تازہ ترین

سرسید احمد خان قومی شعور اور باہمی اتفاق کے امین

sir syed ahmad khan qaumi shaur aur ittefaq ke ameen
  • واضح رہے
  • جون 17, 2022
  • 3:36 شام

سرسید کی سوچ تھی کہ اسلام نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک روحانی رشتہ میں منسلک کرکے ایک فرد واحد کی مانند ایک لڑی میں پرو دیا ہے

سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میر تقی تھا، جن کا بہادر شاہ ظفر کے دربار سے خاص تعلق تھا۔ سر سید کی والدہ عزیز النساء بیگم کا تعلق خواجہ میر درد کے خاندان سے تھا اور وہ خود ہی پائے کی خاتون تھیں۔

سرسید کے بچپن اور جوانی میں دہلی اہل فلم و فضل کا مرکز تھی۔ سرسید نے عربی، فارسی اور دوسرے علوم کی اچھی تعلیم و تربیت پائی تھی۔ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے نانا شاہ غلام علی اور مولوی حمید الدین کا کردار ناقابل فراموش ہے۔

سر سید نے جس ماحول اور زمانے میں پرورش پائی، اس وقت دہلی میں اہل علم اور اہل کمال لوگوں کی دھوم تھی اور سرسید ان کی صحبت میں رہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے زمانے کے نامور عالموں اور ادیبوں کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ غالب، معمن، ذوق، آرزو اور شیفتہ جیسے باکمال لوگوں سے سرسید کے عقیدت مندانہ تعلقات تھے۔

ان کے علاوہ سرسید احمد خان، شاہ ولی اللہ کے گھرانے سے بے حد متاثر تھے۔ اور شاہ اسماعیل شہید کے وعظوں میں شرکت کی سعادت حاصل تھی۔ یہ تمام بزرگ کیونکہ صاحب تصنیف تھے اس لئے سرسید بھی ان سے متاثر ہو کر تصنیف و تالیف سے وابستہ تھے۔ ان تمام اکتسابات نے آگے چل کر سرسید احمد خان کو ایک عظیم مصلح قوم بنا دیا۔

سر سید اردو ادب کی اہم اور پہلو دار شخصیت تھے۔ ان کا شمار اردو ادب کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔ سرسید نے سادہ اور علمی تحریر کو رواج دے کر اردو زبان و ادب پر احسان کیا۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’قومی تعلیم، قومی ہمدردی اور باہمی اتفاق‘‘ میں نہ صرف قوم کی بہترین رہنمائی کی بلکہ اسلام کے حوالے سے قوم کو ایک نئی راہ دکھائی۔

سرسید احمد خان ایک ادیب، مفکر اور مصلح قوم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے عظیم رول ماڈل تھے۔ وہ مسلمانوں سے بہت ہمدردی رکھتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک بلند مقام دلانے کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ انہوں نے قومی شعور اور باہمی اتفاق کے بہترین مضامین سے قوم کی اصلاح اور بیداری کا بیڑا اٹھایا۔

متذکرہ بالا مضمون میں سرسید احمد خان لکھتے ہیں: ’’اسلام کسی سے نہیں پوچھتا کہ اس کی نسل کیا ہے۔ اس کا تعلق کس خاندان سے ہے، وہ کس ملک کا رہنے والا ہے۔ وہ کالا ہے یا گورا ہے بلکہ جس کسی نے عروۃ الوثقیٰ کملۂ توحید کو مستحکم کیا وہ ایک قوم ہوگیا۔ تمام انسان ایک روحانی باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔

سرسید احمد خان اس بات افسوس کرتے ہیں کہ ہم سب آپس میں بھائی تو ہیں مگر مثل برداران یوسف کے ہیں۔ ہماری قوم میں آپس میں دوسری اور محبت، یک دلی اور یک جہتی بہت کم ہے۔ ہر جگہ حسد، بغض اور عداوت کا اثر نظر آتا ہے، جس کا نتیجہ آپس کی نااتفاقی ہے۔

شیطان کا مقصد ہی آپس میں نفاق ڈالنا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف دشمنی اور نفرت پیدا کرنا ہے۔ ہم بھی شیطان کے اسی دھوکے کی وجہ سے نقصان میں ہیں۔ شیطان کی اسی کوشش کی وجہ سے آج ہماری قوم مختلف فرقوں میں بٹ گئی ہے، جس کی وجہ سے باہم مسلمانوں میں شیعہ و سنی، وہابی و بدعتی، لامذہت اور مقلد ہونے کی بناء پر آپس میں نفاق و عداوت نظر آتی ہے۔

نااتفاقیوں نے ہماری قوم کو نہایت کمزور اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ پس ہماری قومی ترقی کا اولین مرحلہ یہی ہے کہ ہم سب آپس کی محنت سے اس عداوت و نفاق کو یکتائی اور یکجہتی سے بدل دیں۔ ہمیں اپنے ذاتی مفاد اور خود غرضی کی بناء پر آپس میں تعلق اور محبت قائم نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ خوبی آپس میں بردرانہ برتاؤ، قومی اتفاق، قومی ہمدردی سے قائم ہو سکتی ہے، جو قومی ترقی کی پہلی منزل ہے۔

موجودہ دور میں ہمارے زوال اور بربادی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے قومی اتحاد اور اتفاق کو نظر انداز کرکے اپنے مفادات کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ ہم قومی اتفاق اور اتحاد کو بالکل بھول چکے ہیں۔ اور جو تھوڑی بہت رمق نظر آتی ہے اسے بھی بھولتے جا رہے ہیں۔

جب کسی قوم کی بے حسی اس حد تک پہنچ جائے تو پھر نہ اس کا اتحاد قائم رہتا ہے اور نہ کئے جانے والے کاموں میں برکت رہتی ہے۔ ہمارے اندر اس بات کا جوش و ولولہ ہونا چاہیئے کہ ہم انفرادی سطح سے ہٹ کر اجتماعی مافد کی کوشش کریں تاکہ قومی ہمدردی، محبت اور استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔

سرسید احمد خان کی سوچ تھی کہ اسلام نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک روحانی رشتہ میں منسلک کرکے ایک فرد واحد کی مانند ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ اور رنگ، نسل اور قومیتوں کے تمام رشتے ختم کر دیئے ہیں۔ افسوس کہ مسلاموں میں دوستی، محبت اور یک جہتی کی خوبیاں دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں۔

سرسید احمد خان کو دار فانی سے رخصت ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، مگر ان کی مسلمانوں کی خیر خواہی کی تصانیف آج بھی بھرپور اثر رکھتی ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ان کی نصیحتوں پر عمل آج کے مسلمانوں کیلئے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ سرسید احمد خان 27 مارچ 1898ء میں 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے