تازہ ترین

 سفاری ٹرین کی بحالی کا تاریخی اقدام

  • محمد قیصر چوہان
  • اگست 23, 2020
  • 4:31 شام

وزیر ریلوے شیخ رشیدنے گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ریلوے سیاحت کو فروغ دینے کیلئے مختلف روٹس پر سفاری ٹرینز چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ان ٹرینوں کو پشاور تا اٹک خورد، راولپنڈی تا ٹیکسلا، کراچی تا کینجھر جھیل اور لاہور تا چھانگا مانگا تک چلایا جائے گا۔خیبر پختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان ریلوے اور خیبر پختونخوا حکومت کے مشترکہ اقدام سے ایک نئے منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے۔جس کے تحت سفاری ٹرین پشاور تا اٹک اور پشاور تا تخت بھائی ریلوے سٹیشن، دو راستوں پر جائے گی۔ جب کہ سفاری بس سروس سیاحوں کو پشاور کے اندر مختلف تاریخی مقامات کی سیر کروائے گی۔اس کے تحت تاریخی طور پر چلنے والی سفاری ٹرین اور ایک نئی بس سروس کا اگلے ماہ یعنی ستمبرسے آغاز کیا جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے سیکرٹری برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ عابد مجید کا اس منصوبے کے حوالے سے کہنا تھاکہ سفاری ٹرین سفر کے دوران سیاح مختلف سٹیشنوں اور تاریخی مقامات پر وقفے میں دیگر تفریحی سرگرمیوں جیسے اُونٹ کی سواری،

کھیلوں اور روایتی کھانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔اس کے علاوہ اس تفریحی سفر سے سیاحوں کو اس صوبے کی تاریخ اور تاریخی مقامات کے حوالے سے جاننے کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے کو معاشی فائدہ بھی ہوگا۔اس منصوبے کا آئیڈیا دو سال قبل سابق وزیر سیاحت و کھیل عاطف خان نے دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان ریلوے اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین اس ٹریک کو دوبارہ بحال کرنے کا معاہدہ طے ہوا تھا۔

پشاور ریلوے سٹیشن کے ترجمان اور کمرشل آفیسر طاہر مسعود مروت کے مطابق پشاور سے اٹک خرد تک سفاری ٹرین پہلے بھی بحال تھی جو آخری بار کرونا وائرس کی وبا سے کچھ ہی ہفتے پہلے چلی تھی۔ہاں البتہ پشاور سے تخت بھائی ریلوے سٹیشن تک سفاری ٹرین چلانے کا تجربہ ایک طویل ترین عرصے بعد کیا جائے گا۔ سفاری ٹرین ایک انٹیک ٹرین ہے۔ جس کا پٹڑی پر چلنا اور اس کا نظارہ کرنا خود اپنے آپ میں ایک حسن رکھتا ہے۔ ایک سفاری ٹرین میں 200 سے زائد مسافر سوار ہو سکتے ہیں۔ یہ ٹرین تب ہی چلتی ہے جب سیاحوں کے گروپس ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔سفاری ٹرین کے کرائے کے حوالے سے طاہر مسعود کا کہنا تھاکہ فی الحال اس کے حوالے سے انہیں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔تاہم سفاری ٹرین کو زیادہ تر سیاحوں کے بڑے بڑے گروپ پورے دن کے لیے کرائے پر لیتے ہیں اور اس دوران مختلف مقامات اور سٹیشنوں پر وقفے وقفے کے لیے رکا جاتا ہے۔

سفاری ٹرین کے روٹ کا تاریخی پس منظرکچھ اس طرح ہے کہ انگریز دور کی تعمیر کردہ پشاور سے تخت بھائی تک جانے والی ریلوے برانچ کا راستہ نوشہرہ سٹیشن سے ہو کر جاتا ہے۔ جس کا آخری سٹیشن درگئی میں بنا ہوا تھا۔گیارہ ریلوے سٹیشنوں پر مشتمل نوشہرہ درگئی ریلوے برانچ 1886 میں ہندوستان پر قابض انگریز حکومت نے بچھائی تھی۔تاریخی حوالوں کے مطابق، اس ریلوے لائن کا مقصد انگریزوں کی فارورڈ پالیسی کو آسان بنانا تھا۔ کیونکہ انگریز چترال پر قبضہ کرنے کے خواہاں تھے لہذا نوشہرہ سے درگئی تک ریلوے لائن کی ایک شاخ بچھا دی گئی جس کے ذریعے سامان خورد ونوش اور گولہ بارود پہنچانے کے علاوہ سپاہی باآسانی جنگی محاذ تک پہنچ سکتے تھے۔بعد کے وقتوں میں یہی ریلوے لائن کئی ایک دیہاتی علاقوں کی آمد ورفت کا ذریعہ بھی بنی رہی جس کے ذریعے لوگ اپنا سامان اور مال مویشی کم قیمت پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا کرتے تھے

یہ شاخ 1992 تک مکمل طور پر بحال رہی جس کے بعد 2002 میں مبینہ کرپشن کے الزامات، ریلوے کے حوالے سے غفلت وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔اس ریلوے لائن اور سٹیشنوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی مختلف خبروں کے مطابق تالہ لگے ان سٹیشنوں کا دستاویزی ریکارڈ بوسیدہ عمارتوں کی نذر ہوا، پٹڑیوں پر عوام نے قبضے جما لیے جب کہ ریلوے سٹیشن موسموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہوئے۔سفاری ٹرین پشاور سے تخت بھائی تک دوبارہ بحال ہونے کو پشتون لوگوں نے ایک نہایت خوش آئند اقدام قرار دے رہا ہے کیونکہ سفاری ٹرین کے بعد یہ ریلوے لائن مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔ تخت بھائی کا سٹیشن دوبارہ آباد ہو گیا تو اس سے آس پاس کی بہت سی دیہاتوں کا رابطہ جڑ کر انہیں سفری سہولت کے علاوہ معاشی فائدہ بھی ملے گا۔

خیبر پختونخوا کے پشاور ریلوے اسٹیشن سے ملک کے مختلف علاقوں کے مسافر ریل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں جب کہ 1947 سے 1982 تک ہر اتوار کو ایک ریل گاڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔پشاور سے لنڈی کوتل تک یہ ریلوے ٹریک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اندر سے گزرتا تھا جس کے لیے  ریلوے کو  دو  تین  روز  قبل ایئر پورٹ حکام  سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ بعد میں یہ ٹریک بند کر دیا گیا۔ سفاری ریل گاڑی کا ٹریک پچاس کلو میٹر طویل بتایا جاتا ہے۔ اس سفاری ریل گاڑی کا سلسلہ جو پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کی سہولت دیتی تھی، 2007 میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ ان راستوں میں کئی پْل اور چھوٹے چھوٹے پلیٹ فارم یا مختلف نشانیاں برطانوی راج کی یادگار کہے جاسکتے ہیں۔پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کے دوران آپ کو اُس دور کے تعمیر کردہ 92 چھوٹے بڑے پُل دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اب بھی درست حالت میں ہیں۔ یہ تمام مقامات پہاڑی اور پتھریلے ہیں اور اکثر

یہ راستے نئے مسافروں کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ کئی مقامات پر ریل گاڑی پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی تو عجیب نظارہ ہوتا۔ سفاری ٹرین کے مسافر اور اس زمانے میں سیاحت کی غرض سے آنے والوں کے لیے وہ مناظر خاص کشش کا باعث بنتے۔کہتے ہیں اس ٹرین کے ذریعے ان علاقوں تک جانے میں غیر ملکی سیاح خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ اسی سفاری ٹرین میں ہائی کمیشن آف یورپ کا 15 رکنی وفد بھی سیر کر چکا ہے۔یہاں کئی مقامات پر پہاڑی سرنگیں بنائی گئیں جن کی تعداد 34 ہے۔سفاری ٹرین کے لیے پاکستان ریلوے کی مغلپورہ ورکشاپ میں 103 سال پرانے سٹیم انجنز کی بحالی کا کام کیا گیا ہے،  سٹیم انجن کی مرمت میں انجینئرز کو کافی مشکلات پیش آئیں اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو لاہور کی مغلپورہ لوکوموٹو ورکشاپ میں ایک صدی سے زائد عرصے سے سٹیم انجنوں کی دیکھ بھال جاری رکھے ہوئے ہے۔یہ ورکشاپ سنہ 1912 میں تعمیر کی گئی اور پاکستان ریلوے کی اس ورکشاپ میں ٹرین انجن کی مرمت کے علاوہ نئے سرے سے انجن کی تعمیر کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

ترجمان ریلوے اعجاز شاہ کے مطابق پشاور تا لنڈی کوتل ٹریک پر چلنے والی ٹرین کو 2008 میں آنے والے سیلاب کے باعث لنڈی کوتل پل ٹوٹنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ترجمان ریلوے کے مطابق پشاور تا لنڈی کوتل کے درمیان چلنے والے ٹرین میں دوران سفر سیاحوں کو کسی قسم کی کھانے پینے کی اشیا مہیا نہیں کی جاتی تھیں۔ جبکہ جمرود کے مقام پر سیاحوں کیلئے کھانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔جمرود سے آگے سیاحوں کو ٹرین پر افغان بارڈر تک لے جایا جاتا تھا جہاں بارڈر کی سیر بھی کروائی جاتی تھی،پاکستان ریلوے ایسی ہی سہولیات نئی ٹرینوں میں متعارف کروانیکا ارداہ رکھتی ہے۔ جبکہ سفاری ٹرین کی ٹکٹ کی قیمت کا فی الحال تعین نہیں کیا گیا، سفاری ٹرین کا ٹکٹ عام ٹرین سے مہنگا ہوگا کیونکہ یہ خصوصی طور پر سیاحت کے لیے استعمال کی جانی ہے۔

 

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان