اور معیشت میں کافی ترقی کی۔ انھوں نے بہت ساری زمینی اصلاحات بھی کیں اور بہت سارے ڈیم بھی بنوائے جس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ انھوں نے زمینی اصلاحات اس طرح کیں کہ ایک شخص پانچ سو ایکڑ قابل کاشت اور ہزار ایکڑ ناقابل کاشت رقبہ رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں رکھ سکتا۔جنرل ایوب خان نے پچیس لاکھ ایکڑ زمین ایک لاکھ83ہزار لوگوں میں تقسیم کر دی تھی۔

جنرل ایوب خان کے دور میں سب سے زیادہ زمین رکھنے والے لوگوں کا تعلق جنوبی پنجاب اور سندھ سے تھا۔ آج بھی پاکستان کی کل زمین کا 45فیصد حصہ صرف دو فیصد لوگوں کے پاس ہے جو کہ لینڈ لارڈ اور سیاستدان ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 197.7ملین ایکڑ ہے جس میں سے 54.6ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے جو کل رقبے کا قریباً 28فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 60فیصد دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس 60 فیصد آبادی کا تین چوتھائی بے زمین ہاریوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے اور باقی ماندہ ایک چوتھائی چھوٹے کسانوں سے لے کر اوپری درمیانے کسانوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ 21فیصد ہے۔ زراعت ملک کے 45فیصد لوگوں کے روزگارکا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے پاکستان کا اہم شعبہ ہونے کے باوجود، یہ بری طرح نظر انداز ہورہا ہے۔ زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 75فیصد بے زمین ہاریوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔جاگیر دارانہ نظام کی باقیات نہایت بہیمانہ شکل اختیار کر چکی ہیں آبپاشی کی سہولتیں ناکافی ہیں اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیںمہنگی ہونے کے ساتھ جعلی زرعی ادویات بھی، پاکستانی کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہیں۔ سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرحِ سود پر، غریب کسان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی۔

zarrei shauba behran ka shikaar

حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی بھی کسانوں کو لوٹنے پر لگی ہو ئی ہے۔ کسان کو ہر فصل کم ازکم 25000 فی ایکڑ نقصان دیتی ہے۔ ملک وقو م کیلئے اناج اگا نے والا کسان محکمہ خوراک کے دفتر کے باہر جانوروں کی طرح سارا سارا دن لائن میں کھڑا رہنے کے بعد خالی گھر کو لوٹ جاتا ہے مگر اس کو اپنی فصل بیچنے کیلئے باردانہ نہیں ملتا۔ آخر مجبور ہوکر کوڑیوں کے بھاو ¿ مافیا کو بیچتا ہے۔ ساری دنیا کیلئے اناج اگا نے والے کسان کے گھر میں روٹی تک نہیں اس نے کیا اپنی اور اپنے خاندان اور باقی ضروریات پوری کرنی ہیںآج اس کے بچے سکول کالج سے نکال دیئے گئے صرف اسی لیے کہ اس کے پاس دینے کےلیے فیس کے پیسے نہیں ہیں۔ آج حالا ت یہ ہو گئے ہیں کہ مسلسل نقصانات کے باعث اناسی لاکھ خاندان دیہات چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کی تلاش میں چلے گئے ہیں۔ دیہاتوں میں فصلیں کم اور غربت زیادہ اگتی ہے اس کی وجہ کھاد، بیج، تیل، سپرے اور بجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پیداوار کی بڑھتی لاگت ہے۔پاکستان میں ٹریکٹر کی صنعت بے رحم اجارہ داری کی گرفت میں ہے۔ کل ملا کے غالباً دو کمپنیاں ہیں جو نہ مسابقت کا ماحول پیدا ہونے دیتی ہیں اور نہ ہی معیار پر توجہ دیتی ہیں۔ البتہ ملی بھگت سے ہرسال ٹریکٹروں کی قیمتوں میں خاصا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کسان اور محنت کش غربت کے سمندر میں غرق ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی زراعت میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی کمی کا ہے۔ پاکستان میں بہت سارا رقبہ پانی کی کمی کی وجہ سے بے کار پڑا ہے ، اگر پانی کی کمی کو دور کیا جائے اور اس ناقابل کاشت رقبے کو کاشت کے قابل بنایا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو گا۔ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی بندش کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بارہ لاکھ ٹیوب ویل ہیں۔ ان بارہ لاکھ ٹیوب ویلوں میں85فیصد پنجاب میں6.4فیصد سندھ میں4.8 فیصد بلوچستان میں جبکہ 3.8خیبر پختونخوا میں زیر استعمال ہیں لیکن بجلی کی کمی کی وجہ سے یہ بھی بند پڑے رہتے ہیں ، جس سے زراعت کو بہت سارا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ پہلے سے ہی پانی کی کمی ہے اور ٹیوب ویل کے نہ چلنے کی وجہ سے مزید نقصان ہو رہا ہے۔ کپاس کی فصل ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے جس کا زراعت میں حصہ4.1 فیصد ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کا خام مال کپاس سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار میں تقریباً سات فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ اس کے کاشتکار اب گندم اور گنے کی کاشت کو ترجیح دے رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے گندم اور گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنا ہے۔

لائیو اسٹاک زراعت کا اہم جزو ہے، تقریباً 15لاکھ خاندان اس پیشے سے وابستہ ہیں اور زندگی کی بنیادی ضرورتیں اسی سے پوری کرتے ہیں۔ یہ ملک میں دودھ اور گوشت کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ پاکستان دودھ اور گوشت کی پیداوار میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ پاکستان دودھ پیدا کر نے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔آنے والے وقتوں میں فصلوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانا آسان کام نہیں ہوگا۔ اس وقت زرعی شعبے کو جس طرح صنعتی دور کے طریقوں (جیسے زمین کے استعمال کے فرسودہ تصورات اور پیداواریت) کے تحت چلایا جارہا ہے، اس کے نتائج اور بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔یہ وہ صورتحال ہے، جہاں زراعت کے فروغ اور فصلوں کی پیداوار کو دُگنا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا کردار اہم ہوجاتا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ زرعی زمینوں کے لیے مزید بڑے کارپوریٹ فارمز بنانا یا پھر نئے مصنوعی کیمیکلز تیار کرنا پڑیں گے۔

زراعت کے شعبے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کاشتکاروں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، مارکیٹنگ اور مارکیٹ کے کمزور ڈھانچے کی ترقی، موثر سپلائی چین مینجمنٹ کا قیام، زمینی اصلاحات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو فروغ دینے جیسے اقدامات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ کسانوں کی اکثریت چھوٹے زمینداروں پر مشتمل ہے، ان میں سے تقریباً 90 فیصد کے پاس 5 ایکڑ سے کم زمین ہے، اس لیے وہ سرپلس پیداوار کے لیے حکومت کی طرف سے خاطر خواہ کریڈٹ سہولت کے بغیر نہیں جا سکتے۔ماضی میں حکومتوں نے کاشتکاروں کے لیے مختلف کریڈٹ اسکیمیں متعارف کرائیں لیکن ان کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اس لیے موجودہ حکومت کو ایک کریڈٹ اسکیم متعارف کرانی چاہیے۔ زراعت کی مارکیٹنگ کمزور ترین ہے۔چھوٹے کسان مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے حکومت کو کسانوں کی مدد کے لیے آلات متعارف کروانے ہوں گے۔ٹرانسپورٹ کے نظام کو حفظان صحت کے جدید معیارات اور کولڈ اسٹوریج کی مناسب سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے نقل و حمل کا جدید نظام مصنوعات کی شیلف لائف اور مانگ کو بڑھانے اور ملکی برآمدات کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کمانے کا ایک اچھا ذریعہ بن سکتا ہے۔حکومت کو نجی شعبے کو راغب کرنے کے لیے حکومت کو کولڈ اسٹوریج کی سہولت کے ساتھ ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ جیسے کچھ مراعات پیش کرنا ہوں گی۔

زرعی شعبے کی بحالی اور معیشت اور فوڈ سیکیورٹی میں حکومت کو مختلف آبپاشی اصلاحات جیسے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر، واٹر ریگولیٹری اتھارٹیز کا قیام اور پانی کی تقسیم کے نیٹ ورک کو بہتر بنانا چاہیے۔ ان اقدامات سے زراعت کے لیے پانی کی دستیابی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو کسانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور کارپوریٹ کمپنیوں کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ زرعی شعبے کی مجموعی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کریں۔ کسانوں کے مسائل کے لیے جدید تقاضوں کے مطابق حل لانا اور منافع بخش کاشتکاری کے حصول میں ان کی مدد کرنا پاکستان کے غذائی تحفظ کے چیلنجوں سے نمٹنے کا واحد آپشن ہے۔کسانوں کے ملکی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی میں کردار اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسان پاکستان کی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور حکومت کسانوں کو سہولیات اور مراعات دے کر مزید بہتر نتائج حاصل کرسکتی ہے۔

کاشتکاروں کو مزید بااعتماد بنانے اور کام کے لیے ا ±ن کی لگن کو بڑھانے سے زراعت کا شعبہ تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرسکتا ہے۔ کاشتکار طبقہ کی محنت اور قومی ترقی میں ان کے کردار کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی بھی وجہ بنے گا جس سے کاشتکاروں میں کام کے جذبے کو تقویت ملے گی۔ زرعی پیداوار کو بہتر کر کے خوراک میں خودکفالت پاکستان کو بہت سے معاشی مسائل سے بچا سکتی ہے۔پاکستان کی سو فیصد غذائی ضروریات بھی اسی سے پوری کی جا سکتی ہیں۔ زرعی ترقی کے بغیر نہ تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ مقررہ شرح نمو اور خوشحالی کو یقینی بنا یا جاسکتا ہے۔حکومت بلا تاخیر زرعی ترقی پر توجہ دے بلکہ اسے اپنی اولین ترجیح بنائے اور ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان