تازہ ترین

پاک فوج کے مایہ ناز جرنیل، آئی ایس آئی کو بام عروج پر پہنچانے والے متحرک سربراہ،

  • ابوبکر امانت
  • اگست 17, 2020
  • 6:35 شام

جنگ افغانستان کے اساطیری کردار جنرل اختر عبدالرحمان کی آج یوم وفات ہے، آپ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ہمراہ اس طیارے میں سوار تھے جو 17 اگست 1988ء کو بہاول پور کے نواحی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا

اوچ شریف (نوائے اوچ رپورٹ/ یوم دو شنبہ، مورخہ 17 اگست 2020ء) پاک فوج کے مایہ ناز جرنیل، آئی ایس آئی کے متحرک سربراہ، جنگ افغانستان کے اساطیری کردار جنرل اختر عبدالرحمان کی آج یوم وفات ہے، جنرل اختر عبد الرحمن 11 جون 1924ء کو پشاور  میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد ڈاکٹر عبد الرحمن سرکاری ملازم تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے قبل افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کے ذاتی معالج رہ چکے تھے۔ 1928ء میں والد کی وفات کے بعد ان کی تعلیم و تربیت والدہ کی نگرانی میں ہوئی۔ آپ اچھے طالب علم اور اچھے اسپورٹس مین بھی تھے ۔

1945ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے معاشیات کی ڈگری لینے کے بعد فوج میں ملازم ہو گئے۔ فروری 1947ء میں فوج میں باقاعدہ کمیشن ملا۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں تعینات تھے۔ اس دور میں انہوں نے ان مہاجرین کی بڑی مدد کی جو آگ اور خون کا سمندر پار کر کے لٹے پٹے پاکستان پہنچے تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمان کا شمار ان فوجی افسروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی تمام جنگوں میں حصہ لیا۔

1948ء میں کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کے قریب برکی کے محاذ پر داد شجاعت دی۔ 1971ء کی جنگ میں قصور کی سرحد پر ایک بریگیڈ کی قیادت کرتے رہے۔ 1978ء میں پاک آرمی کے ایجوٹنٹ جنرل اور 1979ء میں ڈائریکٹر انٹیلی جنس مقرر ہوئے۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے بہت تھوڑے عرصہ میں آئی ایس آئی کو پیشہ ورانہ طور پر ایسی بلندیوں سے ہمکنار کر دیا کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنساں اسے رشک و حسد سے دیکھنے لگ گئیں۔

جنگ افغانستان میں جنرل اختر عبدالرحمن کی کمانڈ میں آئی ایس آئی نے جو کردار ادا کیا، دنیا کی جنگی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنگ افغانستان میں آئی ایس آئی کے کامیاب آپریشن نے جنرل اختر عبدالرحمن کو دنیا کے صف اول کے جرنیلوں کی صف میں کھڑا کر دیا ۔

جنرل اختر عبدالرحمن کو آئی ایس آئی کا چیف بننے کے فوراً بعد جو پہلا چیلنج درپیش ہوا، وہ جنگ افغانستان کا تھا۔ راتوں رات سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئی تھیں، پاکستان کو معلوم تھا کہ سوویت یونین کا اگلا ہدف پاکستان ہے۔ لہٰذا پاکستان کی سلامتی کے نقطہ نظر سے ضروری تھا کہ سوویت یونین کے فوجی قدم افغانستان میں جم نہ سکیں لیکن یہ کیونکر ہو گا، اس کے لئے ایک جامع جنگی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔

جنرل اختر عبدالرحمن کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے یہ جامع جنگی منصوبہ تیار کیا اور جنرل ضیاءالحق کے سامنے رکھ دیا، جسے انہوں نے کمال جرات سے منظور کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے گرین سگنل ملتے ہی جنرل اختر عبدالرحمن نے اس پر کام شروع کر دیا۔

پہلا مرحلہ افغانستان کے مختلف اور متحارب افغان قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا تھا۔ یہ مرحلہ طے پا گیا، تو اگلا مرحلہ ان کے درمیان اسلحہ کی منصفانہ تقسیم تھی۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے اسلحہ کی تقسیم کا اصول یہ وضع کیا کہ اسلحہ صرف افغان تنظیموں کے تسلیم شدہ سربراہوں کو دیا جائے گا اور وہی اسے آگے اپنے کمانڈروں کو منتقل کریں گے۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ ابتدائی طور پر صرف سعودی عرب ہی پاکستان کو مالی مدد مہیا کر رہا تھا۔ لیکن ایک بار جب منظم طریقہ سے جنگ شروع ہو گئی اور اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے تو امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک کی طرف سے بھی مالی امداد ملنا شروع ہو گئی۔ تاہم جنرل اختر عبدالرحمن کے جنگی تجربہ نے بہت جلد بھانپ لیا کہ جب تک افغان تنظیموں کو سوویت یونین کے فضائی حملوں کو توڑ مہیا نہیں کیا جائے گا۔

اس وقت تک اس جنگ کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے امریکیوں پر زور دینا شروع کیا کہ افغان تنظیموں کو سٹنگر میزائل فراہم کئے جائیں۔ امریکی تذبذب کا شکار تھے، لیکن آخر کار جنرل اختر عبدالرحمن نے انہیں قائل کر ہی لیا اور وہ افغان مزاحمت کاروں کو سٹنگر میزائل مہیا کرنے پر راضی ہو گئے۔ سٹنگر میزائل ملنے کی دیر تھی کہ جنگ کا پانسہ افغان تنظیموں کے حق میں پلٹ گیا۔ حقیقتاً اس کے بعد ہی سویت یونین نے افغانستان نے نکلنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یوں جنرل اختر عبدالرحمن نے روس افغانستان کی جنگ میں تدبر اور احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی کر کے روس جیسی طاقت کو شکست کھانے پر مجبور کیا۔

فوجی ملازمت میں نمایاں کارکردگی پر ستارہ بسالت، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات دیے گئے۔ 17 اگست 1988ء کو سی 130 کے جنرل ضیاالحق کے طیارہ میں جنرل اختر عبدالرحمن کے سوار ہونے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کو ایک سازش کے تحت جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں سوار کرایا گیا اور آپ بہاول پور کے قریب بستی لال کمال میں ہوائی جہاز کے حادثے میں صدر مملکت جنرل ضیاء الحق اور دوسرے فوجی افسروں کے ساتھ جاں بحق ہوئے۔ ان کے صاحب زادے ہمایوں اختر نے عملی سیاست میں حصہ لیا ہے اور کئی مرتبہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

ابوبکر امانت

ایڈیٹر ’’واضح رہے‘‘ اینڈ ’’سوشل میڈیا مارکیٹر‘‘

ابوبکر امانت