تازہ ترین

مسلمان قیدیوں سے ناروا سلوک کا انجام (پہلا حصہ)

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 1
  • واضح رہے
  • فروری 27, 2021
  • 5:27 شام

انگریز دور میں جن قیدیوں کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی تھی انہیں کالے پانی بھجوا دیا جاتا تھا، جہاں شیر علی آفریدی بھی مقید تھے

غیر منقسم ہندوستان میں وائسرائے ہند کی حیثیت ایسی ہوتی تھی کہ وہ تمام ہندوستان کے سیاہ و سفید کا مالک کہلاتا تھا۔ 1842ء سے 1867ء کے درمیان ہندوستان میں آنے والے تمام وائسرائے ’’دی ارل آف میو‘‘ کہلاتے تھے۔ ہندوستان میں جتنے بھی وائسرائے آئے ان میں واحد وائسرائے لارڈ رچرڈ بروک تھا، جسے ایک پختون جوان شیر علی آفریدی نے قتل کیا اور قتل بھی ایسے ڈرامائی انداز میں کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 1

شیر علی آفریدی کی تصویر

رچرڈ بروک چھٹا ارل آف میو تھا۔ اسی لیے رچرڈ لارڈ میو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ’’تذکرہ سرفروشان سرحد‘‘ میں محمد شفیع صابر لکھتے ہیں کہ ’’شیر علی آفریدی واحد شخص تھا جس نے برطانوی وائسرائے کو ہندوستان میں ہلاک کیا اور یہ واقعہ آٹھ فروری 1872ء کو پیش آیا تھا‘‘۔

انگریزوں کے دور میں حکومت جن قیدیوں کو عمر قید کی سزا سناتی تھی انہیں کالے پانی بھجوا دیا جاتا تھا۔ شیر علی آفریدی کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ جزیرہ انڈیمان جسے کالا پانی کہا جاتا تھا، وہاں بھیج دیا گیا تھا۔ شیر علی آفریدی کی اس جزیرے پر قید ہونے کی کہانی بھی عجیب ہے۔

معروف تاریخ دان فرہاد علی خاور کا کہنا ہے کہ شیر علی آفریدی نے وائسرائے ہند لارڈ میو کو قتل کرکے تاریخ حریت میں ایک نئی تاریخ رقم کردی تھی۔ شیر علی آفریدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نرم طبعیت کا انسان تھا اور ڈپٹی کمشنر پشاور کے پاس ملازمت کرتا تھا۔

خیبر ایجنسی کے علاقے تیرہ کا رہنے والا شیر علی جزیرہ انڈیمان کیسے پہنچا؟ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ خاندانی دشمنی کے باعث اس نے اپنے ایک عزیز کو قتل کردیا تھا۔ یہ قتل خاندان کی دیرینہ دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ کیونکہ اس سے قبل یہ دشمنی کئی لوگوں کی جان لے چکی تھی۔

اس حوالے سے محمد شفیع صابر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ شیر علی آفریدی نے اپنے ’’تربور‘‘ جسے موجودہ دور میں کزن کہا جاتا ہے، کو دیکھا جو اس وقت کینٹ پشاور کے علاقے کمپنی باغ کے پاس تھا۔ شیر علی آفریدی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازم تھا اور اپنے دفتر جارہا تھا۔

شیر علی آفریدی نے موقع پر اپنے تربور کو قتل کیا۔ یہ واقعہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے ہی ہوا تھا۔ فوری طور پر شیر علی آفریدی کو گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

شیر علی آفریدی ایسی طبعیت کا مالک تھا کہ ہر ایک کو عزت دیتا تھا۔ اس وقت کے انگریز افسر بھی اس کی خوبی کے معترف تھے اور اس کی سابقہ خدمات کے پیش نظر انگریز افسر بھی اس کو بری کرنے کے حق میں تھے۔

لیکن پھر عدالت نے اس کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ 2 اپریل 1867ء کو آیا۔ شیر علی آفریدی کی نرم مزاجی اور سابقہ خدمات، جس میں امبیلا کی جنگ بھی شامل تھی، اس میں شیر علی کا کردار واضح تھا۔ اسی بنیاد پر اس کی سزائے موت کا فیصلہ عمر قید میں تبدیل کردیا گیا اور اسے کالا پانی کی سزا تجویز کی گئی۔

1869ء میں شیر علی آفریدی کو انڈیمان جزیرے پر بھیج دیا گیا جہاں پر اس نے اپنی قید کا عرصہ گزارنا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شیر علی آفریدی نے انگریزوں کی ٹاپ پوزیشن پر تعینات کسی افسر کو ہلاک کرنے کا عہد کیا۔

اس بڑے قدم کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرہاد علی خاور کا کہنا تھا کہ جزیرہ انڈیمان میں قیدیوں پر انگریز جس طرح کے ظلم و ستم کرتے تھے۔ وہ شیر علی کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ خاص طور پر مسلمان قیدیوں سے بہت ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ شیر علی نے یہ محسوس کیا کہ انگریز آقا ہیں اور باقی ہندوستانی غلام ہیں۔ یہی ایک وجہ تھی جس نے انہیں اس قدر سخت فیصلے پر مجبور کیا۔

لیکن لارڈ میو ہی کیوں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ لارڈ میو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس نے ہندوستان کے لوگوں کے دل میں نرم گوشہ ابھارنے کے لیے کچھ فیصلے کیے تھے، جن میں قیدیوں سے ناروا سلوک اور ان پر ظلم کی داستانوں پر کچھ اشک شوئی کرنا بھی شامل تھی۔

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 1

مقتول لارڈ رچرڈ بروک

خاص طور پر اس جزیرے پر قید لوگوں کے بارے میں پورے ملک میں افواہیں پھیلی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود وہاں کا دورہ کرے گا۔ اگرچہ شیر علی نے کسی اعلیٰ انگریز عہدے دار کے قتل کا فیصلہ کیا تھا، لیکن قدر ت نے اسے یہ موقع دیا کہ وہ وائسرائے ہند کو قتل کر دے۔

اس حوالے سے محمد شفیع صابر ‘‘تذکرہ فروشان سرحد’’ میں لکھتے ہیں کہ 8 فروری 1872ء کی رات جزیرہ انڈیمان میں تاریخی نوعیت کی رات تھی۔ انگریزوں کے دور حکومت میں جن قیدیوں کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی تھی انہیں ان جزیروں میں عمر قید گزارنے کیلئے بھیجا جاتا تھا جہاں پر انگریز حکمران قیدیوں سے سخت کام کراتے اور بیگار لیتے تھے۔ ان کی زندگی یہاں پر ہی گزر جاتی تھی۔

کالا پانی کے ان جزیروں میں قیدیوں اور ان پر مسلط لوگوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی تھیں۔ کبھی کبھار اخبارات میں وہاں پر قیدیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور تشدد کی خبریں سامنے آجاتی تھیں اور برطانوی حکمرانوں کے تشدد کے طریقے خبروں کی زینت بنتے اور کبھی کبھار ان خبروں کی نتیجے میں قیدیوں کیساتھ ہونے والے مظالم اور تشدد میں کمی ہو جاتی تھی۔

1869ء میں لارڈ ماؤ جو کہ ہندوستان کے وائسرائے بن کر آئے تھے، نے جزیرہ انڈیمان میں تشدد کا نوٹس لیا اور 1871ء میں قیدیوں کو کچھ سہولیات دینے کا اعلان کیا۔ جس کی وجہ سے لارڈ میو کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوا تھا۔

Musalman qaidiyon se narwa sulook ka anjum part 1

وائسرائے کی بڑی خواہش تھی کہ جزیرہ انڈیمان پر خود جائے اور وہاں پر قیدیوں کی حالت زار کا نوٹس لے۔ اسی پروگرام کے نتیجے میں آٹھ فروری 1872ء کی صبح وہ وہاں پہنچا تھا۔ اس وقت لارڈ کے ہمراہ اس کی بیوی لیڈی میو اور اعلی افسران بھی موجود تھے۔

یہ اپنی نوعیت کا کسی بھی وائسرائے کا جزیرہ انڈیمان کا پہلا دورہ تھا۔ اسی وجہ سے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور قیدیوں کو خصوصی ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں۔ وائسرائے لارڈ میو جیسے ہی وہاں پہنچا تو اس کا استقبال اکیس توپوں کی سلامی سے کیا گیا، جس کے بعد جزیرے کے اعلیٰ افسران لائن میں کھڑے ہوگئے تاکہ وائسرائے لارڈ میو سے ہاتھ ملائیں۔

لارڈ میو نے یہ دن مختلف جگہوں پر قائم ورکشاپ، بیرکس اور فیکٹریوں کے دورے پر لگا دیا، جہاں پر عمر قید کے قیدی کام کرتے تھے۔ دورے کے بعد لارڈ میو رات کے وقت ایک چھوٹے سی پہاڑی جسے اس وقت ماؤنٹ ہیریٹ کا نام دیا گیا تھا، وہاں پہنچا۔

سبزے کی وجہ سے یہاں پر ایک ریزورٹ بھی بنایا گیا تھا۔ یہاں پر لارڈ میو نے اپنی زندگی کے آخری سورج کو غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ بعد میں اندھیرا ہوتے ہی لارڈ میو نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر وہ ایک پل جسے اس وقت امید پل کا نام دیا گیا تھا پہنچا، جہاں پر ایک خاص لانچ کھڑی تھی، جس میں اہلکار بھی موجود تھے۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے