تازہ ترین

مہنگائی کا آسیب

mehngai-ka-aseeb
  • محمد قیصر چوہان
  • اپریل 5, 2023
  • 7:51 شام

مہنگائی اور جرائم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جتنی زیادہ مہنگائی ہوگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح45.64فیصد پر پہنچ گئی۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ابتدائے آفرینش سے انسان کا اولین مسئلہ بھوک رہی ہے ،اب بھی ہے اور ہنیشہ رہے گی۔یہ بھوک مٹانے کیلئے انسان اپنے تئیں کوششیں کرتا آیا ہے لیکن جب اس کی سبیل نہ ہو تو پھرانسان مذہبی تعلیمات تو کیا اخلاقی اور انسانی اقدار تک کو فراموش کرا جاتا ہے۔معاشرہ چھینا جھپٹی اور دیگر اخلاقی جرائم کی راہ پر چل نکلتا ہے ،جس کا انجام خانہ جنگی تک جا پہنچتا ہے۔ عالمی سطح پر گرانی،ڈالر کا بے قابو ہونا اور آئی ایم کی سخت ترین شرائط پر عملدرامد کے بعد وطن عزیز میں مہنگائی کسی آ سیب کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور افسوس کہ جن کا اولین فریضہ عوام کو آسودگی و راحت بہم پہنچانا ہے آپس میں برسر پیکار ہیں ،شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ خودکشیاں کرتے عوام اگر ان کیخلاف نکل آئے تو پھر حالات اس نہج پر آنے میں دیر نہ لگے گی کہ سب کو پچھتانا پڑے۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، دکانداروں نے اپنی مرضی سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے گہرے معاشی اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ڈالر کی اونچی ا ±ڑان اور پاکستانی روپے کی روز بروز گرتی قدر نے مہنگائی کے طوفان کو سونامی میں بدل دیا ہے۔ اب روز بروز اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ پٹرول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر آئے روز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔بجلی اور گیس کی صورتحال بھی پٹرول اور تیل سے مختلف نہیں ہے۔ اپوزیشن اسے حکومت کی نا اہلی قرار دے رہی ہے جبکہ بعض حکومتی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ معاشی بحران گزشتہ حکومت کی نا اہلی کے باعث آیا ہے۔ عوام کی بدقسمتی کا مزید اندازہ کیجیے کہ کسی بھی مقام پر ہمارے سیاست دان یہ نہیں سوچ رہے کہ بحران کیسے بھی آیا، اس کا ذمے دار چاہے کوئی بھی ہو مگر اس سب میں پس تو بیچارے غریب عوام رہے ہیں۔جس کا تعلق نہ تو کسی مل مافیا سے ہے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھے کسی شاہان ِوقت سے۔

انھیں تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنےکیلئے دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے جو اسے میسر نہیں ، اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں کہ چینی، آٹا، گھی، تعلیم اور ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔جب ماں باپ اپنے بچے کیلئے دودھ نہ خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے تو سفید پوش اور غریب عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے گی۔ یہ طبقے آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلات کو پار کریں گے۔بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہاں بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے ہمارے ملک میں روزگار کا سلسلہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ماں اور بہنوں کے زیور بیچ کر ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوسری جانب ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں میں اضافہ ہو نہیں رہا اور ہر ہفتے جب بازار خریداری کے لیے جاتے ہیں تو اشیائے خورونوش کا ایک نیا ریٹ ملتا ہے۔

مہنگائی اور جرائم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جتنی زیادہ مہنگائی ہوگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ مہنگائی جہاں ملکی معیشت کو تباہ کرتی ہے وہیں معاشرے میں جرائم کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح 45 فیصدسے زائدہے ، جو ایک الارمنگ صورتحال ہے۔ تقریباً ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے۔شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی، تو اب مہنگائی کی شرح 2023 جون کے بعد بھی نیچے آنے کی توقع نہیں ہے۔ شعبہ صحت کی بات کی جائے تو ہسپتال کے اخراجات اور ادویات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باعث ہم نے علاج سے کنارہ کشی کر لی ہے۔ سفید پوش طبقے کی تقریباً 80 فیصد آبادی کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے۔ بجلی کے بل، گھی اور پٹرول کی قیمتیں اب اس طبقے کی دسترس سے باہر ہیں۔ سفید پوش اور غریب لوگوں کے ہاں مہمان داری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ان کے بچوں کیلئے حصولِ تعلیم پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا۔ مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے مگر پاکستان میں پیدا ہونے والی یا بننے والی بعض اشیا کی قیمتیں بڑھانے کا کوئی جواز نہیں اور اس میں مڈل مین اور پرچون کی دکان پر فروخت کرنے والے ذمے دار ہیں۔ مختلف شہروں سے آنے جانے والی اشیا کی قیمتیں ٹرانسپورٹ کی لاگت پٹرول یا ڈیزل مہنگا ہونے سے بھی بڑھ جاتی ہیں۔

ہماری تمام حکومتیں صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں،ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں، ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر اپنی ضروریات کی تکمیل کے حصول کیلئے انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے، کوئی بھی ایک دوسرے کی مدد کیلئے تیار نہیں ہے، دولت کے نشے نے آخر میں ما دی ترجیحات کو انسانیت سے بلند کر دیا ہے، ہمارا اقتصادی نظام تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ان حالات کے باوجود اشرافیہ کی عیاشیاں اپنی جگہ پر قائم ہیں اور یہ قربانی کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور ایک وقت کی روٹی کے لالے غریب عوام کو پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے گھر کے اخراجات کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ حکومت اداروں کو منظم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان