تازہ ترین

ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (پانچواں اور آخری حصہ)

tipu sultan ki 49 saal ki zindagi part 5
  • واضح رہے
  • اگست 5, 2021
  • 10:55 شام

ٹیپو سلطان ہر طرف سے انگریز فوج میں گھر چکے تھے۔ اس کے باوجود ان کی تلوار اپنے جوہر دکھا رہی تھی

انگریزوں کے حملوں سے سلطان کے جسم پر دو زخم لگ چکے تھے۔ تیسرے زخم نے نڈھال کردیا۔ وفاداروں نے اٹھا کر پالکی میں ڈالنا چاہا۔ لیکن ایک ہجوم نے انہیں پرے دھکیل دیا۔

ٹیپو سلطان زخموں سے چور ہوکر زمین پر گر پڑے۔ ایک انگریز سپاہی نے آگے بڑھ کر ان کی پیش قیمت پیٹی اتارنا چاہی۔ ابھی ٹیپو سلطان میں زندگی کی رمق اور غیرت کا جوش باقی تھا۔

ٹیپو سلطان نے انگریز سپاہی پر فوراً سے پہلے وار کیا۔ اور سپاہی کو کاٹ کر پرے پھینک دیا۔ ایک اور سپاہی یا شاید اسی سپاہی نے پستول کے وار سے ٹیپو سلطان کو شہید کردیا۔ یہ ۴ مئی کا دن تھا۔

۵ مئی کو انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی میت کو حیدر علی کے پہلو میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن کردیا۔ ان کی دو بیویاں تھیں اور بارہ بیٹے تھے، جو ان کے بعد حرات میں لے لئے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (پہلا حصہ)

۶ مئی تک سرنگاپٹم میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ محل کے علاوہ عوام کے گھروں سے کروڑوں اربوں پونڈ مالیت کی اشیا اٹھائی گئیں۔ ہزاروں لاکھوں افراد شہید ہوئے۔ اس لوٹ مار کو روکنے کیلئے خود انگریز جرنیلوں نے اپنے کئی سپاہیوں کو پھانسی پر چڑھایا۔

اس وقت بڑا شہزادہ فتح حیدر سرنگاپٹم سے باہر تھا۔ اس کے ساتھیوں نے جنگ جاری رکھنے کا مشورہ دیا، مگر انگریزوں کے ساتھ ساتھ پورنیا نے تخت دلانے کا یقین دلایا، چنانچہ اس نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔

بعد میں لارڈ دلزلی اپنے عہد سے پھر گیا اور شہزادوں کو دو لاکھ ۴۰ ہزار پگوڈا کا وظیفہ دے کر میسور کی گدی پر قدیم راجا کے لے پالک بیٹے کو بٹھا دیا۔ شہزادوں کو پہلے دیلور میں نظر بند کیا گیا اور بعدازاں کلکتہ منتقل کردیا گیا۔

ٹیپو سلطان شہید ایک بڑے مجاہد اور سچے مسلمان تھے۔ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور سارا دن باوضو رہتے۔ خود عالم تھے اور اہل علم کی قدردانی بھی کرتے تھے۔ ان کا کتب خانہ ہندوستان کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (دوسرا حصہ)

ٹیپو سلطان کے اوضاع اور اطوار پسندیدہ اور مثالی تھے۔ اپنے آخری دور میں وہ سبز رنگ کی دستار پہنتے تھے۔ مکرویات اور منہیات سے انہوں نے ہمیشہ پرہیز کیا۔ تمام فرامین پر اپنے ہاتھ سے بسم اللہ لکھتے اور نیچے دستخط کرتے تھے۔

شجاعت اور بہادری میں ان کوئی ہم سر نہ تھا۔ اسلامی حمیت میں ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تعصب سے بھی پاک تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ پورنیا جیسے ہندو ان کے وزرا میں شامل تھے۔

ٹیپو سلطان بے حد اختراع پسند تھے۔ سن محمدی، نئے سکّے، نئی وضع کے اسحلے، قواعد و ضوابط، آئین وغیرہ کا اجرا ان کی اختراع پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

انہیں اپنی ریاست اور عوام سے بے حد محبت تھی اور ہمیشہ ان کی فلاح و بہود میں لگے رہتے۔ جنگوں سے فرصت میں انہیں جتنا بھی وقت ملا وہ انہوں نے عوام کی فلاح کیلئے صرف کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (تیسرا حصہ)

کسانوں پر مالیہ معاف کیا، سرکاری زمین پٹے اور ملکیت پر کاشت کیلئے دی۔ اسی طرح تہذیب و تمدن کی ترقی کیلئے بھی احسن اقدامات کئے۔ ہندو خواتین کو انہی کے دور میں مکمل لباس پہننے کی ترغیب دی گئی۔

وہ اسلامی شعائر کے سختی سے پابند تھے۔ رمضان کے مہینے میں پورا ملک روزوں کا احترام کرتا تھا۔ ٹیپو سلطان نے لوگوں کو اپنے سامنے احتراماً جُھکنے سے بھی منع کیا۔

حکومت کیلئے ٹیپو سلطان نے ننانوے مختلف محکمے قائم کئے اور ہر محکمہ کا ایک میر مقرر کیا۔ توشے خانے کو دو حصوں جنس اور نقد میں تقسیم کیا۔ بحریہ کا مستقل محکمہ قائم کیا۔ فن جہاز سازی پر توجہ دی۔ مقناطیسی پہاڑوں سے جہازوں کو بچانے کیلئے لوہے کی جگہ تانبے کے پیندے کا استعمال ٹیپو سلطان ہی کی ایجاد ہے۔

تجارتی و صنعتی ترقی کیلئے بھی ہندوستان میں پہلا قدم ٹیپو سلطان نے اٹھایا۔ ریشم کی صنعت انہی کی مرہون منت ہے۔ انہیں گنّے، گندم جو اور پان کی کاشت سے خصوصی دلچسپی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیپو سلطان کی 49 سال کی زندگی (چوتھا حصہ)

ان تمام امور سے ثابت ہے کہ ٹیپو سلطان ایک ایسے مسلمان، عیور، مجاہد، باہمت جری، قابل منتظم اور حکمران تھے، جن کی مثال تاریخ بہت کم پیش کر سکے گی۔ مغلیہ سلطنت کے بعد وہ جنگ آزادی کے پہلے ہیرو اور پہلے شہید تھے۔

زندگی بھر انہوں نے انگریز سامراج سے مقابلہ اور ان کے غلبہ سے ملک کو بچانے کی خاطر اپنی جان تک دے دی۔ دشمن پر ان کا خوف اتنا تھا کہ عرصہ دراز تک انگریز مائیں اپنے بچوں کو ٹیپو نام لے کر ڈراتی رہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے