تازہ ترین

کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا کا راج

karachi main water tanker mafia ka raaj
  • محمد قیصر چوہان
  • اکتوبر 8, 2021
  • 10:43 شام

سمندر کنارے آباد پاکستان کے معاشی حب کے شہری ٹیکس دینے کے باوجود بوند بوند پانی کو ترسنے لگے۔ چیف جسٹس کی مداخلت بھی شہریوں کو واٹر ٹینکر مافیا کے چنگل سے نجات نہ دلا سکی

کراچی میں ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ سے زائد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق شہر کو مہیا کیے جانے والے پانی کا چالیس فیصد چوری ہوجاتا ہے جو بعد میں مہنگے داموں واپس شہریوں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی میں پانی کے کم ہونے سے زیادہ پانی کی تقسیم اور صحیح طور فراہم نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔ تین ستمبر 2021ء کو وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی نے بھی کراچی کے عوام کو ٹینکر مافیا کا شکار قرار دیا تھا اور وہ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبے کو 35 فیصد کم پانی ملنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مراد علی شاہ پہلے صوبے کے اندر پانی کی چوری روکیں۔

21 جون 2018ء کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عزم کیا تھا کہ وہ کراچی کو ٹینکر مافیا سے نجات دلائیں گے۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ 14 جون 2021ء کو چیف جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی ظاہر کرتے ہوئے یہ سوال اُٹھایا کہ ”جب ٹینکر کو پانی ملتا ہے، تو گھروں میں کیوں نہیں آتا۔؟ ہاکس بے پر سوسائٹیاں بن رہی ہیں، سارا پانی وہاں چلا جاتا ہے۔ کراچی والے کیا کریں؟“

چیف جسٹس گلزار احمد نے ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پانی کی چوری میں سب ملوث ہیں، بااثر لوگوںکو تو پانی مل جاتا ہے، لیکن عام لوگوں کو نہیں ملتا، ایسے میں واٹر بورڈ کا پھر کیا مقصد رہ جاتا ہے۔ ختم کریں ایسا ادارہ!“۔کراچی میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 45 ارب روپے ٹینکر مافیا کے حصے میں آتے ہیں۔ آٹھ نومبر 2018ءکو ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں اس وقت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی فیصل واوڈا نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرینٹ کی ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ روپے یومیہ کی آمدن ہے۔ انھوں نے واٹر بورڈ کو ایک مافیا قرار دیا اور عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ ہائیڈرنٹ توڑ دیں گے۔ لیکن وہ بھی کراچی کے شہریوں کوواٹر ٹینکر مافیا سے نجات دلوانے میں ناکام رہے۔

کراچی میں سروے کے دوران پتا چلا کہ بلدیہ ٹاؤن کے 80 فی صد علاقوں میں گذشتہ کئی برسوں سے پانی نہیں آیا، کورنگی ڈھائی نمبرمیں لگ بھگ 10سال سے پانی نایاب ہے، لانڈھی نمبر پانچ میں دو سال اور گارڈن ”ایسٹ‘‘ میں بھی ایک سال سے بالکل پانی نہیں آیا۔

گلستان جوہر بلاک 12 اور بلاک 19 میں کئی ماہ سے مسئلہ ہے، بلاک ٹو کے بعضے علاقوں میں’ ’والو مین “ کا رحم وکرم چلتا ہے۔ گلشن اقبال بلاک 13 ڈی کے کچھ علاقوں میںآٹھ ماہ سے ایک قطرہ پانی نہیں آیا۔اورنگی ٹاو ¿ن میں پمپنگ اسٹیشن کی کرم فرمائی کے سبب کئی ماہ پانی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کورنگی، شاہ فیصل کالونی میں بھی لوگ اب ”بورنگ “ کے پانی پر گزارا کر رہے ہیں۔ ”شادمان ٹاو ¿ن “ میں پچھلے پانچ سال سے پانی کابحران ہے۔ ڈیفنس میں کہیں 10 اور کہیں 15 برس سے ٹینکروں پر انحصار ہے۔

قیوم آباد میں مہینے میں دو بار بہ مشکل ایک گھنٹے پانی آتا ہے۔ نارتھ کراچی کے سیکٹر 9، سیکٹر 11 بی میں کئی سالوں سے ٹینکر چل رہے ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکے ذرائع کے مطابق بلدیہ، اورنگی، لانڈھی، نرسری، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، گلستانِ جوہر وغیرہ میں ’واٹر بورڈ‘ کے افسران کی ملی بھگت سے پانی کامصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور ’ٹینکر مافیا‘ سے سازباز کرکے پانی بیچا جاتا ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکے ذرائع کے مطابق ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سروسز علی محمد پلیجو (جو 40 سالہ خدمات کے بعد 20 گریڈ میں 16 جنوری 2013ءکو ریٹائر ہوئے تھے) کے زمانے میں ’ ’دھابے جی‘ ‘ کے بعد آگے ایک وسیع علاقے پر ”پلیجو اسٹیٹ“ قائم ہوئی، یعنی یہاں پانی کی تنصیبات کی ساری ذمہ داری پر کچھ مخصوص لوگ ہی تعینات کیے جاتے ہیں، دھابے جی سے آنے والا 25 فی صد پانی شہر تک پہنچنے سے پہلے ہی مختلف فارم ہاو ¿س اور کھیتوں وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے، باقی کسر کراچی کے اردگرد قائم غیر قانونی آبادیوں میں دیئے جانے والے پانی سے پوری ہو جاتی ہے۔

با خبر ذرائع کے مطابق ’’دھابے جی“ سے آنے والی 72 انچ قطر کی لائن میں جا بجا نقب لگا کر مقامی وڈیرے اپنی قبضہ شدہ زمینوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ کچی آبادیوں کو پانی دے کر مقامی بااثر افراد اس کا بل بھی وصول کرتے ہیں۔ آپ کراچی کے کسی بھی علاقے میں نکل جائیے، آپ کو ہر فرد پانی کی اِس چوری چکاری اور ’ ’دو نمبری‘‘ کی کہانی شواہد کے ساتھ سناتا ہوا مل جائے گا کہ کون سے رہائشی منصوبے کو کتنے انچ کی لائن دی گئی، کس کارخانے اور صنعت کو نوازا گیا ہے اور کس سوسائٹی اور ادارے کے لیے کب، کیسے، کہاں سے اور کس کی سرپرستی میں کھانچا لگا کر پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

کراچی کے رہائشیوں کو تو سب پتا ہے، اگر نہیں پتا تو متعلقہ حکام اور ہمارے ذمہ دار اداروں کونہیں پتہ۔منظور کالونی میں 24 انچ قطر کی لائن میں 16 انچ کا ایک واضح ’کنڈا‘ لیا گیا ہے، اس کے علاوہ مبینہ طور پر قرب وجوار کی سوسائٹیوں اور بڑے رہائشی منصوبوں کو بھی کنکشن دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں اب 24 انچ کا پائپ آدھا ہی بھرا ہوا آتا ہے، ہفتے میں ایک دن ہی اس علاقے میں پانی کی باری آتی ہے۔عرفات ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد میں پانچ برس سے پانی نہیں آرہا، لیکن نصف کلومیٹر پر موجود سخی حسن ہائیڈرنٹ سے خوب ٹینکر بھرے جاتے ہیں۔مبینہ طور پر رشوت نہ دینے کی پاداش میں بااثر ”والو مین‘‘ نے پانی بند کر رکھا ہے۔

اس علاقہ کے مکین ”بورنگ‘ ‘ پر گزارا کر رہے ہیں جبکہ انہیں پانی کے بل برابر آرہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ”کنٹونمنٹ بورڈ فیصل “کے علاقے گلستان جوہر بلاک 19 میں ”والو مین“ کی پوری مافیا نے رشوت ستانی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ واٹر بورڈ ’ذرائع‘ نے بتایا کہ ”یہ بات درست ہے کہ بہت سے ’والو‘ سیاسی لوگ کنٹرول کرتے ہیں، لیکن لائن مینوں کی اجارہ داری ہمیشہ سے رہی ہے اور جہاں مفاد ہو، وہاں نہ کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے، نہ رنگ ونسل اور نہ ادارہ، بس مفاد ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی براہ راست پانی کے بحران کے سبب ہے، کیوں کہ جب لائنوں میں پانی ہوگا اور ’والو مین‘ اسے روکیں گے تو لائن پھٹ جائے گی۔

کراچی میں فراہمی آب کے نظام کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے دریائے سندھ کا پانی کینجھر جھیل سے نہرکے ذریعے دھابے جی پمپنگ اسٹیشن آتا ہے، یہاں سے 72 انچ قطر کی 10 لائنیں 200 فٹ بلند مقام ’فور بے‘ تک پانی پہنچاتی ہیں۔ فور بے کے مقام سے یہ پانی ڈھلان سے نارتھ ایسٹ کراچی، سپر ہائی وے پلانٹ پہنچایا جاتا ہے، اس میں 24 گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ ’نارتھ ایسٹ کراچی پلانٹ‘ (این ای کے) سے فلٹریشن اور پمپنگ کے مراحل طے کرتا ہوا شہر کے ضلع شرقی، غربی اور وسطی وغیرہ میں مختلف علاقوں کو پہنچاتا ہے۔”دھابے جی“ پمپنگ اسٹیشن سے روزانہ 145 ملین گیلن پانی پپری پمپنگ اسٹیشن بھیجا جاتا ہے۔

لانڈھی، قائدآباد تک 54 انچ قطر کی دو لائنیں ہیں، جن میں سے ایک لانڈھی کورنگی کے صنعتی اور رہائشی علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہوئی ’’ڈیفنس ویو‘‘ تک آتی ہے اور یہاں پر ڈیفنس کا پمپنگ اسٹیشن موجود ہے، جسے واٹر بورڈ طے شدہ معاہدے کے تحت 80 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری لائن ملیر تک پانی فراہم کرتی ہے۔حب ڈیم کے پانی کا دار و مدار صرف بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں پر ہے۔”حب ڈیم سے پانی حب کینال“ سے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک آتا ہے، جہاں روزانہ 80 ملین گیلن فلٹر شدہ اور 20 ملین بغیر فلٹر پانی کراچی کے چار ٹاﺅن کو فراہم کیا جاتا ہے۔

کراچی میں پانی کی تقسیم کا انتظام تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ انگریز سرکار نے شہر کو پانی کی سپلائی کے لیے ڈملوٹی کنڈیوٹ کا نظام متعارف کروایا تھا۔ کنڈیوٹ سے مراد پانی سپلائی کرنے والی ایک بڑی سرنگ سے ہے جس کا سائز مختلف ہوسکتا ہے۔ ڈملوٹی کنڈیوٹ ملیر کینٹ سے شروع ہوکر لائنز ایریا کے علاقے میں واقع ٹیمپل کری ریزوائر (لائنز ایریا میں زیرِ زمین پانی کا ایک بڑا ذخیرہ) تک پانی پہنچاتی ہے۔ ملیر کے گردونواح میں بہت سے کنویں موجود تھے جن سے پانی نکال کر ڈملوٹی کنڈیوٹ کے ذریعے شہر کی جانب بھیجا جاتا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد کراچی شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ڈملوٹی کے کنویں خشک ہوتے گئے۔ بعد ازاں واٹر بورڈ نے جامعہ کراچی کیمپس کے اندر سے گزرنے والی 84 انچ قطر کی بڑی لائن سے انٹر کنکٹ کرکے ڈملوٹی کنڈیوٹ میں پانی ڈالنا شروع کردیا جو شہر کے ایک جانب ملیر کینٹ اور دوسری طرف لائنز ایریا تک جاتا ہے۔ لائنز ایریا کے بڑے ذخیرہ آب سے سپریم کورٹ رجسٹری اور برنس روڈ تک اور دوسری طرف ایف ٹی سی بلڈنگ، شاہراہ فیصل کے اطراف کے علاقوں تک پانی سپلائی ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کو فراہمی آب کے لیے صرف ڈملوٹی کنڈیوٹ موجود تھی۔

1957ء میں پہلی مرتبہ کراچی کے لیے پانی کا کوٹہ تجویز کیا گیا جس کے مطابق دریائے سندھ سے 242 ملین گیلن روزانہ ربیع کے موسم میں جبکہ خریف کے موسم میں 280 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جانا تھا جو تقریباً 475 کیوسک بنتا ہے۔1957ء سے 1988ء تک یہ صرف ایک تجویز ہی رہی اور اس پانی کی فراہمی کے لیے کوئی عملی کام نہیں ہوسکا تھا۔ سابق ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے ’یو آر سی‘ (اربن ریسورس سینٹر) کی ایک رپورٹ میں بتایا 100 ملین گیلن کا ’کے تھری‘ ایشیا کا سب سے بڑا فراہمی آب کا منصوبہ تھا۔

دنیا کا سب سے بڑا واٹر پمپنگ اسٹیشن دھابے جی پمپنگ کمپلیکس 1958ء میں شروع ہوا اور 280 ملین گیلن کا ایک سسٹم ’کے ڈی اے“ کے زیرانتظام ڈالا گیا۔جس کا نام ”گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم“ رکھا گیا، لیکن اس میں ابتدائی طور پر پمپنگ کی صلاحیت صرف 72 لاکھ گیلن تھی، 1998ء میں کراچی کو 280 لاکھ گیلن کا کوٹا پورا فراہم ہو گیا اور دریائے سندھ سے 600 کیوسک کا کوٹا جنرل ضیا الحق نے 1200 کیوسک کر دیا تو ’عالمی بینک‘ کی 11 کروڑ کی امداد سے ’کے ٹو‘ واٹر سپلائی سسٹم دھابے جی میں لگایا گیا۔

2002ء میں مشرف سے منظوری لے کر چھ ارب روپے کی گرانٹ سے ’کے تھری‘ منصوبہ شروع کیا گیا۔یہ منصوبہ 2003ء تا 2006ء رہا۔ یہ اسکیم 140 ملین گیلن کی تھی، جس میں 100 ملین گیلن سپلائی کرنا تھا اور 40 ملین کے پمپس اسٹینڈ بائے تھے۔ واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق کراچی والے ’کے تھری‘ کا پانی تو تلاش کرتے ہی رہ گئے۔ ’کے تھری‘ صرف اِدھر کا پانی اُدھر کر کے چلایا گیا، اس سے کراچی میں فراہمی آب کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ جاپانی ادارے ’جائیکا‘ (JICA)  کی تحقیق کے مطابق ہمیں ہر تین سال بعد 100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی بڑھانی چاہیے، جبکہ 2006کے بعد پانی کا ایک قطرہ بھی اضافہ نہیں ہو سکا۔

14 جون 2021ءکو پانی سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ”لیاری ایکسپریس وے کے نیچے بورنگ ہو رہی ہے، یہ پ ±ل کسی دن گر جائے گا!“۔یہ بات بالکل درست ہے کہ بے دریغ بورنگ کراچی کی زمینی حالت کے لیے نہایت خطرناک ہے، لیکن پانی کے ستائے ہوئے لوگوں کے پاس آخری راستہ ’بورنگ‘ ہی رہ جاتا ہے، جس سے زیرِ زمین پانی گَھٹ رہا ہے اور زمین کے دھنساﺅ کے واقعات پیش آرہے ہیں۔

4 جون 2021ء کو ’کلب روڈ‘ پر بھی سڑک کے دھنسے کا ایک واقعہ پیش آیا، خدانخواستہ یہ دھنساﺅ اگر کسی بلند عمارت کی بنیادوں میں ہو تو صورت حال بہت خوف ناک ہوسکتی ہے۔کراچی کے بعض علاقوں میں اب لوگوں میں زیادہ سے زیادہ پانی کے حصول کے لیے گہری سے گہری بورنگ کرانے کا ایک ’مقابلہ‘ ہوتا ہے۔ گڈاپ ٹاﺅن میں کنویں سے چھے سے 800 فٹ گہرائی پر پانی نکلتا ہے، اس لیے وہاں آٹھ سے 10 کلو میٹر دور (جہاں زیرزمین پانی ذرا اوپر ہے) سے پانی منگایا جاتا ہے۔

”بورنگ‘‘ یا ’’سب سوائل‘‘ کا معاملہ صرف نجی نہیں، بلکہ اب یہ باقاعدہ وسیع پیمانے پر جاری وساری ہے۔ بورنگ کے پانی نام پر شہر کے بیش تر علاقوں میں ’واٹر بورڈ‘ کی لائنوں میں نقب لگانے کی شکایات موجود ہیں۔ ناظم آباد میں پانی کی مرکزی لائن سے کچھ فاصلے پر باقاعدہ سرنگ کھود کر نقب لگانے کی واردات بھی سامنے آچکی ہے۔ کچھ عرصے قبل ’گل بہار‘ میں صرف پانی نکالنے کے لیے مہنگے داموں مکان خریدے گئے۔نومبر 2020ءکی ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق برساتی نالوں کے قریب مہنگے داموں گھر لے کر وہاں سے کروڑوں گیلن پانی بہ ذریعہ لائن صنعتوں کو فراہم کیا جا رہا ہے، جس سے مبینہ طور پر آٹھ ارب روپے سالانہ کمائے جا رہے ہیں۔
واٹر بورڈ کے ایک آفیسرنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ ”زیرزمین پانی یعنی ’سب سوائل‘ واٹر کے نام پر انڈسٹریل ایریا میں بڑے پیمانے پر واٹر بورڈ کے مساوی لائنیں ڈال کر میٹھا پانی چوری کیا جا رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور ’واٹر بورڈ‘ کے افسران کی ملی بھگت سے 30 سے 40 کمپنیاں مختلف ناموں سے یہ کام کر رہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق بورنگ سے حاصل ہونے والا پانی پائپ لائنیں بچھا کر ’سائٹ‘ میں واقع صنعتوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔پانی مافیا ’سائٹ‘ میں واقع صنعتوں کو یومیہ 49 ملین یعنی 4 کروڑ 90 لاکھ گیلن پانی، 45 پیسے فی گیلن کے حساب سے فروخت کرتا ہے، جس سے روزانہ 2 کروڑ 20 لاکھ، ماہانہ 66 کروڑ 15 لاکھ یعنی سالانہ 8 ارب روپے کمائے جاتے ہیں۔

واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق نے ”دراصل ہائیڈرنٹ مافیا پانی کا بحران دور کرنے نہیں دیتے، شہر میں آج بھی نہ صرف غیرقانونی ہائیڈرنٹ موجود ہیں، بلکہ واٹر بورڈ کی بڑی لائن میں جھاڑیوں کی آڑ میں نقب لگا کر ٹینکر بھی بھرے جا رہے ہیں۔ ”ہائیڈرنٹ مافیا“ نے پیسے لگائے ہوئے ہیں، وہ باقاعدہ بحران پیدا کراتے ہیں اور اس میں ہر ایک کا حصہ ہے، اسے کوئی بند نہیں کرا سکتا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کا نام لیتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ ٹینکر خریدنے پر مجبور گلشن اقبال اور گلبرگ بھی کیا ”ٹیل اینڈ“ ہیں؟۔ہائیڈرنٹ کو 12 انچ کی لائنیں دی گئی ہیں، کسی کے پاس دو، دو لائنیں بھی ہیں۔

ان سے معاہدے کے تحت 12 سے 14 گھنٹے کا وقت ہے، لیکن عملاً انھیں 20 سے 24 گھنٹے فراہمی کی جاتی ہے۔ ہائیڈرینٹ کو فراہم کیا جانے والا پانی شہر کو ملنے والے کل پانی کا تقریباً 20 فی صد ہے۔ کبھی بڑے بڑے ٹینکر ’ہائیڈرینٹ‘ سے پانی بھر کر مختلف علاقوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہاں ’نجی ٹینکر سروس‘ کے نام پر من پسند قیمت پر لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے خریدار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں فوری ٹینکر مطلوب ہوتا ہے۔

کراچی واٹربورڈ کے ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ کا ’ڈی ایچ اے‘ سے 27 ملین گیلن یومیہ کا معاہدہ تھا، جسے پورا نہ کرسکے، تو پھر ٹینکر سے ازالہ کیا گیا، کیونکہ پہلے ’واٹر بورڈ‘ پانی اور لانے کے اخراجات خود ادا کرتا تھا۔ یہ ’گورنمنٹ سپلائی‘ کہلاتی تھی۔ دراصل شہر کے صاحب ثروت علاقوں اور صنعتوں کو پانی کا بحران کر کے یہ ’ٹیسٹ‘ کیا گیا۔ اس سے ’پرائیویٹ ٹینکر‘ کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔

1990ء کی دہائی میں مسلم آباد ہائیڈرنٹ رینجرز نے اپنی تحویل میں لیا کہ یہاں سے پیسہ ’ایم کیو ایم‘ کو جاتا ہے۔ اس کے بعد ٹینکر کے چارجز لیے جانے شروع ہوئے، پھر ضلعی حکومتوں کے زمانے میں یہ ہائیڈرنٹ واپس ہوگئے۔ 1999ء میں ٹینکر سپلائی پاکستان رینجرز کے پاس تھی، تو شہریوں سے سروس چارجز وصول کیے جانے لگے۔ 2006ء میں ٹینکر سروس دوبارہ ’واٹر بورڈ‘ نے لی اور سروس چارجز کی وصولی بھی شروع کر دی گئی۔ ا ±س وقت شہر کے 18 ٹاؤن میں 23 ہائیڈرنٹ قائم کیے گئے اور ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے نام پر کمپیوٹرائزڈ بلنگ میٹر کے ذریعے کی جاتی تھی، مختلف ٹاؤن پر اس وقت تقریباً 50 کروڑ سے زیادہ کے بقایا جات تھے، جو وصول نہیں کیے جا سکے۔

یہ واٹر بورڈ کے بلک کنزیومر کے ریکارڈ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب جو چھ ہائیڈرنٹ ہیں، ان کا بلنگ کا ریکارڈ ’بَلک ڈائریکٹر کے پاس بھی موجود نہیں، نہ کمپیوٹر سے کنزیومر نمبر الاٹ کیا گیا ہے، یعنی بڑے پیمانے پر کرپشن جاری ہے، جب پانی کا بھاﺅ 242 روپے فی ہزار گیلن تھا تو وصولی تقریباً 9 سے 10 کروڑ روپے ہوتی تھی، آج پانی کا بھاﺅ 372 روپے فی ہزار گیلن ہیں، مگر وصولی پانچ سے چھے کروڑ روپے ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف سرکاری اداروں کے اہل کاروں کے گھروں میں بھی بلا معاوضہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق 2017ء سے قبل شہر میں تقریباً 90 ہائیڈرنٹ تھے، جن میں 22 کے قریب قانونی اور باقی مافیا کے زیرِانتظام تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ضلعی سطح پر صرف ایک ہائیڈرنٹ بنایا جائے، جس کے لیے واٹر بورڈ پانی کے نرخ کا تعین کرے اور تشہیر بھی کرے۔ پھر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن بنایا گیا، 2017ءمیں واٹر کمیشن نے ہر ضلع کے لیے ایک ہائیڈرنٹ والے فیصلے پر عمل کروانا شروع کردیا تھا۔

اس وقت پانی کی فی ہزار گیلن قیمت ایک ہزار روپے ہے، جب کہ ٹینکر 10 کلومیٹر کے دائرے سے باہر ہر کلومیٹر کے 65 روپے فی کلو میٹر کرایہ وصول کرنے کا مجاز ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ذرائع کے مطابق روزانہ 30 ملین گیلن پانی ہائیڈرنٹ سے جاتا ہے اور تقریباً 30 ہزار ٹینکر روزانہ بھرے جاتے ہیں، زیادہ تر ٹینکر ڈیفنس، کلفٹن اور انڈسٹریل ایریا میں پانی سپلائی کرتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر کوٹے میں 200 مفت ٹینکر منظور کیے تھے، اس کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، یہ وہ ٹینکر ہیں جو ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر فراہم کیے جاتے ہیں۔ سابق ایم ڈی شیخ خالد محمود نے مفت ٹینکر ختم کردیے تھے اور آن لائن بکنگ کا سلسلہ شروع کرایا تھا۔ ان کے بعد آنے والے ایم ڈی اسد اللہ خان نے دوبارہ مفت سروس شروع کر ائی اور بڑے پیمانے پر ’ڈی سی‘ کوٹے کے نام پر ٹینکر فروخت ہو رہے ہیں۔گھریلو صارفین تقریباً تین یا سوا تین لاکھ سے سروس چارجز تقریباً 25 سے 30 کروڑ ماہانہ وصول ہو پاتے ہیں۔ یعنی 25 سے 30 فی صد رہائشی صارفین سروس چارجز کی ادائیگی کرتے ہیں۔

واٹر بورڈ کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ ”واٹر بورڈ کے نو ہزار ’بلک کنزیومر‘ ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ’بَلک‘ سے کنکشن لیتا ہے اور کراچی کے گوٹھوں اور کچی آبادیوں کو پانی دیتا ہے، ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، ایکسپورٹ پروسسنگ زون، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، سائٹ لمیٹڈ، بحریہ ٹاﺅن وغیرہ بلک کنزیومر میں شامل ہیں۔ اندرونی فراہمی یہ ادارے خود کرتے ہیں اور پانی کے سروس چارجز بھی وصول کرتے ہیں۔ واٹر بورڈ میں 125 ملین گیلن یومیہ کی بلنگ ’بَلک‘ صارفین کو کی جاتی ہے، جس سے ماہانہ 50 سے 55 کروڑ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 11 لاکھ 85 ہزار رہائشی کنکشن ہیں۔“

کراچی کے 678 ملین گیلن یومیہ پانی میں ’بَلک صارفین‘ کا تناسب تقریباً ساڑھے 18 فی صد بنتا ہے۔’واٹر بورڈ‘ سے بڑے پیمانے پر پانی لے کر نجی طور پر بیچنے کے نظام کے حوالے سے واٹر بورڈ ’ذرایع‘ نے بتایا کہ ” کراچی کے تین صنعتی علاقوں (سائٹ، کورنگی اور نارتھ کراچی) میں ’پرائیویٹ مافیا‘ لائنوں سے پانی فراہم کر رہا ہے۔ واٹر بورڈ کا پانی آگے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ انھیں یہ اجازت کس نے دی؟ ۔کسی ایک مخصوص شخص کی اتنی طاقت ہے کہ وہ سب کو پانی فراہم کر رہا ہے، اس کے پاس واٹر بورڈ کا پانی بھی ہے اور بورنگ ملا ہوا پانی بھی۔ صنعتوں میں پانی کی کھپت لاکھوں گیلن ہے، ایک فیکٹری 50 لاکھ گیلن پانی لیتی ہے۔ وہاں اس کی باقاعدہ کمپیوٹرازڈ بلنگ ہوتی ہے۔

کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پانی کی کمی بھی شدت اختیار کرلیتی ہے، اور لوگ گھنٹوں نلکوں سے پانی کے منتظر رہتے ہیں۔ غریب علاقوں میں مرد ملازمتوں پر نکل جاتے ہیں اور پانی بھرنے کی زیادہ تر ذمہ داری خواتین اور بچوں پر عائد ہوتی ہے،۔گھر کے دیگر معاملات کے ساتھ انہیں پانی کے ایک ایک گلاس کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔

شہر کے جن علاقوں میں نلکوں کے ذریعے پانی کی فراہمی ہو رہی ہے اس میں بھی اکثریت آلودہ پانی کی ہے جس کی وجہ سے شہر میں پانی سے پیدا ہونے والے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے خاص طور پر گرمیوں میں پانی کا استعمال بڑھنے کے ساتھ گیسٹرو کے مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ شہر کے کئی علاقوں میں پینے کے پانی کی لائن کا گندے پانی کے نالوں کے قریب یا اندر سے گزرنا ہے۔ گندا پانی ابالنے کے باوجود 10 فی صد جراثیم باقی رہ جاتے ہیں۔ گندے پانی کی لائنوں سے رساﺅ کے سبب ’بورنگ‘ کا پانی بھی آلودہ ہے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے 29 بڑے شہروں میں کروڑوں افراد آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جس میں کراچی میں فراہم کیا جانے والا پانی 93 فی صد آلودہ ہے۔ محفوظ سطح سے نیچے پانی میں آرسینک کا استعمال صحت سے متعلقہ سنگین پیچیدگیوں کا باعث ہوتا ہے۔پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ اموات پانی کی ہی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہر ایک ہزار میں سے 101 اموات آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

غیر نامیاتی آرسینک کا استعمال جلد کے کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ کراچی میں ’کلورین‘ نہ ملائے جانے کی وجہ سے آئے دن ’نیگلیریا‘ کی وجہ سے جانیں ضایع ہوتی ہیں۔ یہ جرثومہ ناک سے انسان کے دماغ میں پہنچ کر اسے نقصان پہنچاتا ہے۔ پانی کے بحران کے باعث شہریوں کی زندگی بری طرح سے متاثر ہے۔ گھر کے کفیل آفس جانے کے بجائے پانی بھرنے کے لئے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد چند گیلن پانی نصیب ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اتنی سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے کہ پانی کا استعمال گھروں میں جھگڑے کا باعث بن رہا ہے۔

لائن کے پانی کے علاوہ بورنگ کا کھارہ پانی بھی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ شہر میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث زیرِ زمین پانی بھی خشک ہو چکا ہے۔ سینکڑوں فٹ بورنگ کروانے کے باوجود بھی پانی کا نام تک نہیں مل رہا۔ اور اس کے علاوہ بورنگ کے اخراجات بھی اس قدر زیادہ ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد یہ قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ حکمرانوں کو تو پینے کے لیے امپورٹڈ پانی دستیاب ہے انہیں عوام کا خیال نہیں ہے۔ اگر عوام کے ساتھ حکمرانوں کا یہی امتیازی سلوک جاری رہا اور کراچی میں پانی کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل نہ کیا گیا تو شہر میں پانی کے مسئلے پر قتل و غارت گری کا خطرہ نظر آرہا ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان