تازہ ترین

یہ علامہ اقبال کی آواز تو نہیں

ye allama iqbal ki awaz to nahi
  • واضح رہے
  • اگست 11, 2022
  • 9:18 شام

شاعر مشرق علامہ اقبال کی آواز کی ریکارڈنگ کیوں دستیاب نہیں ہے؟ اقبالؒ کے عشاق اپنے محبوب شاعر کی آواز سننے کے لیے ہمیشہ بے تاب رہے ہیں

اس ضمن میں مختلف نوسر باز ان کے جذبات سے کھیلنے کے لیے علامہ کے نام سے مختلف آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہتے ہیں۔ جو ریکارڈنگ علامہ اقبالؒ کے نام سے وائرل ہوئی ہے، اس کا علامہ اقبالؒ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ آواز تامل ناڈو وانمباڑی ہندوستان کے ایک شاعر عتیق احمد جاذب کی ہے جو اپنا حمدیہ کلام:

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالے سے، فضاؤں سے خلا سے

سنا رہے ہیں۔

یوٹیوب پر آج بھی یہ آڈیوز موجود ہیں اور لوگ بے وقوف بن رہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی آواز ابھی تک کہیں سے بھی نہیں مل سکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب ہندوستان میں آواز ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا، اس زمانے میں علامہ اقبالؒ کی آواز بیٹھی ہوئی تھی۔

اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جنوری 1934ء میں عید کے روز سویّوں میں دہی ملا کر کھانے سے علامہ اقبالؒ کی آواز بیٹھ گئی، علاج کے باوجود بعد بھی آواز کبھی نارمل نہ ہو سکی۔ اقبالؒ 13 جون 1936ء کو پروفیسر الیاس برنی کو لکھتے ہیں:

’’دو سال سے اوپر ہو گئے۔ جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا سویاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوا۔ بہی دانہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا۔ یہ کیفیت دو سال سے جاری ہے۔ بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے بالآخر بیرسٹری (وکالت) کا کام بھی چھوڑنا پڑا۔ انگریزی اور یونانی اطباء دونوں سے علاج کیا، مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

3 اپریل کی رات تین بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سر سید کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں عرض کرو۔ میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرضداشت کے چند شعر جواَب طویل ہو گئی ہے، میری زبان پر جاری ہو گئی۔ ان شاء اللہ ایک مثنوی فارسی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرضداشت شائع ہو گی۔

6 اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا ہے، جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔‘‘

اگرچہ اقبالؒ کو متعدد امراض سے واسطہ رہا، لیکن انہوں نے جتنا علاج اپنی آواز کی بحالی کے لیے کرایا، کسی اور مرض کے لیے نہیں کرایا، کیوں کہ آواز کے بیٹھ جانے کے بعد اقبالؒ کی اجتماعی زندگی بہت متاثر ہو چکی تھی۔ ان کی پریکٹس جو ان کا ذریعہ معاش تھا، ختم ہو چکی تھی۔ خطبات، تقاریر اور مختلف کانفرسوں میں شرکت بھی اسی وجہ سے ختم ہو چکی تھی۔

اقبالؒ کو آواز کے بیٹھ جانے کا صدمہ اس لیے بھی زیادہ تھا کہ وہ خوش الحانی سے تلاوت نہیں کر پا رہے تھے، کیونکہ بچپن سے ہی قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ ان کا محبوب ترین مشغلہ اور دل و دماغ کا سرمایہ تھا۔ قرآن مجید سے ان کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، جیسا بھی انہماک، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ہوں، ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دوران مطالعہ اکثر رقت طاری ہو جاتی۔

چنانچہ بعض اوقات کہتے تھے کہ اگر آواز عود کر آئے تو اسے خاص خدا کی رحمت تصور کروں گا۔ برقی علاج سے عارضی طور پر ورم میں کمی تو ہوئی اور آواز کچھ بہتر معلوم ہوئی، لیکن جیسے ہی کچھ دن گزرے اور کچھ سردی، زکام اور کھانسی شروع ہوئی تو آواز پھر خراب ہوگئی اور یہ سلسلہ آخر دم تک برقرار رہا۔

نوٹ: سویوں پر دہی ڈال کر کھانا اور بطور خاص عید والے دن اقبالؒ کا پسندیدہ و مرغوب کھاجا تھا۔ خود اقبال نے بھی اپنی بچپن کی یادداشتوں میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب عید والے دن ان کی والدہ ان کو سویوں پر دہی ڈال کر اپنے ہاتھ سے کھلا رہی تھیں اور اس وقت اقبالؒ کے والد قدرے ناراضگی کے عالم میں کمرے میں داخل ہوئے اور اقبالؒ کی والدہ کو اقبال سے بے جا لاڈ پیار پر کچھ سرزنش کی تھی۔

علامہؒ کی چاند رات اور دہی والی سویاں:

اس کا کچھ احوال ان کے بیٹے، جسٹس (ر) جاوید اقبال کی خودنوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں ملتا ہے۔ وہ کتاب کے صفحہ نمبر 20 پر لکھتے ہیں کہ جب عید کا چاند دکھائی دیتا، تو گھر میں بڑی چہل پہل ہوجاتی۔ میں عموماً والد کو عید کا چاند دکھایا کرتا تھا۔ گو مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی، لیکن اس شب گرم پانی سے والدہ نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ نئے کپڑے یا جوتوں کا جوڑا سرہانے رکھ کر سوتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے، عیدی ملتی، کمخواب کی ایک اچکن، جس کے نقرئی بٹن تھے، مجھے والدہ پہنایا کرتیں۔‘‘

عید کی صبح علامہ اقبالؒ کی سرگرمیوں کو انہوں نے یوں منظر کیا ’’میں والد کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔ ان کی انگلی پکڑے شاہی مسجد میں داخل ہوتا اور ان کے ساتھ عید کی نماز ادا کرتا۔ نماز سے فارغ ہوکر میرے والد بہ مطابق معمول بارودخانہ میں میاں نظام الدین کی حویلی میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے۔ گھر واپس آکر والد کی عادت تھی کہ وہ عید کے روز سویوں پر دہی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ سارا دن انہیں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔‘‘

ایک حاذق حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ موصوف کے صاحبزادے جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کی گرانقدر تالیفات زندہ روداور اپنا گریبان چاک میں علامہ مرحومؒ کی بیماری اور علاج معالجین کی ساری تفصیل موجود ہے، جسے پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ علامہ کا مزاج بلغمی تھا۔

سردی کے موسم میں بے احتیاطی اور سویوں پر دہی ڈال کر کھانے سے آواز متاثر ہوگئی، یعنی گلا بیٹھ گیا۔ دہلی کے مشہورو معروف طبیب افسر الاطباء حکیم عبد الوہاب انصاری مرحومؒ جو کہ مشہور مسلم لیڈر ڈاکٹر انصاری صاحب مرحوم کے بھائی اور حضرت رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مجاز تھے، نے علامہ مرحوم کا علاج کیا، مگر بار بار کی بد پرہیزی نے علاج کو کامیاب نہ ہونے دیا۔

افاقہ ہوتا، مگر کبھی بریانی، کبھی دہی کھانے سے معدوم ہو جاتا، اگر حکیم صاحب مرحوم علامہ مرحوم کو دہلی بلا کر اپنے پاس رکھ کر علاج کرتے تو میری رائے میں ضرور فائدہ ہو جاتا۔ اس مرض کے لئے ایک مجرب نسخہ موجود ہے۔ غذائی پرہیز اور نسخہ کے استعمال سے آواز کھل جاتی ہے۔

تحریر: احسان اللہ احسن

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے