تازہ ترین

شعبان المعظم کی فضیلت

shaban ul muazzam ki fazeelat
  • واضح رہے
  • مارچ 29, 2021
  • 7:11 شام

ماه شعبان کو شعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شعبان شعِب یشعَب سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے نکلنا، ظاہر ہونا، پھوٹنا

چونکہ اس مہینہ میں خیر کثیر پھوٹتی پھیلی ہے اور بندوں کا رزق تقسیم ہوتا ہے اور تقدیری کام الگ ہو جاتے ہیں، اس وجہ سے اس مہینہ کا نام شعبان رکھ دیا۔

(غیاث اللغات)

شعبان اسلامی سال کا آٹھواں قمری مہینہ ہے، جس کا نام ہی خیر و برکت کی تقسیم، انعامات ربانی اور عطایا الہیٰ کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔

شعبان تشعب سے ہے، جس کے معنی تقریب یعنی پھسلانا اور شاخ در شاخ ہوتا ہے۔ ان معنوں کی تائید میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرمایا اس ماہ کا نام شعبان اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں روزہ رکھنے والے کو شاخ در شاخ بڑھنے والی خیر و برکت میسر ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔

عمدة القاری میں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ لوگ چونکہ ادھر ادھر متفرق ہونے کے بعد اس مہینہ میں جمع ہوتے ہیں اسی بناء پر اسے شعبان کہا جاتا ہے۔ بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ شعبان شعب سے مشتق ہے وہ راستہ جو پہاڑ کو جاتا ہو اسے شعب کہتے ہیں، ظاہر بات ہے کہ ایسا راستہ ہمیں بلندی پر لے جاتا ہے جہاں پہنچ کر ہم مسرت محسوس کرتے ہیں، تو شعبان وہ پاکیزہ مہینہ ہے جو انسانوں کو روحانیت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔

(صفائے محراب، ص ۳۲۴)

شعبان میں پانچ حرف ہیں: ش، ع ، ب، ا، ن۔ ان میں سے ہر حرف ایک ایک بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے، ش کا اشارہ شرف کی طرف ہے ، ع بلندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، ب سے مراد برّ یعنی نیکی ہے، الف سے مراد الفت اور ن کا حرف نور کی جانب اشارہ کرتا ہے، یہ پانچوں انعامات اس ماہ شعبان میں اللہ کی جانب سے بندوں کو عطا کئے گئے ہیں۔

(نزہستہ المجالس ۱/ ۳۱۸، غنیۃ الطالبین ۳۵۶)

حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے، شعبان میرا مہینہ ہے۔

(الفردوس بماثور الخطاب للدیلمی ۴۷۵/۲)

ماہ شعبان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور اس کو اپنی جانب منسوب کیا ہے، اس کے بعد شعبان کے دیگر فضائل ذکر کرنے کی حاجت نہیں رہتی، کیونکہ جو مہینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا وہ عظمت و بزرگی میں بھی غیر معمولی مقام رکھتا ہوگا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ روزوں میں بہتر روزے کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شعبان کے روزے، رمضان کے روزوں کی تنظیم کیلئے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ ۲ / ۵۱۴)

آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات بہت زیادہ پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملا دیں۔

(کنز العمال ۸/ ۶۵۴)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول آپ شعبان کے مہینے میں جتنے روزے رکھتے ہیں میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہوجاتے ہیں، اور اسی مہینے میں بارگاه رب العالمین میں اعمال لے جائے جاتے ہیں، تو میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال لے جائے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔

(نسائی ۱ / ۳۲۲، کنز العمال ۸/ ۶۵۴)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے جس طرح مجھے تمام نبیوں پر بزرگی دی گئی ہے۔

(غنیۃ الطالبین ص ۳۲۶)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ اصحاب شعبان کا چاند دیکھ کر قرآن کریم (زیادہ) پڑھا کرتے تھے، مسلمان اپنے مال سے زکوة بھی نکالا کرتے تھے تاکہ غریب اور سکین لوگ فائدہ اٹھا سکیں اور ماہ رمضان کے روزے رکھنے کیلئے ان کا کوئی وسیلہ بن جائے، حاکم لوگ قیدیوں کو بلا کر ان میں سے جو حد جاری کرنے کے لائق ہوتے تھے ان پر حد جاری کرتے تھے، باقی قیدی رہا کر دیئے جاتے تھے، کاروباری لوگ بھی اسی ماہ میں اپنا قرض ادا کیا کرتے تھے اور دوسروں سے جو کچھ وصول کرنا ہوتا تھا وصول کر لیا کرتے تھے۔

(غنیۃ الطالبین ص ۳۵۶)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے