تازہ ترین

ریپڈ رسپانس یا ری ایکشن فورس کے خصوصی اختیارات

Rapid response ya reaction force ke khusoosi ikhtiyarat
  • واضح رہے
  • فروری 20, 2021
  • 1:55 صبح

کئی ممالک میں دہشت گردوں اور خطرناک مجرموں سے نمٹنے سمیت آر آر ایف قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی استعمال کی جاتی ہے

ریپڈ رسپانس یا ری ایکشن فورس (آر آر ایف) ایک ایسا جنگی یونٹ ہے، جو ہنگامی حالات میں فوری کارروائی انجام دیتا ہے۔ یہ یونٹ SWAT یعنی مخصوص ہتھیاروں سے لیس نہایت تربیت یافتہ ٹیم پر مشتمل ہوتا ہے اور ریسکیو کارروائیوں کے علاوہ مختلف اقسام کے جرائم پر قابو پانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت بھی کرتا ہے۔

اس وقت مختلف جرائم کے قلع قمع، مغویوں کی بازیابی، دہشت گردی کا مقابلے اور ناگہانی آفات میں امدادی کارروائیوں کیلئے امریکہ، کینیڈا، یورپ، برازیل، کولمبیا، چین اور سعودی عرب میں اس طرح کے ریپڈ رسپانس فورس کی ٹیمیں کام کررہی ہیں۔

پاکستان میں ریپڈ رسپانس فورس کی اہمیت 2007ء میں اس وقت شدت سے محسوس کی گئی جب ملک بدترین دہشت گرد حملوں کی لپیٹ میں تھا اور ہر روز کوئی نہ کوئی شہر دھماکے سے لرز اٹھتا تھا۔ اس منظر نامے میں 23 جولائی 2007ء کو کراچی میں آئی جی سندھ ضیاء الحسن خان نے 300 کمانڈوز پر مشتمل ملک کی پہلی ریپڈ فورس کی تشکیل کا اعلان کیا۔

دنیا بھر میں آر آر ایف کو اپنا مشن کامیاب بنانے کیلئے موقع پر ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور اس خصوصی اختیار کی وجہ سے آر آر ایف کو انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں وقتاً فوقتاً تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔

آرآر ایف کے آفیسرز اور اہلکاروں کو ہائی رسک آپریشنز کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور ان کی ذمہ داریوں میں یرغمال بنائے گئے افراد کو بازیاب کرانا، دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا، خطرناک مجرموں کی گرفتاری اور سرچ آپریشن کے دوران پولیس کی معاونت کرنا اور گلوبل وارمنگ کا شکار ممالک میں ماحول کا تحفظ کرنا شامل ہے۔

فورس میں شامل اہلکار انتہائی تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور مشین گن، جدید رائفل، شاٹ گن، شورش پر قابو پانے والے ہتھیاروں، ہینڈگرنیڈز اور اسنائپر رائفل سے لیس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اہلکاروں کو حفاظتی شیلڈز، مسلح گاڑیوں، رات میں دیکھنے والے چشموں اور کسی بند مقام میں یرغمالیوں اور اغوا کاروں کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کیلئے Motion Detectors بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

پہلی مرتبہ آر آر ایف 1968ء میں لاس اینجلس پولیس ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹر ڈیرل گیٹس نے تشکیل دی۔ پولیس کی معاونت کیلئے استعمال کی جانے والی آر آر ایف کی کارروائی کا دورانیہ منٹوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ جنگی کارروائیوں کے دوران جن میں پیرا ٹروپس یا کمانڈوز کا استعمال کیا جاتا ہے، کارروائی کا دورانیہ گھنٹوں اور دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

آر آر ایف یا ریپڈ سیکورٹی فورس کو سب سے پہلے دسمبر 1969ء میں لاس اینجلس میں استعمال کیا گیا۔ یہ یونٹ چار گھنٹے تک ”بلیک پینتھر“ نامی دہشت گرد گروپ سے لڑتا رہا اور آخر کار اپنے تین ساتھیوں اور چار یونٹ آفیسرز کی ہلاکت کے بعد بلیک پینتھرز نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مئی 1974ء میں امریکی شہر لاس اینجلس میں ہی ”ایس ایل اے“ نامی باغی گروپ کے جنگجوﺅں نے کومپٹن ایونیو میں مورچہ بنالیے تھے۔

ابتدا میں انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی گئی، لیکن شرپسندوں نے بات چیت کے بجائے فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں کئی شہری زخمی ہوگئے ۔ آخر کار آر آر ایف کے اہلکاروں نے ہائی رسک آپریشن کے بعد تمام چھ دہشت گردوں کو ہلاک کرڈالا اور ایونیو میں موجود سینکڑوں افراد کو زندہ سلامت بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

20 اپریل 1999ء کو کولوراڈو کے کولمبائن ہائی اسکول میں خونریز واقعہ پیش آیا۔ اس دوران آر آر ایف کے اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے جدید ہتھیاروں کی مدد سے تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کرڈالا اور ہنگامی حالات میں اپنی افادیت کو ثابت کردیا۔

ریپڈ ری ایکشن فورسز کو یرغمال بنائے گئے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اوراہم غیر ملکی شخصیات کی بازیابی کے دوران دہشت گردوں کا ہر اوّل دستے کی صورت میں مقابلہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے، جن کو اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دہشت گرد عناصر کو جائے واردات پر ہی قتل کردینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ یونٹ عموماً فضائی راستے سے نقل و حرکت کرتا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع نے نائن الیون کے بعد دسمبر 2008ء میں ایک نئی ریپڈ رسپانس جوائنٹ ٹاسک فورس تیار کی، جس کا مقصد خفیہ کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیائی حملوں اور قدرتی آفات سے مقابلہ کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معاونت فراہم کرنا تھا۔ یہ نئے یونٹس دیگر وفاقی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر مقامی ذمہ داروں کی مدد سے قدرتی آفات اور حملوں کے دوران ہنگامی کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔

اس کا پہلا نیا یونٹ 4700 اہلکاروں پر مشتمل تھا اور یہ فورس امریکہ کی شمالی کمانڈ کی معاونت کیلئے مقرر کی گئی۔ امریکی محکمہ دفاع کی ایک اہم شخصیت مک ہیلے کے مطابق، نائن الیون کا واقعہ ریپڈ رسپانس فورس کے نئے یونٹنس کے قیام کا سبب بنا۔

امریکہ کے بعد نیٹو کے رکن ممالک نے بھی دنیا بھر میں بحرانی حالات پر قابو پانے کیلئے ریپڈ رسپانس فورس تشکیل دی۔ یہ فورس 2006ء سے فعال ہے۔ اس فورس کو ضرورت کے مطابق کہیں بھی تعینات کیا جاتا ہے۔ اس فورس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی سات ممالک نے بھی اس میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

نیٹو رسپانس فورس (این آر ایف) 20 ہزار اہلکاروں پرمشتمل ہے اور ان سپاہیوں کو فضا، زمین اور سمندر میں لڑنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ یہ سپاہی کسی بھی شورش زدہ علاقے میں فوری طور پر تعینات کیے جاسکتے ہیں۔

چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت گری کے حوالے سے شہرت رکھنے والے لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کی حکومت نے جرائم کیخلاف 2001ء میں 4 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ریپڈ رسپانس فورس تشکیل دی۔ اس فورس کے اہلکاروں کو جنگی تربیت دینے اور جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں تعینات کیا گیا۔

2000ء سے قبل کولمبیا میں مختلف اقسام کے جرائم کی شرح 80 فیصد سے زائد تھی، لیکن آر آر ایف کی تشکیل کے بعد یہاں جرائم کی شرح 50 فیصد سے کم ہوگئی۔ کولمبیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے فورس کے ماورائے عدالت ہونے پر احتجاج بھی کیا گیا، لیکن فورس کی افادیت کے سبب کوئی اعتراض قابل غور نہ رہا۔

ایم آر آر ایف کی قابل ذکر کامیابیوں میں تامل ایلام سے تعلق رکھنے والی پیپلز لبریشن آرگنائزیشن کی مالدیپ حکومت پر قبضے کی کوشش کو ناکام بنانا شامل ہے۔ بھارتی ریپڈ رسپانس فورس نے مالدیپ کے حکمران کی اطلاع ملنے پر آدھے گھنٹے میں باغیوں کی کارروائی ناکام بنا دی تھی اور جزیرے کو محفوظ بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ بحری قزاقوں کی کئی کارروائیا ں بھی ایم آر آر ایف ناکام بنا چکی ہے۔

بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش میں بھی ریپڈ رسپانس فورس تشکیل دی گئی ہے۔ اس فورس کے قیام کا مقصد نہ صرف ملک میں بڑھتے عورتوں کی آبروریزی کے واقعات میں کمی لانا ہے، بلکہ اس فورس میں شامل تربیت یافتہ اہلکار طوفانی بارشوں اور سیلاب کے دوران بھی امدادی کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں قائم ریپڈ رسپانس سینٹر کے اہلکار سیلاب کے دوران انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کا تحفظ بھی یقینی بناتے ہیں۔ ایک غیر ملکی این جی او کے سروے کے مطابق بنگلہ دیش میں ریپڈ رسپانس سینٹر کے قیام کے بعد مختلف اقسام کے جرائم سمیت قدرتی آفات کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی شرح میں تقریباً 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے