تازہ ترین

تحریکِ آزادی میں علماء کا کردار

تحریک آزادی میں علماء کاکردار
  • محمد بلال
  • اگست 13, 2022
  • 1:34 صبح

یہ لوگ عمارت کی یہ وہ اینٹیں ہیں جو بنیادوں میں رکھ کر دونوں طرف سے مٹی لگا دفن کردی گئیں ہیں جو بظاہر دیکھنے میں تو نظرنہیں آرہی لیکن آزادی ہند میں اور قیام پاکستان میں ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

آج 13 اگست 2022ء ہے، 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا آج ہم اس تحریر میں مختصرََا جدوجہد آزادیِ پاکستان میں علماء کرام کی قربانیوں اور کوششوں پر نظر ڈالیں گے۔

"آزادی ایک نعمت ہےاور غلامی ایک لعنت ہے"

اسلام میں میں ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت آزادی ہے۔ اور آزادی کس کو کہتے ہیں کہ اللہ کے بندے اللہ کے غلام ہوں۔اور غلامی کس کو کہتے ہیں کہ بندے بندوں کے غلام ہوں۔ آزادی ہزار نعمت اور غلامی ہزار لعنت ہے۔ جو پاکستان ہمیں نظر آ رہا ہے ہے یہ عظیم الشان عمارت کے طور پر نظر آرہا ہے۔

اس میں دریا بھی ہیں صحراء بھی ہیں، اس کی زمینں سونا اگلتی ہیں، اس کے پہاڑ معدنیات سے لبریز ہیں، یہ ایک عالیشان گھر ہے لیکن کسی بھی عمارت کی کچھ اینٹیں تو وہ ہوتی ہیں جو سامنے نظر آتیں اور کچھ اینٹیں وہ ہوتی ہیں جن کو بنیاد میں ڈال کر ہر طرف سے مٹی میں دبا اور دفنا دیا جاتا ہے دیکھنے والوں کو صرف وہی اینٹیں نظر آتیں ہیں جو نمایاںو ظاہر ہوں لیکن اس عمارت کی بنیاد تو ان اینٹیوں پر ہوتی ہے ہے جن کو زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔

ملک پاکستان میں دو طبقے ہیں ایک مذہبی طبقہ ہے ایک سیکولر طبقہ۔ سیکولر طبقہ اپنی پوری قوت اور توانائی اس پر خرچ کررہا ہے کہ اس ملک میں ملاوّں کا کوئی کردار نہیں۔ اس ملک کی آزادی و بنیادوں میں علماء و مذہبی طبقے کا کوئی کردار نہیں۔ تو سوچا کہ اس مذہبی طبقے کا کچھ تذکرہ کر دیا جائے تاکہ عوام کے سامنے تصویر کے دونوں رخ آسکیں۔ اس سے قبل کہ ان لوگوں کا تذکرہ کروں، جو ملک پاکستان کی آزادی کی بنیاد میں ہیں۔ میں پہلے ان طبقوں کا نقط نظر تحریر کرنا چاہوں گا۔

پاکستان کی تمام مذہبی اور دینی قوتیں شدید ترین باہمی اختلافات کے باوجود وہ اس نکتہ پر متفق ہیں کہ پاکستان ایک خالص مذہبی ریاست ہے۔ لہٰذا اس کا دستور قرآن و سنت کی روشنی میں خالص اسلامی ہونا چاہئے، اور ملک کا سیاسی، اقتصادی، عدالتی، معاشی، معاشرتی اور حکومتی نظام کا ڈھانچا مکمل طور پر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے، جس میں سپریم لا کی حیثیت سے قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہو اور باقی تمام امور قرآن و سنت کے تابع ہوں۔

اس نظام کا ڈھانچا پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو پیش بھی کر چکے ہیں جو بالکل مشہور ہیں اور اس میں کوئی ابہام نہیں۔ دوسری طرف طرف محض سیاسی قوتوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کے نزدیک پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے جس میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مذہب پر بالادستی حاصل ہوگئی ہے اور مذہب کی حیثیت پرسنل اور ثانوی درجہ کی ہوگی، اور اس کا دائرہ کار صرف اور صرف عبادات و اخلاقیات تک محدود ہوگا اور مذہب اس ملک کے سیاسی، اقتصادی ،معاشی اور معاشرتی امور میں دخل انداز نہیں ہوگا۔

جب دونوں طبقات ہمارے سامنے آچکے تو دوسرا طبقہ جو کہ سیکولر ہے جب بھی یہ آزادی پاکستان کے ہیروز کی بات کرتا ہے تو علماء کے کردار کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آزادی کی جدوجہد اس خطہ کے تمام طبقات نے کی اور اس میں سب نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔ آج دوسرے تمام طبقات کا تو ذکر کیا جاتا ہے لیکن علمائے کرام کے کردار اور جدوجہد کو پس پشت ڈال کر نظر انداز کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ تحریر لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔

چنانچہ اس سلسلہ میں تھوڑا سا تاریخی پس منظر ضبط تحریر میں لانا چاہوں گاایک زمانہ تھا جب برصغیر کے مسلمان حکمران رب کے غلام تھے ہزار سال سے زیادہ اس خطہ پر مسلمان حکمرانوں کی حکومت رہی مسلمانوں کے عروج کو کو اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے آئے تو مسلمانوں کے عروج کا یہ عالم تھا کہ یہاں کے ایک نیک بزرگ جن کو تاریخ خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے اپنے انتقال کے وقت یہ وصیت کردی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کی جماعت نماز کبھی نہ فوت ہوئی ہو، جس کی تہجد کبھی قضاء نہ ہوئی ہو، جس سے عصر کی چار سنتیں کبھی قضاء نہ ہوئی ہوں۔تاریخ گواہ ہےاس کا جنازہ برصغیر کےاس وقت کے فرمانروا سلطان شمس الدین التمش نے پڑھایا تقوی کا یہ عالم تھا اور معاشی آسودگی کا یہ عالم تھا کہ یہاں کے ایک فرمانروا اورنگزیب عالمگیر جب تخت  پر بیٹھے، تو آپ نے دلی اور آگرہ کے خزانوں کی پڑتال کا حکم دیا۔

چھ ماہ تک کئی ہزار لوگ چاندی و سونے سکّے تولنے میں مصروف رہے۔ چھ مہینے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ چھ مہینے میں شاہی خزانہ کا صرف ایک کونہ تولا گیا ہے ۔ابھی جواہرات کو تولنے کی نوبت نہیں آئی گویا نیکی اور تقوی میں اور معاشی حالت بھی اس خطہ ارض کو عروج حاصل تھا۔

پھر ایک زمانہ آیا جب ہندوستان پر  انگریز کے منحوس قدم پڑے۔1601ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے عنوان سے برصغیر میں داخل ہوا،100 سال کے قریب معیشت کے نام پر ملک میں اپنا قبضہ کیا بالآخر ایک دن دلی کے تخت پر بھی اپنا قبضہ کرلیا۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا۔جب یہاں 1857ء کی جنگ آزادی لڑی جارہی تھی دلی شہر میں میں مغلیہ سلطنت کی آخری فرمانروا واہ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں شہزادہ فخرالدین اور شہزادہ ابوبکر کو قتل کر دیا گیا،اور بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا گیا۔

بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے جب کھانا طلب کیا تو کھانا دینے کی بجائے بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے جگر پیش کیے گئے اسی خطہ پر ایک وہ عالم تھا اور ایک یہ وقت آیا۔ جب ہماری آزادی سلب ہوگئی اور ہم غلامی کے طوق میں میں جڑے گئے غلامی کے طوق کو نکالنے میں برصغیر کے علماء کا کردار وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 200 سالہ تحریک میں ایک نمایاں کردار ان علماء کا تھا جنہوں نے  آزادی کی جنگ لڑی اور اسی جنگ کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔

اس صورتحال کو یوں سمجھیں کہ سلطان اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ مغلیہ خاندان کی سلطنت پرگرفت کمزور پڑتی گئی ایسے میں مسلمانوں کے تین بڑے دشمن سامنے آئے۔ ۔ مرہٹے ،سکھ اور انگریز۔ان تینوں کے خلاف جو جنگ آزادی لڑی گئی اس کا خلاصہ تحریر کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں مسلمانان ہند میں علماء کا نمایاں کردار ہے جو کسی طبقے سے مخفی نہیں۔

مسلمانان ہند کے پہلے دشمن مرہٹوں کے خلاف اگر جدوجہد کی بات کی جائے،انکے خلاف لڑی جانے والی جنگ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان سے آ کر لڑی۔ جب اس جنگ کا جائزہ لیا جائے گا تو اس میں جہاں اور نام آئیں گے وہاں اس میں ایک بڑا نام دلی کے سب سے بڑے عالم دین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا میں آئے گا جنہوں نے سب سے پہلے مرہٹوں کی طاقت کو کچلنے کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر دعوت دی تھی اور احمد شاہ ابدالی نے 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں ان کو شکست دے کر ہمیشہ کے لیے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی (شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ وہ شخص ہیں جن کے نام کے بغیر پاکستان کے تمام مذہبی طبقوں کی سند حدیث مکمل نہیں ہوتی)گویا مسلمانوں کے پہلے دشمن کو شکست دینے کے اندر شاہ صاحب کا کردار نمایاں ہے۔

انگریزوں پر جو سب سے پہلی کاری ضرب لگی وہ نواب سراج الدولہ نے لگائی انہوں نے پہلی بضابطہ جنگ 1757ء میں لڑی۔ جو جنگ پلاسی کے نام سے مشہور ہے نواب صاحب نے یہ جنگ بڑی حکمت عملی اور جرات کے ساتھ لڑی لیکن ایک غدار وطن میر جعفر کی غداری کی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اور نواب سراج الدولہ شہید ہوگئے اور بنگال، اڑیسہ اور بہار میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوگی۔

مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف جہاں نواب سراج الدولہ کا کردار ہے وہیں شاہ ولی اللہ اور ان کے جانشینوں کا نمایاں کردار ہے۔ کیونکہ تاریخی شہادتوں سے یہ بات واضح ہے کے نواب سراج الدولہ کو انگریزوں کے خلاف جنگ کی ترغیب دینے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہی تھے۔ شاہ صاحب کی  1762ء میں وفات کے بعد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کو جانشین مقرر کیا جاتا ہے شاہ عبدالعزیز ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی جاری کیا اور وہی فتوی بعد میں تمام جدوجہد آزادی پاکستان کا سبب بنا۔

ہم جب برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انگریز کے خلاف لڑنے والی دوسری بڑی قوت محصور کے فرمانروا سلطان فتح علی خان سلطان ٹیپو ہیں ان کی ساری زندگی انگریز کے خلاف حالت جنگ میں گزری ان کی تحریک میں بھی نظر دوڑانے پر بنیاد میں وہی فتوی شاہ عبدالعزیزرحمۃ اللہ کا نظر آتا ہے۔ ان کو بھی شکست اپنوں کی غداری کی وجہ سے 1799ء میں ہوئی۔ ان کی شکست کا ظاہری سبب میر صادق غدار بنا اور اس طرح مسلمان ایک نیک بہادر اور جرات مند جرنیل سے محروم ہو گئے۔

تیسری بڑی قوت مسلمانوں کے خلاف یہاں پر سکھوں کی تھی تاریخی اوراق میں ان کے خلاف بھی برصغیر کے علما کا نمایاں کردار واضح ہوتا ہے اس سلسلے میں میں برصغیر پاک و ہند میں میں ایک بڑا نام سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا ہے یہ بھی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان سے علوم نبوت حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں جن کے ہاتھ پر تقریبا 30 لاکھ انسانوں نے بیعت کی تھی انہوں نے اگرچہ اپنی تحریک کا آغاز رائے بریلی سے کیا تھا مگر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے۔ درہ بولان، بلوچستان، کوئٹہ پھر افغانستان گئے اور وہاں پر موجود مختلف قبائل کو یکجا کیا اور اپنا ہم خیال بنایا اور سب سے پہلے سکھوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی اور صوبہ سرحد میں مرکزی شہر پشاور میں اسلامی حکومت قائم کی اور اس کے گردونواح میں شراب اور جوا پر پابندی عائد کی اور کسانوں کو سکھوں کے مظالم سے نجات دلائی۔

لیکن سید احمد شہید اور ان کے انتہائی مخلص ساتھی شاہ اسماعیل بالاکوٹ میں ایک معرکہ میں شہید ہو گئے اگرچہ مسلمانوں کوبظاہر شکست ہوئی لیکن سکھوں کی کمر اس معرکے کی وجہ سے ٹوٹ گی۔ شاہ صاحب کی اس تحریک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک تھی جو کہ پنجاب کے اس وقت کے سکھوں کے راجہ رنجیت سنگھ کے خلاف چلائی گئی لیکن منافقین اور غداروں کی منافقت اور غداری کی وجہ سے یہ تحریک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اور 6 مئی 1831ء کو بالا کوٹ کے مقام پر شاہ احمد شہید اور سید شاہ اسماعیل شہید اپنے ہزاروں روفقاؤں کے ساتھ جام شہادت نوش فرما گئے۔

لیکن اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاہ عبدالعزیز کا مذکورہ فتوی اور شاہ احمد شہید کی یہ عسکری تحریک ہی تحریک آزادی ہند کی بنیاد بنے علمائے صادق پور، علماء پٹنہ اور علماء لدھیانہ پر بغاوت کے سنگین مقدمات قائم کر کے انہیں پھانسی اور عبور دریائے شور یعنی کالا پانی کی سزا ئیں دی گئیں، ان کی مساجد نیلام اور ان کی جاگیریں ضبط کی گئیں یہ تمام علماءو مجاہدین سید احمد شہید کی تحریک جہاد سے ہی وابستہ تھے۔

بنگال کی تحریک ہو یا 1857ء کی جنگ آزادی ہو یہ بھی انہی علمائے اسلام کی متفقہ فتوی جہاد کی بنیاد پر لڑے گی یہ وہی تحریک ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ تحریک بالاکوٹ سے وابستہ تھیں۔ شاملی میں تحریک جہاد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حجۃ الاسلام قاسم نانوتوی، قطب الارشاد رشید احمد جھنگوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں تھی اور دلی میں متحدہ فوج کی کمان ان کے کمانڈر انچیف جناب جنرل بخت خان تھے یہ بھی تحریک بالاکوٹ سے ہی وابستہ تھے حضرت مولانا سرفراز علی جو سید احمد شہید کے خلیفہ مجاز تھےاس تحریک اہم رکن تھے۔

اس جنگ میں بھی مسلمانوں کو بظاہر شکست ہوگی۔بہادر شاہ ظفر اور ان کے ہمنوا قید ہو گئے۔ انگریز نے علماءسے اس کا بدلہ لینے کے لیے پندرہ ہزار سے زائد علماء کو پھانسی پر لٹکا دیا،ہزاروں علماء خنزیر کے چمڑے میں بند کرکے زندہ جلادیا گئے، توپوں کے دہانے پر باندھ کران کے جسم کے پرخچے اڑا دیئے گئے، کچے چونے میں دبا کر ان کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کر دیا گیا اور ان کو کمر تک زمین میں گاڑ کر بھوکے کتوں سے نوچوایا گیا۔

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اس وسیع پیمانے پر علماء کے لئے یہ اذیت ناک سزائیں کیا ظاہر کر رہی ہے؟ اگر علماء انگریز کے خلاف نہ ہوتے، علماء نے انگریز کے خلاف لڑائی نہ لڑی ہوتی تو علماء کو یہ اذیتیں اور سزائیں کیوں دی گئی؟ اس تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے انگریز یہ سمجھتا تھا کہ جب تک برصغیر میں علماء موجود ہیں آزادی کی تحریکیں اٹھتی رہیں گی چلتی رہیں گی اس لیے 1857ء میں انگریز نے نے ساری آزادی کا بدلہ جہاں یہاں کے حکمران خاندان سے لیا وہاں یہاں کے علماء سے بھی لیا بلکہ ان سے بڑھ کر یہاں اذیت مسلمانوں کو دی گی دلی سے کلکتہ تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر کسی داڑھی والے کی لاش نہ ہو تو بتائیے کہ اگر علماء انگریز کے خلاف نہیں تھے اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت نہیں کی تھی انگریز نے علماء سے کس چیز کا بدلہ لیا؟

آزادی کی تحریکوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو تحریک ریشمی رومال، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت جیسے فیصلہ کن تحریکوں کی قیادت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، امام الانقلاب مولانا عبید اللہ سندھی، فقہی ہند مولانا کفایت اللہ دہلوی جیسے علماء کرتے رہے  یہی وہ تحریکیں تھیں جن کے بعد اقتدار دلی پر فرنگی سامراج کی گرفت کمزور پڑ گئی اس گرفت کو مستحکم کرنے اور اپنے ڈگمگاتے اقتدار کو بچانے کے لیے فرنگی سرکار نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو جبرا عیسائی اور ہندو بنانے کے لیے شٌدّی تحریک اور مسیحی مشینری میدان میں اتاری جن کے جواب میں حضرت الیاس دہلوی نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی جو اس وقت اپنی جدوجہد کے حوالہ سے عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ دوسری طرف مرزا غلام احمد قادیانی دجال اور کذاب  کو مدعی نبوت بنا کر کھڑا کردیا۔تاکہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سرد و کمزور کیا جاسکے۔ اس کے جواب میں سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی قیادت میں مجلس احرار اسلام سرگرم عمل ہوئی حتی کہ فرنگی اقتدار کی خود ساختہ قادیانی نبوت کے انہوں نے بَخیَہ اُدھیڑْ دیئے۔

فرنگی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا منظم پلیٹ فارم علمائے کرام نے قائم کیا جو کہ جمیعت علمائے ہند کی صورت میں سامنے آیا جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستان کی کامل آزادی کا نعرہ بلند کیا اور علمائے کرام کی اسی بے لوث جدوجہد کے نتیجہ میں برطانوی اقتدار کا خاتمہ ہوا۔اور فرنگی سامراج برصغیر سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہوا لیکن حیرت ہے آج جدوجہد آزادی میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرنے والے علماء سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کومساجد تک محدود رکھیں۔اور ملک کے سیاسی نظام میں انہیں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ اور مقام افسوس ہے یہ مشورہ دینے والے وہ لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد نے تحریک آزادی ہند میں مخبریاں اور معاونت کرکے فرنگی سامراج سے حق الخدمت کے طور پر جائیدادیں اور جاگیریں وصول کیں۔

اب آئیے تحریک قیام پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں اس تحریک میں بھی علماء کا جو روشن کردار ہے اس کے بغیر پاکستان کا قیام ناممکن تھا۔1937ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان جھانسی کے مقام پر اختلاف ہوا اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے پاکستان کے نام سے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا گیا اس وقت تمام طبقات انگریز کے خلاف لڑ رہے ہیں اس اختلاف تک تو بعض لوگ علماء کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعد میں علماء کا کردار اور بالخصوص علماء دیوبند کا کردار کو تسلیم نہیں کرتے اور انکا کہنا یہ ہے کہ یہ تو سب کے سب مخالف ہوگئے جبکہ تحریک پاکستان میں بھی برصغیر کے اتنے نامور علماء دیوبند ہیں۔ کہ جو برصغیر میں نہ صرف نمایاں نام رکھتے ہیں بلکہ اپنے وقت کے سب سے بڑے علماء میں انکا شمار ہوتا ہے۔

ان کے بارے میں ہم نہیں بلکہ بانی پاکستان پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ وہ علماء کرام ہیں اگر ہندوستان کے تمام علماء کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور ان کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا ان میں حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ،علامہ ظفر احمد عثمانی ،مفتی اعظم پاکستان  مفتی محمد شفیع صاحب ، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب ، حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری، حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری، مولانا محمد اسحاق منسہریوی جیسے بڑے اکابرین تھے۔

ان حضرات کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے ہوئے بانی پاکستان اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں پہلی پاکستانی پرچم کشائی علامہ شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی سے کروائی۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے ہے کہ جس طرح تحریک آزادی ہند میں علماء کا کردار نمایاں ہے اسی طرح تحریک قیام پاکستان میں بھی علماء کا کردار نمایاں ہے۔ بالخصوص علامہ شبیر احمد عثمانی نے اپنے شیخ حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر 500 جدید علماء کی جماعت جمعیت علمائے اسلام بناکر قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا اسی بنیاد پر پاکستان کا پہلا پرچم بھی انہوں نے لہرایا اور بانی پاکستان کی وصیت پر قائد اعظم کا جنازہ بھی پڑھایا اور آگے چل کر قرارداد مقاصد بھی انہی حضرات نے تیار کی۔

آخر میں اتنی بات کہوں گا کہ یہ لوگ عمارت کی یہ وہ اینٹیں ہیں جو بنیادوں میں رکھ کر دونوں طرف سے مٹی لگا دفن کردی گئیں ہیں جو بظاہر دیکھنے میں تو نظر آتی نہیں آ رہی لیکن آزادی ہند میں اور قیام پاکستان میں ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔آمین یا رب العالمین

محمد بلال

صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھتے ہیں۔معروف اخبارات اور ویب سائٹس کے لئے کالمز و مضامین لکھتے ہیں۔ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔

محمد بلال