تازہ ترین

گزشتہ 21 برس میں کوئلے کی کانوں میں 2500 مزدور جان سے گئے

guzishta 21 baras main coal mines main 2500 mazdoor jaan se gae
  • واضح رہے
  • جون 22, 2022
  • 11:27 صبح

غیر قانونی مائننگ کی وجہ سے کوئلے کی کانوں میں حادثات کے باعث اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ انڈسٹری آل گلوبل یونین کے زیر اہتمام ”ورکرز رائٹس ورکشاپ“ کا احوال

رپورٹ: محمد قیصر چوہان

انڈسٹری آل گلوبل یونین ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن ہے، جو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) سمیت مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیموں اور کثیر قومی آجران کے ساتھ مل کر عالمی معاہدوں کے ذریعے مزدوروں کی صحت و سلامتی اور حفاظت کے بہتر عالمی معیارات یقینی بنانے سمیت ورکرز رائٹس کیلئے سر گرم ہے۔

انڈسٹری آل گلوبل یونین نے گزشتہ دنوں ساﺅتھ ایشیا یونین بلڈنگ اینڈ ملٹی نیشنل کمپنیز سپلائی چائنہ پروجیکٹ کے تحت ”ورکرز رائٹس ورکشاپ“ منعقد کی۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے لیکن پسماندہ ترین صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقدہ ہونے والی دور وزہ ورکشاپ کی میزبانی پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن نے کی۔

”ورکرز رائٹس ورکشاپ“ کے انعقاد کا مقصد ملک بھر میں موجود کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی صحت و سلامتی اور حفاظت سمیت ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔اس ورکشاپ میںحکومت اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے نمائندے سمیت ملک بھر سے مختلف مائنز لیبر تنظیموں سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ورکشاپ کو انتہائی شاندار طریقے سے آرگنائز کرنے کا تمام تر کریڈٹ انڈسٹری آل گلوبل یونین کے پاکستان میں موجود پراجیکٹ کوآڈی نیٹر تنویر نذیر اور پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلطان محمد خان کو جاتا ہے۔

کوئلے کا شمار توانائی کے اہم اور قدیم ذرائع میں ہوتا ہے، پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ اس کے چاروں صوبوں میں 185.175 ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں کوئلہ تھرمل بجلی پیدا کرنے، اینٹیں پکانے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

اس وقت پنجاب میں کوہستان نمک کے علاقے میں زیادہ تر کوئلہ ڈنڈوت ،پڈھ ، مکڑوال اور چوا سیدن شاہ کے مقامات سے نکالا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں کوئلے کی کانیں تھر، سارنگ اور لاکھڑا میں واقع ہیں۔ خیبرپختون میں ہنگو، اورکزئی ایجنسی کے علاقوں اپر، لوئر اور سینٹرل اورکزئی کے مقامات پر تقریباً 200 کے قریب کوئلے کے کانیں موجود ہیں۔

تاہم اعلی قسم کا کوئلہ شیخان قبیلے کے علاقے میں پایا جاتا ہے جہاں تقربناً 100 سے زیادہ کانیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ خادی زئی، مشتی اور کلایہ میں بھی درجنوں کانیں موجود ہیں۔ بلوچستان میںدکی، مچھ، بولان، سورنج، چملانگ، ہرنائی، خوست، شارگ، ڈیگاری اور شیریں آب سمیت دیگر علاقوں میں کوئلے کی کانوں سے کوئلہ نکالا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چملانگ کے علاقے میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو 60 کلومیٹر طویل اور 20 کلومیٹر چوڑا ہے۔ یہاں موجود کوئلے کی مالیت اربوں روپے ہے۔

کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے سنہرے لوگ جن کے چہروں پر کوئلے کے سیاہ دھبے ہوتے ہیں مگر ان کی آنکھیں اُمید سے روشن ہوتی ہیں، وطن عزیز کو روشن کرنے کی اُمید، ارض پاک کی صنعتوں کا پہیہ چلانے کی آس، پاک سرزمین کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے خواب لئے یہ کان کن سینکڑوں فٹ زیر زمین اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں، جو نہ صرف اپنے وطن کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کان کنوں کیلئے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور کوئلے کے مزدور کو درپیش بے پناہ مسائل حل کرنے کیلئے کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے۔ 2000ء سے لے کر 2021ء تک کوئلے کی کانوں میں 2500 سے زائد کان کن جاں بحق ہوچکے ہیں۔

ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔اس کے بعد انڈسٹری آل گلوبل یونین کے پاکستان میں موجود پروجیکٹ کوآرڈی نیٹر تنویر نذیر نے ورکشاپ میں شرکت کرنے والے مندوبین کو خوش آمدید کہا اور انہیں ”ورکرزرائٹس ورکشاپ“ کے بنیادی مقاصد اور انڈسٹری آل گلوبل یونین کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے نمائندے عبداحلیم خان نے ورکشاپ کے شرکا کو انڈسٹری آل گلوبل یونین پاکستان کے صدر سلطان محمد خان کی مرتب کردہ کوئلے کی کانوں میں کان کنوں کی صحت و سلامتی کے متعلق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن 176 کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ پیش کی۔

”ورکرز رائٹس ورکشاپ“ کے اعلامیے کے مطابق جب کوئی مزدور کسی مائن میں مزدوری کرنے جائے توسب سے پہلے وہ مائن مالک سے کم از کم چھے ماہ کا معاہدہ کرے ۔جس میں تنخواہ اور اوقات کار، ہیلتھ انشورنش، سوشل سیکورٹی، ای اوبی آئی کے معاملات طے کیے جائیں۔کسی بھی مزدور سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کروانا ظلم کے مترادف ہے، مزدور کو پیشگی قرض لینے سے گریز کرنا چاہئے اگر مجبوری کے تحت قرض لینا بھی پڑ جائے تو مالک اس مزدور کی تنخوا سے نہ کاٹے بلکہ اس کیلئے کوئی اور میکانزم بنایا جائے۔ اور نہ ہی اس قرض کے بدلے فری میں کام لیا جائے۔ یہ ترامیم مائنز ایکٹ میں ضرور کی جائیں۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس بلوچستان کی ممبر میڈم فرخندہ نے ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی ایک مشکل ترین اور جان لیوا کام ہے ۔اس شعبے میں کم عمر بچوں سے مزدوری کروا کر معاشرتی ڈھانچہ تباہ کیا جارہا ہے۔ کان کنی کے شعبے میں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

پاکستانی حکومت نے سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے مائنز مالکان کے دباﺅ کے سبب گزشتہ 27 سال سے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن 176 کی ابھی تک توثیق نہیں کی ہے۔ کیونکہ اگر حکومت اس کنونشن کی توثیق کر دیتی ہے تو پھر مائنز وکرز کو بہت سی مراعات مل جائیں گی۔

کان مالکان کو ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا پڑے گا، کان کنوں کی صحت و سلامتی کے حوالے سے انٹرنیشنل معیار اپنانے پڑیں گے، ہر کان کن کی انشورنش اور ہیلتھ انشورنس کرانی پڑے گی، کان کن سے کام شروع کرانے سے قبل میڈیکل چیک اپ کرانا لازمی ہو گا،بیماری کی صورت میں علاج ومعالجہ کے اخراجات مائنز مالک اور انشورنش کمپنی کو ادا کرنا پڑیں گے۔

پاکستان میں مائنز مالکان کی اکثریت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت سابق بیوروکریٹس کی ہے اسی وجہ سے ہمارے حکمران انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن 176 کی توثیق نہیں کرتے، ہمارے حکمرانوں کی پالیسیاں مزدور دشمنی پر مبنی ہیں۔اور ہمارے لاءڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی اکثریت کو قوانین کا علم نہیں ہے۔مائنز ورکرز اپنے سر پر کفن باند ھ کر مزدوری کیلئے کان میں اترتے ہیں اور کسی حادثے کی صورت میںان کی فیملی اذیت ناک کیفیت سے گزرتی ہے جس کے سبب وہ نفسیاتی مریض بن جاتی ہے۔

لیبر یونینز میں اکثریت ایسے لیڈروں کی ہے جو مزدوروں کے نام پر مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔لہٰذامزدوروں کو چاہیے کہ وہ لیبر یونین لیڈرکی لفاظی پر نہ جائیں بلکہ ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کریں جو باتوں کی بجائے عمل سے مخلص ہو۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس بلوچستان کی ممبر میڈم فرخندہ کا کہنا تھا کہ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کوئلے کی کانوں میں چائلڈ لیبر بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے، بچوں سے بڑوں کی نسبت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث غریب لوگ مجبوری کے تحت گھر کا چولہا جلانے کی خاطر اپنے بچوں کو کوئلے کی کان میں مزدوری کیلئے بھجواتے ہیں لیکن کان کے ٹھیکیدار بچوں سے سخت کام لیتے ہیں اگر چائلڈ لیبر سے آسان کام لیا جائے تاکہ بچے آسانی کے ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں۔ انسانی حقوق کے نظریے کے تحت انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے عہدیداروں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے قوانین میں ترامیم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

انڈسٹری آل گلوبل یونین پاکستان چیپٹر کے صدراور پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل سلطان محمد خان نے بتایا کہ کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حادثات عام طور پر بہت مشہور ہوتے ہیں لیکن جس چیز کو زیادہ اہمیت نہیں ملتی وہ ہے کان کنوں کو لاحق ہونے والی پیشہ وارانہ بیماریاں جن کی وجہ سے ان کو اس صنعت میں کام جدی چھوڑنا پڑتا ہےاور اپنی باقی زندگی انتہائی خراب صحت کے ساتھ گزارنے کے بعد جوانی میں ہی موت دیکھنی پڑتی ہے۔

کوئلے کی دھول کے سبب کان کن پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیس، خطرناک کیمیکل، شور اور ارتعاش سے کان کنوں کی صحت کو خطرات لاحق ہیں،کان کنی کے شعبے میں کام کرنے والے ورکرز کو جلد کی بیماریاںبھی لاحق ہوتی ہیں ۔یورپی یونین کی ایک تحقیق کے مطابق کان کنی سے وابستہ ورکرز میںکام کرنے کی جگہ پر ارتعاش کی وجہ سے خون کی نالیوں میں گٹھلیاں بننا اور بندش ہو جانا 37 فیصد ہے۔

ان پیشہ وارانہ بیماریوں سے بچاﺅ کے ساتھ ساتھ ان کان کنوں کیلئے اچھا معاوضہ بھی حاصل کرنا ہے۔ کول مائنز کمپنیوں کی بے حسی نے کان کنوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل سلطان محمد خان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل لیبر کنونشن 176 کان کنوں کی صحت و سلامتی کے تحفظ کا ایک اعلامیہ ہے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت اس اعلامیے کی وہی حیثیت ہے جو کسی بھی اور بین الاقوامی معاہدے کی ہو سکتی ہے جس پر کوئی بھی حکومت دستخط کرتی ہے۔چنانچہ حکومت کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ وہ انٹرنیشنل لیبر کنونشن 176 کی توثیق کرے ،جو کہ ایک قانون کی اصلاح ہے جس کے تحت حکومت یہ اقرار کرتی ہے کہ وہ اس کنونشن میں موجود باتوں پر عملدآمدکرے گی۔کول مائنز میں کام کرنے والے ورکرز کی صحت وسلامتی بہتر کرنے کیلئے یہ ایک اہم قدم ہے۔

تحقیق کے مطابق جن ممالک نے(آئی ایل او) انٹرنیشنل لیبر کنونشن کے صحت وسلامتی سے متعلق کنونشن 176 کی توثیق کی ہے ان ممالک میں کوئلے کی کانوں میں پیشہ ورانہ حادثات میں اموات کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ کانوں میں ورکرز کی صحت وسلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے کا واحد حل ایک مضبوط ٹریڈ یونین تنظیم کا ہونا ہے۔ جب کام کرنا محفوظ نہ ہو تو ٹریڈ یونین تنظیم کام کرنے کے دباﺅ کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے۔ ایک مضبوط ٹریڈ یوین تنظیم ایسی مشینوں کے استعمال پر پابندی کیلئے دباﺅ بڑھا سکتی ہے جن سے دھول اور شور پیدا ہوتا ہے۔کان کنوں کی پالیسی بنانے اور عملدرآمد میں شمولیت لازمی ہونی چاہیے۔ٹریڈ یونین سیفٹی نمائندے کام کی جگہ کو محفوظ بناتے ہیں۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کان کنوں کی صحت وسلامتی اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔انڈسٹری آل گلوبل یونین کا نعرہ ”مضبوط یونین، محفوظ کارکن “ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت (آئی ایل او) انٹرنیشنل لیبر کنونشن 176 کی فوری توثیق کرے۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل سلطان خان نے بتایا کہ انگریز سرکار نے کان کنی کے حوالے سے مائنز ایکٹ مجریہ 1923ءبنایا تھا جس پر وہ عمل درآمد بھی کرتا تھا۔ اس قانون میں کان کن کی صحت، جان کی حفاظت، اوقات کار وغیرہ سب طے شدہ ہیں لیکن اب پاکستان کے دیگر قوانین کی طرح اس قانون پر عمل درآمد بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

1923ء میں انگریز سرکار نے مائین ایکٹ بنایا تھا، اس ایکٹ کے تحت ضروری ہے کہ کوئلہ کان کے نزدیک ہر وقت ایمبولینس موجود رہے۔ اس کے علاوہ کوئلہ کان کے نزدیک ایک ڈسپنسری اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کان کنوں کیلئے پینے کا صاف پانی ہونا چاہیے، لیکن ایسا کوئی انتظام کوئلہ کانوں کے قریب نظر نہیں آتا۔ ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کان کن آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا لیکن اس سے 10 سے 12 گھنٹے تک کام کرایا جاتا ہے اور بے چارے مزدور کو اوور ٹائم کی مزدوری نہیں دی جاتی۔

کوئلہ کان کن کو ہر روز کے ایک ہزار روپے ملتے ہیں اور وہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس ملک میں کان کے مالک کی حالت بادشاہوں جیسی ہے۔ وہ محلات میں رہتا ہے لیکن کان کن مزدور کی حالت بد ترین ہے ۔کوئٹہ میں کوئلہ اٹھارویں صدی میں دریافت ہوا تھا، لیکن اس کیلئے قانون سازی 1923ءمیں کی گئی اس وقت سے اب تک ان مزدورں کے کیلئے کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی گئی۔

قانونی طور پر کسی بھی کان میں کام شروع کرنے سے پہلے زہریلی گیس کو چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان کے اندر آکسیجن کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوتا ہے جبکہ ایک کان کے اندر متبادل راستہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں کان کنوں کو نکالنے میں آسانی ہولیکن بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں ان انتظامات کو یقینی نہیں بنایا جاتا، جس کے باعث کانوں میں حادثات ایک معمول بن گئے ہیں۔

بلوچستان میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام بھی ہے۔ لوگ اپنے نام پر مائننگ کیلئے اراضی الاٹ کراتے ہیں لیکن خود اس پر کام کرنے کی بجائے ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کرتے ہیں۔ بڑے ٹھیکیدار پھر ان کو پیٹی ٹھیکیداروں کو دیتے ہیں۔ ٹھیکیدار اور پیٹی ٹھیکیدار انسانوں کو بچانے کیلئے حفاظتی انتظامات کا خیال رکھنے کے بجائے زیادہ تر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوئلہ کیسے نکالیں۔

مقامی افراد کے مطابق کوئلے کی کانیں بااثر لوگوں کی ہیں۔ حادثات کی صورت میں نہ صرف ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ ان کو سیفٹی کے لوازمات کو یقینی بنانے کا بھی پابند نہیں بنایا جاتا۔بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ آئے روز ہونے والے حادثات کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پرکسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے جاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کسی ماین میں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ٹھیکیدار اس کو چھپاتا ہے، پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن ملک کے کسی بھی حصے میں کسی حادثے کے نتیجے میں مائنز ورکرز کی اموات پر حکومت سے احتجاج کرتی ہے اور میڈیا کے ذریعے ان حادثات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جانی ومالی نقصان بارے حکومت اور عوام کو آگا ہ بھی کرتی ہے۔ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مائنز ورکرز کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔

بلوچستان کے مائنز ورکرز کی ڈیتھ گرانٹ اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے اس گرانٹ کو دوسرے صوبوں کے برابر کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سلطان خان کا کہنا تھا کہ جب تک حکمرانوں، صنعت، مائن مالکان، ٹھیکیدار سمیت ہم سب کا منشور انسانیت نہیں ہو گا ہمارا احساس زندہ نہیں رہ سکتا، انسانیت کا رشتہ سب سے عظیم اور بہترین رشتہ ہے اور ہم سب کو مل کر اس رشتہ کو مضبوط بنانے کیلئے کام کرناق چاہئے۔ جب احساس کا رشتہ مضبوط بن جائے گا تب مزدور کے حالات بھی بدل جائیں گے۔ اگر تمام لیبر یونینز کے عہدیدار اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیں تو مزدوروں کو صحت و سلامتی سمیت دیگر حقوق مل سکتے ہیں۔

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالستار نے ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں 6 ہزار کے قریب کوئلے کی کانیں موجود ہیں ۔جبکہ 1 لاکھ 50 ہزار کے قریب مائنز ورکر زان پہاڑوں کا سینہ چیر کر4 ہزار سے 6 ہزار فٹ گہرائی میں جا کرکوئلہ نکال کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

کوئلہ کی کمائی کا دس فیصد حصہ مائنز ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے، انہیں جدید آلات کی فراہمی کیلئے مختص کیا جائے ۔حکومت ، مائنز مالکان اور لیبر انسپکٹر اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائیں تو پیشہ ورانہ صحت و سلامتی سمیت مائنز ورکرز کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔

کول مائنز ورکرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر علی باش خان نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایاکہ شانگلہ کوئلے کی کانوں کے مزدوروں کی نرسری ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں 21 ہزار سے زائد کوئلے کی کانیں موجودہیں جہاں سے باقاعدگی کے ساتھ کوئلہ نکالا جا رہا ہے۔ لیکن کان کنوں کو رہائش، صحت و سلامتی کی سہولت ،ابتدائی طبی امداد، حکومت کی طرف سے اعلان کردہ تنخواہ، بچوں کیلئے تعلیمی وظائف تک نہیں ملتے۔

کان کن مائن مالک کی ناقص پالیسی اور بے حسی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا جاتاہے، اس کو ڈیتھ گرانٹ تک نہیں ملتی ،جو اس کی فیملی کا بنیادی حق ہے۔مائنز ورکرز کی دیہاڑی میں گزشتہ دس سال سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ملک بھر میں 80 فیصد مائننگ غیر قانونی ہے،ان میںہوائی کا نظام بھی درست نہیں ہے، مائن میں کام کرنے والے ورکرز کو کام کے دوران سیفٹی کے آلات فراہم نہیں کیے جاتے، مائن مالکان اپنی پروڈکشن بڑھانے پر توجہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مائن ورکرز کی صحت وسلامتی کے اصول پس پشت ڈال دیئے جاتے ہیں۔

لیبر قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا،نئی لیبر کو کان میں کام کرنے کی ٹریننگ بھی نہیں دی جاتی، بڑی تعداد میںکان کنوں کی رجسٹریشن بھی نہیں کی جاتی، ان کی رہائش کا بھی بندوبست نہیں کیا جاتا، کسی حادثے کی صورت میں کان کنوں کو ابتدائی طبی امداد تک نہیں ملتی، پورے پاکستان میں صرف چکوال میں مائنز ورکرز کیلئے ایک ہسپتال ہے۔ کسی مائن میں موبائل ایمولینس اور فرسٹ ایڈ کلینک تک موجود نہیں ہے۔خیبر پختونخوا میں 8543 معذور کوئلہ کان کن موجود ہیں جن کا کائی پرسان حال نہیں ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی مائننگ اورلیبر قوانین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کے نتیجے میںزیادہ اموات ہوتی ہیں۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے ایجوکیشن سیکرٹری عبدالحلیم خان نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ (آئی ایل او) انٹرنیشنل لیبر کنونشن 176 پر ابھی تک 39 ممالک نے دستخط کیے ہیں جن ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کی ہے وہاں پر ورکرز کو ان کے بنیادی حقوق مل رہے ہیں اور ان ممالک میں کام کی جگہ پر پیشہ ورانہ حادثات میں اموات کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں لہٰذا تمام ٹریڈ یونیز لیڈروں اور کارکنوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی حکومت پر دباﺅ بڑھائیں کہ وہ آئی ایل او کنونشن کے صحت وسلامتی سے متعلق کنونشن 176 کی توثیق کریں۔

مختلف جگہوں پر کام کرنے والے ورکرز کی پیشہ وارانہ صحت وسلامتی کے اصول مختلف ہوتے ہیں، پاکستان میں ورکرز کی ڈیسنٹ جاب ایک خواب ہے ،آئی ایل او ،انڈسٹری آل گلوبل یونین، آل پاکستان لیبر فیڈریشن اور پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کی خواہش ہے کہ پاکستان میں کول مائن ورکرز سمیت دیگر اداروں میں کام کرنے والے ورکرز کو تمام حقوق حاصل ہوں جو اُن کا بنیادی حق ہے۔

عبد الحلیم خان نے بتایا کہ کوئلے کی کان میں پانچ اقسام کی گیس پائی جاتی ہے ،کئی کانیں چار ہزار سے چھے ہزار فٹ گہری ہیں ۔ قانون کے مطابق کان کے اندر جانے والا راستہ 6فٹ چوڑا جبکہ7فٹ اُونچا ہونا چاہیے لیکن لاقانونیت اور پیسہ بچانے کی وجہ سے نیچے جاتے جاتے یہ راستہ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں قانون پر عمل درآمد ہوتا تھا اور قانون کے مطابق ایک متبادل راستہ بھی بنایا جاتا تھا جسے 'ہوائی' کہتے تھے۔

اس راستے سے نہ صرف آکسیجن اندر آتی تھی بلکہ یہ راستہ کسی ایمرجنسی صورت حال میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔لیکن اب قانون کہیں طاق پر دھرا ہے اور خرچ بچانے کیلئے یہ متبادل انتظام ختم کردیا گیا ہے۔ اگر کان میں بھی متبادل راستہ موجود ہوتو حادثے کی صورت میںغریب کان کن بچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کانوں کی چھت اور ڈھانچے کو سہارا دینے کیلئے پہلے کیکر کی مضبوط لکڑی استعمال کی جاتی تھی لیکن اب پیسے بچانے کیلئے سفیدے کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جو ہلکا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتی اور پوری کان منہدم ہوجاتی ہے۔

کوئلے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث ہر سال اوسطاً 200 سے 300 کان کن جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں انگریز سرکار کا بنایا ہوا مائن ایکٹ 1923ء موجود ہے اس میں جو قوانین ہیں ان پر عملدرآمد نہیںہو رہا۔ مائن انسپکٹرز کا کردار بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات مائنز ورکر ز بھی مائن کے اندر سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور چائے بنانے کیلئے گیس سلنڈر ساتھ اندر لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی حادثات ہوتے ہیں لہٰذاحادثات سے بچنے کیلئے مائنز ورکرز کو بھی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔مائنز ورکرز کو مائن میں کام کرنے کے طریقا کار بارے آگاہ کرنا بہت ہی ضروری ہے۔

سی بی اے یونین سورینج کے نمائندے محمد ایوب نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئلے کی قانوں میں بڑھتے ہوئے حادثات کی بنیادی وجہ غیر قانونی مائننگ ہے ،غیر قانونی مائننگ میں نہ تو کان کنوں کی رجسٹریشن ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں ٹھیکیدار کی جانب سے کام کے دوران سیفٹی کے آلات ملتے ہیں، ہوائی کا راستہ بھی نہیں ہوتا اگر کسی کان میں ہوائی کا راستہ موجود ہو تا بھی ہے تو مناسب دیکھ بال نہ ہونے کے سبب وہ راستہ خراب ہو جاتا ہے اور پھرکسی حادثے کی صورت میں کان کن اس راست سے کان سے باہر نہیں نکل پاتے۔

انٹرنیشنل معیار کے مطابق ہوائی کا راستہ 6فٹ چوڑا ،اور 7 فٹ اُونچا ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں بہت ہی کم کانوں میں اس معیار پر عمل ہوتا ہے۔ پھر اکثر مائنز میں انجینئرنگ اسٹریکچر کے بغیر کام کیا جاتا ہے ایسی مائنز کو ہی غیر قانونی مائن کہتے ہیں ۔جو مائن قانون کے مطابق کام کرتی ہے اس میں حادثات کی تعداد بہت ہی کم ہے جبکہ زیادہ تر حادثات غیر قانونی مائنز میں ہی ہوتے ہیں جو زیادہ اموات کا سبب بنتے ہیں۔

کوئلے کی کانوں میں انٹرنیشنل معیار کی 8 بائے 5 ایم ایم کی اسٹیل کی تار کوئلے کی ٹرالی کو کان سے باہر کھینچنے کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ٹھیکیدار انٹرنیشنل معیار کی رسیاں استعما ل نہیں کرتے بلکہ پرانی اور ناقص رسیاں استعمال کرتے ہیں جب زیادہ وزنی ٹرالی کو کھینچا جاتا ہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے جس وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔

ایگریکلچر ایمپلائز یونین بلوچستان کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مائنز ورکر ز کی صحت و سلامتی کے حوالے سے اقدامات کئے جانے چائیں ،حکومت ، محکمہ معدنیات ، مائن مالکان اور مائنز ورکر زکے حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں کو متحد ہو کر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے۔

کان کنی کے شعبے سے ٹھیکیداری نظام فوری طور پر ختم کیا جائے ،مائینز ورکرز کیلئے ہسپتال بنائیں جائیں،بچوں کیلئے سکول بنائیں جائیں ،بچیوں کی شادی کیلئے جہیز فنڈ میں اضافہ کیا جائے، ڈیتھ گرانٹ میں اضافہ کیا جائے اورمائن میں کسی حادثے کی صورت میں انتقال کرنے والے مائن ورکر کی فیملی کو دس لاکھ روپے دیئے جائیں۔

ایس اے لطیف اینڈ کمپنی مچھ کی لیبر یونین کے نمائندے نصیر شہزاد نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ (آئی ایل او) انٹرنیشنل لیبر کنونشن 176 کا دائرہ اختیار تمام کانوں پر ہے اور ہر قسم کی کان کنی پر ہے۔ اس میں زیر زمین اور زمین کے اُوپر کام کرنے والے تمام ورکرز شامل ہیں ۔ صحت وسلامتی کو کانوں کی ڈائزننگ، چلانے اور برقرار رکھنے میں ضرور ترجیح دی جانی چاہئے۔

نصیر شہزاد کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں وینٹیلیشن کا مناسب انتظام نہیں اور اگر یہ انتظام ہو تو حادثات کو روکا جا سکتا ہے، اگر وینٹی لیشن کا مناسب انتظام ہو تو گیسوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جو حادثات ہوتے ہیں انھیں روکا جا سکتا ہے۔ کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام نہیں۔ اگر گیسوں کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام ہو تو ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو کلیئر کرنے کے بعد کان کنوں کو بھیجا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی کانوں میں ان کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر کان کے اندر 15 سے 20 فیصد گیس ہو تو اس سے ایک بہت بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے۔ یہ دھماکہ آپ کے تصور سے بھی بڑا ہو سکتا ہے یعنی اس سے پوری کان بھی بیٹھ سکتی ہے۔ کوئلے کی کانیں ہزاروں فٹ گہری ہیں۔

اگر ان میں کوئی دھماکہ ہو جائے تو ہزاروں فٹ نیچے کان کنوں کے بچنے کے مواقع کم ہوتے ہیں، مائنز میں کام کرنے والوں کیلئے صحت اور سلامتی کیلئے جو مجموعی پروٹوکول ہیں ان کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔کان کنی پوری دنیا میں ایک خطرناک کام ہے۔ ان خطرات کو حفاظتی انتظامات کو یقینی بنا کر کم کیا جا سکتا ہے۔

اس تناظر میں ہر مائنز انسپکٹر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائے لیکن ملک بھرکی ہزاروں کوئلہ کانوں کیلئے ان انسپکٹروں کی تعداد بہت کم ہے۔ ملک بھر کی کانوں سے کروڑوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے لیکن کارکنوں کے مسائل اور مشکلات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ یہ حکومت اور کان مالکان دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو بہتر بنائیں اور کان کنوں کی سہولیات کو بہتر بنائیں۔

سی بی اے یونین دیگاری کے نمائندے سفر خان نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غیر قانونی مائننگ بہت زیادی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے حادثات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کوئلے کی کانوں میں حادثات کی روک تھام کیلئے حکومت، کول مائنز مالکان، ٹھیکیدار، لیبر انسپکٹر اور مختلف لیبر ٹریڈ یونینز کو اپنا کرداد ادا کرنا ہوگا۔ جبکہ غیر قانونی مائننگ اور کان کنی کے شعبے سے ٹھیکیداری نظام کو فوری طور پر ختم کرنا ہو۔

نوٹ:

محمد قیصر چوہان سینئر صحافی، مصنف اور قومی و بین الاقوامی امور، اسپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے