تازہ ترین

مسلمان قیدیوں سے ناروا سلوک کا انجام (دوسرا اور آخری حصہ)

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 2
  • واضح رہے
  • مارچ 4, 2021
  • 11:31 شام

لارڈ میو جب جزیرۂ انڈنمان سے واپس جانے کیلئے چھوٹے جہاز پر سوار ہو رہے تھے تو شیر علی آفریدی ان کی طرف لپکا اور چاقو کے وار کردیئے

یہ تمام برطانیہ کے رائل نیوی شپ کے اہلکار تھے۔ لارڈ میو سے آگے دو افراد جا رہے تھے جن کے ہاتھ میں ٹارچیں تھی۔ لارڈ میو کے پیچھے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری اور دیگر اہلکار بھی آرہے تھے، جبکہ ان کے پیچھے اسلحہ لئے سیکورٹی گارڈ بھی آرہے تھے۔ لارڈ میو اپنے اہلکاروں کے ہمراہ گپ شپ کرتے ہوئے چھوٹے جہاز کی طرف جارہا تھا۔ قیدی سارے بیرک میں تھے، اس وقت کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔

جیسے ہی لارڈ میو اپنے چھوٹے جہاز کے قریب پہنچا۔ اہلکار سائیڈ پر کھڑے ہوگئے اور اسی دوران ایک چیخ کی آواز سنائی دی۔ پرائیویٹ سیکریٹری سمیت تمام اہلکاروں نے چونک کر دیکھا تو ایک شخص جس کے ہاتھ میں چاقو تھا، اس نے لارڈ میو کی گردن پر وار کیا تھا۔

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 2

یہ دیکھ کر سیکورٹی اہلکار اور تمام لوگ فوری طور پر پہنچے اور انہوں نے حملہ آور کو پکڑا اور اس کے ہاتھ سے چاقو لے لیا۔ ان کی کوشش تھی کہ لارڈ میو کو بچا سکیں۔ حملہ آور ایک قیدی تھا۔ پرائیویٹ سیکریٹری نے حملہ آور کو سائیڈ پر کرلیا کیونکہ سیکورٹی اہلکار اسے اسی وقت مارنا چاہتے تھے۔

اسی دھکم پیل میں راستہ دکھانے والے دو افراد کے ہاتھوں سے ٹارچ بھی گر گئی اور سخت اندھیرے میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا۔ جب ٹارچ کی روشنی کی گئی تو دیکھا گیا کہ لارڈ میوکو زخم آئے ہیں اس وقت لارڈ میو نے اپنے رومال سے اپنا چہرہ صاف کرنا شروع کیا۔

اس نے بتایا کہ وہ زخمی ہے، تاہم وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ کیونکہ اس کی گردن پر معمولی زخم آئے ہیں۔ اہلکاروں کی بڑی تعداد ٹارچ لے کر آئی تاکہ وائسرائے کو نزدیک سے دیکھ سکیں۔

روشنی میں پتہ چلا کہ وائسرائے کا کوٹ خون سے بھرا ہوا ہے اور اس کے جسم سے خون کا فوارہ ابل رہا ہے۔ اس وقت ہر ایک کی کوشش تھی کہ رومال کے ذریعے لارڈ میو کے زخم کو کنٹرول کرسکیں تاکہ خون کا بہاؤ کم ہو۔

یہ بھی پڑھیں: مسلمان قیدیوں سے ناروا سلوک کا انجام (پہلا حصہ)

لارڈ میو بھی کھڑا ہوگیا، تاہم خون کے بہاؤ کے باعث وائسرائے کے قدم لڑکھڑا گئے اور وہ یکدم گر گیا۔ پھر بھی لارڈ میو نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی اور اسی دوران اس نے ایک اہلکار کو کہا کہ میرا سر پکڑنا۔ یہ اس کے آخری الفاظ تھے جس کے بعد لارڈ دم توڑ گیا۔

وائسرائے کو فوری طور پر جہاز پر منتقل کیا گیا جہاں پر ڈاکٹروں نے لارڈ میو کے جسم کو چیک کیا۔ تاہم اس میں زندگی کی کوئی رمق دیکھنے میں نہیں تھی۔ اس کا زخم کمر سے سینے تک تھا اور زخم بھی بہت گہرا آیا تھا۔ چونکہ لارڈ میو بھاری بھر کم شخصیت کا مالک تھا، اسی وجہ سے وہ اس حملے میں زیادہ دیر تک زندہ رہ سکا۔ ڈاکٹروں کے مطابق اگر کسی عام آدمی پر اس طرح حملہ ہوتا تو وہ فوری طور پر ہلاک ہو جاتا۔

بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ شیر علی آفریدی نے لارڈ میو کو استرے سے قتل کیا۔ کیونکہ جزیرہ ایڈیمان میں چاقو لے جانا ممکن نہ تھا۔ شیر علی چونکہ وہاں قیدیوں کے بال کاٹنے پر مامور تھا، اسی لیے لارڈ کی گردن استرے سے کاٹ ڈالی۔

محمد شفیع صابر مزید لکھتا ہے کہ ”شیر علی آفریدی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت مذہبی مزاج کا انسان تھا۔ دوران قید اس پر تعینات اہلکاروں نے یہ جان لیا تھا کہ وہ پانچ وقت کا نمازی ہے اور روزے بھی رکھتا تھا اور جو رقم اسے وہاں پر کام کرنے کے دوران ملتی تھی وہ دوسرے غریب قیدیوں کو مالی امداد کے طور پر دیا کرتا تھا۔ دوران قید ہر دوسرے اور تیسرے مہینے اپنے حصے کے کھانے میں کھانا بچا کر بیمار و معمر قیدیوں کو بھی دیا کرتا تھا۔

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 2

یہی وہ کردار تھا جس کی وجہ سے شیر علی آفریدی نہ صرف قیدیوں میں مقبول تھا بلکہ وہاں پر تعینات اہلکار بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ اسے قیدیوں کے بال کاٹنے کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی اور وہ اسی وجہ سے مختلف بیرکوں میں آتا جاتا رہتا۔ یہی وجہ تھی کہ لارڈ میو کو نشانہ بنانے میں اسے آسانی ہوئی۔ وائسرائے کے قتل پر برطانوی حکومت بھی صدمے سے دو چار ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد پہلی مرتبہ فارنسک تحقیقاتی ٹیم بھی جزیرہ انڈیمان پہنچی اور انہوں نے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

برطانوی حکومت کا خیال تھا کہ شائد اس قتل میں تحریک مجاہدین کا ہاتھ ہے اور بعض افراد نے شیر علی آفریدی کو اس کام کیلئے چنا اور اسے اس حملے کے لیے استعمال کیا۔ متعدد تحقیقات کاروں نے اس حوالے سے کوششیں کی کہ معلومات لے سکیں کہ آیا اس حملے کے پیچھے تحریک مجاہدین کا ہاتھ تو نہیں؟ اس عمل میں اس وقت ایک اہلکار جس کا نام ایشوری پرساد تھا اور وہ بعد میں ڈپٹی کلکٹر بھی بن گیا، اس نے جھوٹی خبریں دے کر انگریزوں کو بتایا کہ اس کیس میں تحریک مجاہدین کا ہاتھ ہے۔

دوران ٹرائل شیر علی آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ وہ سارا دن اسی چھوٹے جہاز کے قریب انتظار کرتا رہا۔ بعد میں ماؤنٹ ہیریٹ بھی گیا کیونکہ وائسرائے بہت لیٹ ہوگیا تھا۔ لیکن وہاں پر بھی اس پر حملے کا موقع نہیں مل سکا اور پھر اسے جہاز کے قریب اس پر حملہ کرنے کا موقع ملا۔ شیر علی آفریدی وائسرائے کے مقابلے میں کوئی خاص جسامت کا حامل بھی نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے چھ فٹ کے حامل بھاری بھر کم لارڈ میو کو قتل کیا۔

اسی واقعے کے بارے میں مولانا غلام رسول ’سرگزشت مجاہدین‘ میں لکھتے ہیں کہ ”شیر علی آفریدی ایک ایسا شخص تھا جو اپنے ارادوں کی تکمیل کیلئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ اس نے دوران قید بڑی زنجیر بھی توڑ ڈالی تھی اور اپنے آپ کو زخمی بھی کیا اور سیکورٹی گارڈ سے رائفل چھین لی تھی۔

جب عدالت میں اس سے پوچھا گیا کہ کس نے اسے لارڈ میو کے قتل کرنے کیلئے آمادہ کیا؟ تو شیر علی آفریدی نے جواب دیا تھا کہ میں نے اللہ کے حکم سے اسے قتل کیا۔“ بعد کے حالات تاریخ کا حصہ ہیں۔ فرہاد علی خاور کا کہنا ہے کہ ”شیر علی آفریدی نے ایک مرتبہ پھر قتل کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ 11

مارچ 1873ء کو جب اسے پھانسی کے تختے پر لایا گیا تو اس کے آنکھیں پر سکون تھیں۔ اس نے پھانسی کی رسی کو چوما، اور کہا کہ جب میں نے وائسرائے کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو میں اپنے آپ کو اسی جگہ دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پھانسی پانے والے کو دکھانے کیلئے وہاں پر زبردستی لوگوں کو لایا جاتا تھا۔ وہاں موجود مسلمان قیدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے شیر علی آفریدی نے کہا ”بھائیو، میں نے تمہارا دشمن قتل کردیا۔ تم لوگ گواہ رہو کہ میں مسلمان ہوں“۔

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 2

اس کے بعد اس نے کلمہ شہادت پڑھا جو دو مرتبہ اس کے زبان سے نکل۔ا لیکن تیسری مرتبہ پھانسی لگ جانے کے باعث اس کے زبان سے الفاظ نہیں نکل سکے۔ اس واقعے کے بعد برطانوی سامراج نے بہت کوشش کی کہ مجاہدین کو اس واقعے سے جوڑسکیں۔ تاہم کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکے۔ تاہم اس کے باوجود جزیرہ انڈیمان میں قید مجاہدین قیدیوں کی سزا میں دس سال کا مزید اضافہ کیا گیا۔“ لارڈ میو کے نام پر لاہور کا میو اسپتال اور ہندوستان میں دیگر یادگاریں اب بھی موجود ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے