تازہ ترین

حقیقی قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعزازات

haqeeqi qomi hero abdul qadeer khan ke aizazat
  • واضح رہے
  • اکتوبر 10, 2022
  • 8:12 شام

پاکستان کو مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کرکے ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنانے والے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر 10 اکتوبر 2021ء کو دارفانی سے کوچ کر گئے تھے

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈ ملے۔ انہیں 2 ملک کا سب سے بڑے سول اعزاز بار نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، جبکہ ہلالِ امتیاز بھی عطاء کیا گیا۔

پہلی بار 14 اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے نشانِ امتہاز سے نوازا اور پھر 28 مئی 1998ء کو بلوچستان کے شہر چاغی میں کئے گئے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس 1999ء میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انہیں یہ اعزاز دیا تھا۔ قبل ازیں 1989ء میں انہیں ہلالِ امتیاز کے اعلیٰ سول اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

نیوکلیئر پروگرام کیلئے امریکہ سے پاکستان لائے گئے ڈاکٹر افضل خان نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر عبدا لقدیر خان وزیراعظم کے اختیارات بھی رکھتے تھے۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر افضل نے دعویٰ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بہت بڑا کام کر کے گئے تھے جو ریکارڈیڈ یا ڈاکیومنٹیڈ نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وزیراعظم کے برابر اختیارات دیئے تھے، جن میں وفاقی حکومت، مسلح افواج، فنانشل اور مینجمنٹ سمیت لگ بھگ تمام اختیارات شامل تھے۔

عبدالقدیر خان اپریل 1936ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، وہ اہلِ خانہ کے ہمراہ 1952ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ وہ اس وقت میٹرک کا امتحان پاس کر چکے تھے۔ انجینئرنگ کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے جرمنی چلے گئے۔ پھر انہوں نے انجینئرنگ کی ڈگری 1967ء میں نیدر لینڈز کی ایک یونیورسٹی سے حاصل کی۔

انہوں نے بیلجیئم کی ایک یونیورسٹی سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ بعدازاں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔ 1974ء میں بھارت نے راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکا کر کے دنیا کو حیران کر دیا اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑ کر پاکستان کیلئے خطرات پیدا کر دیئے۔

 بھارت 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے پر کامیاب ہو چکا تھا۔ اس کا ایٹمی طاقت بننا پاکستان کیلئے کھلا خطرہ تھا۔ انہی ایام میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام سب سے پہلے 1974ء میں سننے میں آیا جب انہوں نے پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے عزم کو دیکھتے ہوئے انہیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے ادارے کو پاکستان کے عوام میں اس طرح مقبول کردیا اور عوام کو سمجھا دیا کہ اس ادارے کا کام کرنا پاکستان کی بقا کیلئے ضروری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں حکمران بدلتے رہے، لیکن کسی کو کبھی یہ جرات نہ ہوئی کہ اس پروگرام کو ختم کرسکے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دیگر پاکستانی سائنسدانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور سائنسدانوں کی اس ٹیم نے اپنی ان تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزودگی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ ان کا نام پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔

عبدالقدیر خان اور پاکستانی سائنسدانوں نے پاکستان کو دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا نہ کرتے تو شاید پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے مذموم عزائم کے آگے اپنی جوہری قوت کے ذریعے بند باندھنے میں مزید کئی سال کا عرصہ لگ جاتا اور اس وقت تک حالات کس ڈگر پر جا نکلتے اس بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف پاکستان کی بقا اور استحکام کیلئے کام کیا بلکہ خطے میں قیامِ امن اور طاقت کے توازن کو قائم کرنے کیلئے بھی ایسی جدوجہد کی جس کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، جہاں ان کا شمار دنیا کے ممتاز سائنسدانوں میں ہوتا تھا، وہیں شعر و ادب سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ اعلیٰ پائے کے شاعر اور نثر نگار بھی تھے، ان کی شاعری اور نثر کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ فلاحی اور رفاہی کاموں میں دن رات مصروف رہتے تھے۔

ان کے بے شمار رفاہی کاموں میں ان کا سب سے بڑا منصوبہ لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان اسپتال ہے، جہاں غریب، نادار اور مستحق لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، ادویات بھی مفت ہی فراہم کی جاتی ہیں۔ اسپتال میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ایک ڈائیلسز سینٹر بھی ہے، جہاں غریب غرباء کے ٹیسٹ اور ڈائیلسز کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی دی جاتی ہیں۔

ملک کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے اس قومی ہیرو کے ساتھ ہم نے ان کے شایان شان سلوک نہیں کیا۔ ان کی شخصیت کئی حوالوں سے تنازعات کا شکار رہی، پہلے ان پر ہالینڈ سے ایٹمی معلومات چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس سے وہ باعزت بری ہوئے تو 2004ء میں سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں ایک دفعہ پھر حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کی چارج شیٹ لگا دی گئی، انھیں اپنے گھر میں نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔

پانچ برس بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر یہ نظربندی تو ختم ہوگئی لیکن اپنی وفات تک انہیں کبھی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ملی۔ اس سلوک سے وہ آزردہ رہے اور انہیں اس سے کافی دکھ پہنچا۔ پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جو سلوک روا رکھا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ لیکن پاکستانی قوم نے ہمیشہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنا حقیقی قومی ہیرو سمجھا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ پاکستانی قوم کا سرمایہ افتخار تھے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے