تازہ ترین

پاکستان کاایٹمی پروگرام اسلام دشمن طاقتوں کے نشانے پر

pakistan-ka-auotmi-program-islam-dushman-taqqton-ke-nishany-par
  • محمد قیصر چوہان
  • مارچ 2, 2023
  • 2:16 شام

عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام پورے عالم کفر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔اسلام اورپاکستان دشمن طاقتیں پاکستان کو معاشی طور پرکمزور کرکے ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے ۔گزشتہ برس امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈیموکریٹک کانگریس کے اجلاس سے خطاب میں بدلتی ہوئی عالمی جغرافیائی سیاسی صورت حال پر گفتگو کے دوران پاکستان کے جوہری پروگرام کو غیر منظم قرار دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ پاکستان شاید دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے اس بات کا خدشہ ہے کہ اسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔ امریکی صدرنے پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے بیان عالمی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر ہی دیا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو ’ ’ دجال “کے شیطانی نظام کو پوری دنیامیں نافذ کرنے کے مشن پر گامزن تنظیمیں فری میسن ، الیومناٹی اورکمیٹی آف 300 لیڈ کر رہی ہیں۔مذکورہ تینوں تنظیمیں دنیا کے تمام تر امور کو کنٹرول کرنے والے طاقتور ترین افراد کا وہ گروہ ہے جو خفیہ طریقے سے کام کر رہا ہے اور اس گروہ کا مقصد دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنا ہے۔جو دراصل دجال کی’ ’ عالمگیر شیطانی حکومت “ہے۔ اسکل اینڈ بون سوسائٹی سمیت دیگر چھوٹی تنظیمیں اور مختلف بین الاقوامی این جی اوز یہودی بینکاروں کی مدد سے دنیا میں شیطانی نظام کے فروغ کیلئے کام کر رہی ہیں۔اقوام متحدہ ، نیٹو فورسز، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ، امریکا ، سمیت عالمی سود خور ادارے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ساری دنیا میں دجال کے نظام کو رائج کرنے کیلئے متحرک ہیں۔بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران بھی اس کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔

دجال کے نظام کو پوری دنیا میں تیزی کے ساتھ نافذ کرنے والی کٹھ پتلی امریکا نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے، خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے، پاکستان کو اپنا مکمل غلام بنانے، اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ جمانے کے عمل کو تیز کردیا ہے۔

pakistan-ka-auotmi-program-islam-dushman-taqqton-ke-nishany-par

عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ معاشی بحران کے شکار ملک سے نیوکلیئر طاقت واپس لینے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی قوم یہ بات سمجھتی ہے کہ امریکا عالم اسلام اور پاکستان کا حقیقی دشمن ہے اور وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنا چاہتا ہے جس کیلئے اس کا دباﺅ سامنے آتا رہتا ہے، ماضی میں امریکی صدر جوبائیڈن کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔ تو ایسے میں تشویش کیوں نہ ہو، کہ امریکا پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور اسے نہ صرف محدود کرنے بلکہ ممکنہ طور پر مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے بات چیت کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ امریکا بظاہر دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا مشن جوہری عدم پھیلاﺅ میں اس کے وسیع تر مفاد کا حصہ ہے، لیکن اس کے منصوبے اور دوغلے معیار سے پوری دنیا واقف ہے، اور حقیقت میں امریکا خود اس خطے اور دنیا کیلئے تباہ کن ہے۔ اس میں کوئی دور رائے نہیں ہیں کہ ایٹمی پروگرام پاکستان کیلئے ضروری ہے، اور اس کا پس منظر بھارت کی پاکستان دشمنی ہے۔پاکستان کا جوہری پروگرام 1973ءمیں اپنے قیام کے بعد سے ہی قوم کیلئے فخر اور تحفظ کا باعث رہا ہے۔ یہ جوہری پروگرام محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اس قوم پر احسان ہے، لیکن نتیجے کے طور پر انہیں فوجی آمر پرویزمشرف کے ذریعے ٹیلی ویڑن اسکرین پر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں 1974ءمیں یورینیم کی افزودگی کا کام باقاعدہ شروع ہوا، اور سائنس دان 1982ءتک 90 فیصد افزودگی کے قابل ہوگئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا کہ ”پاکستان نے 1984ءمیں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی اورمیں نے جنرل ضیاالحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں، لیکن ان کے امریکا نواز وزیر خارجہ اور دوسرے وزیروں نے سخت مخالفت کی تھی۔ جس کے بعد 1998ءمیں جب بھارت نے جوہری تجربات کیے تو پاکستان کیلئے کوئی چارئہ کار نہیں رہا کہ وہ بھی جوہری تجربات کرے، اور یوں پاکستان بھی جوہری طاقتوں کی صف میں شامل ہوگیا۔“ ایٹم بم کے پہلے کامیاب تجربے سے لے کر جوہری وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل کے کامیاب تجربے تک ہمارا ملک جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں ایک رہنما رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کا جوہری پروگرام اندرونی اور بیرونی دونوں طاقتوں اور ایجنٹوں کی طرف سے خطرے میں ہے، اور اصل بات تو یہی ہے کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کیلئے امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباﺅ کا شکار رہا ہے۔ امریکا جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کے پھیلاﺅ پر تشویش کا اظہار کرتا ہی رہتا ہے اور پاکستان پر زور دیتا رہتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کا جوہری پروگرام محفوظ ہے، اور غلط ہاتھوں میں نہ جائے۔ ملکی سیاسی عدم استحکام اور وسائل کی کمی کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔

اب تک پاکستان نے معاشی مشکلات اور کمزور حکومتوں کے باوجود قوم کے دباﺅ پر اپنے جوہری پروگرام کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو دنیا بین الاقوامی امن اور سلامتی کیلئے خطرے کے طور پر نہ دیکھے۔ حقیقت میں اگر دنیا کو خطرہ ہے تو وہ امریکا اور بھارت کے جوہری پروگرام سے ہے۔ دنیا ہمارے لیے کیا سوچ رہی ہے یہ ایک الگ بات ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاست اور معیشت عوام دشمن قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور ان قوتوں کا مقصد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، اور اس کیلئے امریکی ماتحت اداروں کی کاسہ لیسی اور غلامی کرنا ان کا اوّلین مقصدحیات ہے۔ اسی لیے اس طرح کے دوروں کے نتیجے میں تشویش پیدا ہونا ویسے ہی فطری عمل ہے لیکن یہ تشویش اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہماری حکومت کسی خطرے کی تردید کرتی ہے۔ کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سیاسی اور ”غیر سیاسی“ اشرافیہ اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں غلامی کا طوق پہن کر عوام دشمن اقدامات کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کچھ بھی فروخت کرسکتے ہیں چاہے وہ جوہری پروگرام ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام قومی فخر، بقا اور سلامتی کا ذریعہ ہے لہٰذا ہر قیمت پر اس کا تحفظ یقینی بنایاجا ئے۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور انہوں نے اس عظیم قومی مشن کی تکمیل کا بیڑہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سونپا۔ بھٹو کے شروع کردہ ایٹمی پروگرام کو جنرل ضیاءالحق نے بھرپور انداز سے 1977ءسے 1988ءتک جاری رکھا اور کسی بیرونی دباو ¿ کو خاطر میں نہیں لائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بیرونی دباو ¿ کے باوجود ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا دباو ¿ مسترد کیا اور ایٹمی ہتھیاروں کو لے جانے والے ڈیلوری سسٹم کی ابتداءکی۔ واضح ہو کہ ڈیلوری سسٹم بھی اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے کہ جتنا ایک نیوکلیئر وار ہیڈ۔میاں نواز شریف جنہوں نے پوری دنیا کے دباو ¿، امریکی صدر کلنٹن کے پانچ ٹیلی فون اور 5ارب ڈالرز تک کی پیش کش کے باوجود قومی امنگوں کے عین مطابق جرا ¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 28مئی 1998ءکو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چاغی کے مقام پر سات دھماکے کرکے دشمنوں کو یہ پیغام دے دیا کہ اب پاکستان دشمنوں کیلئے تر نوالہ نہیں بلکہ ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاءالحق ،محترمہ بے نظیر بھٹو،میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں عدالت سے پھانسی کی سزا دلواکر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ان کو یہ تنبیہ کی تھی کہ اگر انہوں نے نیوکلیئر پروگرام بند نہ کیا تو دنیا ان کا انجام دیکھے گی۔

خود بھٹو صاحب بھی پھانسی پر چڑھنے سے پہلے تک یہ کہتے رہے کہ مجھے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام شروع کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ نیوکلیئر پروگرام کو جاری رکھنے والی دوسری شخصیت جنرل ضیا ءالحق کا طیارہ بھی اس طرح تباہ ہوا جس کا آج تک پتہ نہ چل سکا ان کے ساتھ وہ تمام سینئرز جنرلز بھی جاں بحق ہوئے جو ایٹمی پروگرام سے وابستہ تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے ایک ملاقات میں جب میں نے ان سے پوچھا کہ جنرل ضیاءالحق کے حادثے میں کون ملوث ہے تو انہوں نے بلا توقف امریکا کا نام لیا۔ بے نظیر صاحبہ کے سفاکانہ قتل کا معمہ بھی آج تک حل نہ ہوسکا۔ واضح ہو کہ ان کے دونوں ادوارِ حکومت میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے حوالے سے بڑا زور تھا مگر انہوں نے اس دباو ¿کو قبول نہیں کیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بانی ایٹم بم ہونے کی بڑی کڑی سزا پائی اور انہیں جنرل مشرف کے ہاتھوں ٹی وی پر ناکردہ جرم کا اقبال کروا کر ان کی تذلیل کی گئی اور انہیں اور ان کی فیملی کو کئی سال سب جیل میں رکھا گیا جہاں انہیں کسی سے ملنے کی اجازت نہ تھی اور اسی دوران قومی ہیرو مناسب طبی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے کینسر جیسے موزی مرض میں مبتلا ہوئے۔ان کے معالج ڈاکٹرز کو مشرف حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ ان کی بیماری کا علاج حکومتی مرضی کے مطابق کریں مگر ان کے معالجین نے اس دباو ¿ کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔ جنرل مشرف کے جانے کے بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی جس پر امریکا خوش نہیں۔ نواز شریف نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کی جرا ¿ت کا خمیازہ بھگتا اور ان کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا اور ایٹمی دھماکہ کرنے والا وزیر اعظم کئی ماہ تک پابند سلاسل رہا اور اس کے بعد تقریباً آٹھ سال انہیں جلاوطنی میں گزارنے پڑے۔

pakistan-ka-auotmi-program-islam-dushman-taqqton-ke-nishany-par

وہ اپنے والد کی تدفین میں بھی شریک نہ ہوسکے۔پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی ایک طویل داستان ہے جس کے حصول میں بڑے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔دشمنوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژکرنے کی کئی بار کوششیں کیں۔کچھ عرصہ قبل آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر امتیاز احمد نے ایک انکشاف کیا تھاکہ کس طرح امریکی ہمارے کچھ انجینئر اور سائنسدانوں کو خرید کر ہماری نیوکلیئر تنصیبات کو تکنیکی طور پر تباہ کرنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے کراچی کی ایک خاتون لیکچرار کے ذریعے اس منصوبے سے پردہ اٹھایا اور دشمن اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ہوا۔ اسی طرح کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی حدود میں ایک چرواہے کی نظر کچھ بڑے پتھروں پر پڑی جن میں جاسوسی کے حساس آلات اور کیمرے نصب تھے جن کے ذریعے وہاں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی تھی۔ اسی سلسلے کا ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب ضیاءالحق اپنے دور صدارت میں امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں وائٹ ہاو ¿س میں ایک میٹنگ میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام منجمد ہے۔اس پر وہاں موجود سی آئی اے کے سربراہ نے ایک فلم دکھائی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام منجمد نہیں بلکہ جاری ہے۔ شاید یہ فلم بھی مذکورہ پتھروں میں نصب شدہ کیمروں کی مدد سے بنائی گئی تھی۔ آج دشمن عملی طور پر ناکام ہونے کے بعد ایک اور چال چل رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار غیر محفوظ ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اور دنیا کیلئےءتباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔اس پروپیگنڈے کا مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان