تازہ ترین

عمران خان کو خواتین سے بڑی محبت اور لگاؤ ہے۔ جسٹس وجیہ

WhatsApp Image 2020-06-01 at 1.01.48 AM
  • واضح رہے
  • جون 1, 2020
  • 1:15 صبح

عدالتی اصلاحات کے نام پر بنائی گئی کمیٹیوں میں سے ایک کا کام خواتین اور نابالغان قیدیوں کے حالات میں بہتری لانا ہے۔ حالانکہ پورے جیل کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین عام لوگ اتحاد

عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو برسرِ اقتدار آئے 2 سال ہونے والے ہیں۔ قوم نے اس حکومت کے ذریعے کیا کھویا کا پایا، یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے پی ٹی آئی نے پروسیجرل (طریق ہائے کار وضع کرنے والے) قوانین میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ ان تبدیلیوں سے مرتب مثبت یا منفی اثرات کے بارے میں بھی کچھ بتایا جاتا۔

وزیر اعظم نے 29 مئی کو ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کا ملک کے عدالتی نظام پر سے اعتماد تقریباً متزلزل ہوچکا ہے اور وہ اب نظام کی بہتری کیلئے پی ٹی آئی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے دو کمیٹیاں تشکیل دیں۔ پہلی کمیٹی کا کام آئینی اصلاحات سے متعلق ہے، جس کے ذریعے سے کرمنل جسٹس سسٹم، پولیس کلچر، کیسوں کی رجسٹریشن، تفتیش اور جیل خانہ جات کے نظام کے سلسلے میں تجاویز بہم پہنچانا ہے۔

جسٹس وجیہ نے سوال کیا کہ اس میں عدلیہ کا معاملہ کہاں سے آگیا۔ عدلیہ سے مراد ریاست کے جج، بحیثیت مجموعی، سمجھے جاتے ہیں۔ اب پہلی کمیٹی کے بارے میں جس معاملے کی بات ہوئی ہے، بنیادی طور پر اس کا تعلق پولیس کی کارکردگی اور جیل خانہ جات سے ہے۔ اس کا واسطہ عدلیہ سے بحیثیت مجموعی بالکل نہیں ہے۔ عمران خان اس طرح کی پوائنٹ اسکورنگ اور بلند و بانگ دعوے جب اپوزیشن میں تھے تب بھی کرتے رہے اور اب بھی اس سوچ نے ان کی جان کو چھوڑا نہیں۔

تشکیل دی گئی دوسری کمیٹی میں بہت سارے لوگ ہیں۔ بنیادی طور پر یہ افسر شاہی سے متعلق ہیں اور سربراہی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کر رہے ہیں۔ دوسری کمیٹی کا کام یہ ہے کہ وہ خواتین اور ساتھ بچے، جو جیل میں ہیں ان کے حالات کی طرف توجہ کرکے بہتری لائیں۔

اب انہیں کون بتائے کہ پورے جیل کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ جیلیں ٹارچر سیل نہیں ہوا کرتیں، یہ بنیادی طور پر اصلاحات کے ادارے ہیں، جہاں پر لوگ اپنے گزشتہ کردار کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ اور جب واپس آتے ہیں تو بہتر شہری بن سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں کی جیلوں میں حالت صعوبت خانوں جیسی ہے۔ خواہ مرد و خواتین قیدی ہوں یا نابالغان ملزم قیدی، سب کا ایک جیسا حال ہے۔ یہاں اگر کوئی جیل جاتا ہے تو وہ ہٹ دھرم کرمنل بن کر باہر نکلتا ہے۔ وزیر اعظم کی خواتین سے محبت اور لگاؤ ایک طرف، لیکن یہ جیل اصلاحات تو ساری جیلوں میں ہونی چاہئیں۔ جہاں تک تفتیش کا تعلق ہے، یہ معاملہ بھی پولیس کا ہے۔ اسی طرح کیسوں کی رجسٹریشن بھی پولیس کی دسترس میں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ان تمام چیزوں کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، سب انتظامی مسائل ہیں۔ وزیر اعظم نے، بچے جن سے کچھ وجوہات کی بنا پرجرائم سرزرد ہوجاتے ہیں،ان کا کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں عمران خان کو ملک کے وزیراعظم ہونے کے ناتے پوری قوم کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اور یہ کہ انہیں گزشتہ حکومتوں کی مانند عدلیہ سے الجھنا نہیں چاہئے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ہماری عدلیہ مثالی ادارہ ہے، لیکن جتنے بھی سرکاری ادارے ملک میں ہیں، ان سے بہتر ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ عدلیہ میں بہتری کی گنجائش نہیں ہے۔ گنجائش بالکل ہے۔ لیکن وزیراعظم نے جو دو کمیٹیاں بنائی ہیں ان کا تعلق عدالتی اصلاحات سے بالکل نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں عدلیہ کو نہ گھسیٹیں۔ پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں۔ دراصل ان دونوں کمیٹیوں کا تعلق انتظامیہ کی کارکردگی سے ہے۔ اگر عدالتی نظام کی خامیوں کو دور کرنا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ وفاقی وزراء بیٹھیں اور معاملات کو سمجھیں۔ لیکن عدلیہ کے خلاف آپ کا جو چورن ہے وہ نہیں بکے گا۔ ملک کے وزیراعظم کو اس طرح کی باتیں زیب بھی نہیں دیتیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے