وہ کہتی ہیں کہ ’انھی زخمی پیروں کے ساتھ میں نے دیگر افراد کے ہمراہ جدید انسانی تاریخ کی طویل ترین لانگ مارچ یہ سوچ کر کی کہ شاید ہماری تکالیف کو دیکھ کر انھیں ترس آ جائے اور وہ میرے والد سمیت دیگر لاپتہ افراد کو منظر عام پر لے آئیں۔ مگر انھیں ترس نہیں آیا۔‘
سمی بلوچ 13 سال کی عمر سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ان کے والد کو ریاستی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے لیکن محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت کے ماتحت سکیورٹی کے اداروں کے حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
سمی کا کہنا ہے کہ ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 11 سال پہلے جبری طور لاپتہ کیا گیا جس کے بعد سے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہے۔
سمی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ اور شورش زدہ ضلع آواران سے ہے اور وہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بڑی بیٹی ہیں۔ اس وقت بی ایس میڈیا اینڈ جنرلزم کی دوسرے سال کی طالبہ ہے۔