تازہ ترین

سانحہ کربلا کے ظالموں کا انجام

سانحہ کربلا
  • واضح رہے
  • اپریل 22, 2021
  • 2:41 شام

اسلامی تاریخ کی اس انتہائی تلخ اور روح فرسا داستان کو جب بھی پڑھا یا سُنا جائے تو دل چھلنی چھلنی ہو جاتا ہے

مفتی محمد شفیعؒ اپنی مشہور کتاب ’’شہیدِ کربلا‘‘ میں لکھتے ہیں: جس وقت حضرت حسینؓ پیاس سے مجبور ہوکر دریائے فرات پر پہنچے اور پانی پینا چاہتے تھے کہ کم بخت حصین بن نمیر نے تیر مارا جو آپؓ کے دہن مبارک پر لگا، اس وقت آپؓ کی زبان سے بے ساختہ بدعا نکلی:

’’یا اللہ! رسول اللہ کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، میں اس کا شکوہ آپ ہی سے کرتا ہوں، یا اللہ! ان کو چُن چُن کر قتل کر، ان کے ٹکڑے ٹکڑے فرما دے، ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔‘‘

امام زہری فرماتے ہیں: جو لوگ قتلِ حسینؓ میں شریک تھے ان میں سے ایک بھی نہیں بچا جس کو آخرت سے پہلے دنیا میں سزا نہ ملی ہو، کوئی قتل کیا گیا، کسی کا چہرہ سخت سیاہ ہوگیا یا مسخ ہوگیا۔

سبط ابن جوزیؒ نے روایت کیا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی حضرت حسینؓ کے قتل میں شریک تھا، وہ دفعتاً نابینا ہوگیا تو لوگوں نے سبب پوچھا: اس نے کہا: میں نے رسول اللہؐ کو خواب میں دیکھا کہ آستین چڑھائے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تلوار ہے اور آپؐ کے سامنے چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے اور اس پر قاتلانِ حسینؓ میں سے 10 آدمیوں کی لاشیں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں۔

اس کے بعد آپؐ نے مجھے ڈانٹا اور خونِ حسینؓ کی ایک سلائی میری آنکھوں میں لگا دی، صبح اٹھا تو اندھا تھا۔ (اسعاف)

ابن جوزیؒ نے نقل کیا ہے: جس شخص نے حضرت حسینؓ کے سر مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا، اس کے بعد اسے دیکھا گیا کہ اس کا منہ کالا تارکول کی طرح ہوگیا، لوگوں نے پوچھا: تم سارے عرب میں خوش رُو آدمی تھے، تمہیں کیا ہوا؟

اس نے کہا کہ: جس روز سے میں نے یہ سر گھوڑے کی گردن میں لٹکایا، میں زرا سوتا ہوں تو دو آدمی میرے بازو پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ پر لے جاتے ہیں اور اسی حالت میں چند روز کے بعد مر گیا۔

ابن جوزی نے سدیؒ سے نقل کیا ہے: انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی، مجلس میں یہ ذکر چلا کہ حسینؓ کے قتل میں جو بھی شریک ہوا اس کو دنیا میں بھی جلد سزا مل گئی، اس شخص نے کہا: بالکل غلط ہے۔ میں خود ان کے قتل میں شریک تھا، میرا کچھ بھی نہیں بگڑا۔

یہ شخص مجلس سے اٹھ کر گیا، جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرتے ہوئے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں جل بُھن کر رہ گیا۔ سدی کہتے ہیں: میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہو چکا تھا۔

جس شخص نے حضرت حسینؓ کو تیر مارا اور پانی نہیں پینے دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسی پیاس مسلط کر دی کہ کسی طرح پیاس بھجتی نہ تھی، پانی کتنا ہی پیا جائے پیاس سے تڑپتا رہتا تھا، یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔

۶۶ھ میں مختار کے تسلط کے بعد ایک ہی روز میں دو سو اڑتالیس آدمی اس جرم میں قتل کئے گئے۔

شمر ذی الجوش، جو حضرت حسینؓ کے بارے میں سب سے زیادہ شقی اور سخت تھا، اس کو قتل کرکے لاش کتوں کے سامنے ڈال دی گئی ۔۔۔۔۔ عمرو بن حجاج زبیدی پیاس اور گرمی میں بھاگا، بے ہوش ہوکر گر پڑا، وہیں ذبح کر دیا گیا۔

عمر بن سعد جو حضرت حسینؓ کے مقابلے پر لشکر کی کمان کر رہا تھا اس کو بھی قتل کرکے سر الگ کر دیا گیا ۔۔۔۔۔ حکیم بن طفیل نے حضرت حسینؓ کے تیر مارا تھا، اس کا بدن تیروں سے چھلنی کر دیا گیا، اسی میں ہلاک ہوا۔

عثمان بن خالد اور بشیر بن شمیط نے مسلم بن عقیل کے قتل میں اعانت کی، ان کو قتل کرکے جلا دیا گیا۔

یزید کو بھی ایک دن چین نصیب نہ ہوا، تمام اسلامی ممالک میں خونِ شہدا کا مطالبہ اور بغاوتیں شروع ہوگئیں، اس کی زندگی اس کے بعد دو سال آٹھ ماہ اور ایک روایت میں تین سال آٹھ ماہ سے زائد نہیں رہی۔ (ماخوذ از شہید کربلا بحوالہ شہادت حسین: ۲۳۶)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے