تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیسرا حصہ)

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 3
  • واضح رہے
  • فروری 24, 2021
  • 3:16 صبح

مذہبی رحجان رکھنے والے اورنگزیب عالمگیر نے ہندوؤں کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے انہیں نہ صرف آزادی دی بلکہ منادر کیلئے جاگیریں بھی وقف کیں

متھرا میں آئے دن کی بغاوتوں اور مغل افسران کے مسلسل قتل یہاں معمول بن گئے تھے۔ ان شورشوں اور مفسدوں کا یہ ایک گڑھ تھا۔ اکثر و بیشتر جاٹ مغل حکومت کے خلاف شورش برپا کر دیتے تھے اور اس طرح پورے علاقے میں انتشار پھیلاتے تھے۔ شاہ جہاں کی حکومت کے آٹھویں سال جب مرشد قلی کو متھرا کا فوج دار مقرر کیا گیا تو جاٹوں نے موقع پا کر اسے قتل کر دیا۔ مرشد قلی کے بعد علی وردی خاں کو بھیجا گیا، جس نے ان شورشوں کو سختی سے کچل دیا اور کچھ عرصے کے لیے یہ بغاوت دب گئی۔

لیکن 1669ء میں اورنگزیب کے عہد میں پھر شورش بپا ہوئی اور عبدالغنی فوجدار متھرا کو قتل کر دیا گیا اور یہ بغاوت خطرناک صورت اختیار کرگئی، چنانچہ اس بغاوت کو اسی برس فوجدار حسن علی خاں نے ایک خونریز جنگ کے بعد فرو کیا اور جاٹوں کے سردار کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی اس مندر کیشو رائے کو ڈھا دیا گیا۔ مندر کی تباہی محض اس وجہ کی بناء پر عمل میں آئی کہ مقامی زمیندار اس مندر میں بیٹھ کر بغاوت کی اسکیمیں بناتے تھے اور یہ عبادت گاہ کے بدلے شورش پرستوں کا ایک اڈا بن گیا تھا۔ اس مندر کی تباہی اور گوکلا کے قتل کے بعد متھرا میں ایک لمبے عرصے تک امن وسکون رہا۔

بنارس اور سامناتھ کے مندروں کو گرانے کی بھی یہی وجوہات تھیں۔ بنارس میں کوئی مسجد، کرنی باسیس وتی مندر کو گرا کر اس کی بنیادوں پر نہیں بنائی گئی۔ کیونکہ مندر مذکورہ 1669ء میں گرایا گیا تھا اور بنارس کی عالمگیر مسجد کی تعمیر 1667ء میں ہوئی تھی، یعنیٰ اس کے انہدام سے دو سال پہلے ہو چکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

اسی طرح بینی مادھو کے مندر کو گرا کر اس کی جگہ مسجد کی تعمیر ہونا بھی تاریخ نویسوں کی قیاس آرائی ہی ہے۔ ظہیر الدین فاروقی کی انفرادی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ مسجد شاه جہاں کے عہد میں 1648ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ بعد میں انہی بنیادوں پر عالمگیر کے دور حکومت کے دوسرے سال ایک دوسری عمارت کھڑی کر دی گئی۔ اس امر کی تصدیق مسجد میں لگی ہوئی اس دور سنگ مرمر کی سختی سے بھی ہوتی ہے۔

ان شورشوں اور بغاوت کے گڑھ ان مندروں کی تباہی کی وجہ سے کئی تاریخ نویسوں نے عالمگیر پر تعصب ہونے کا الزام لگایا ہے۔ یہ تاریخ نویس عالمگیر کے عہد کے ایک رُخ کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن دوسرا رخ یہ کہ اس نے منادر کے لیے جاگیریں وقف کردیں اور ہندوؤں کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے ان کی مالی طور سے ہر طرح کی مدد کی اور فرمانوں کی صورت میں ملک کے مختلف علاقوں میں ان فرمانوں کو بھیجا۔

یہ مختلف فرمان آج بھی موجود ہیں اور عالمگیر کی غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کے بہترین مظہر ہیں۔ یہاں اسی قسم کے ایک فرمان کا حوالہ دیا جارہا ہے جو 28 فروری 1659ء کو جاری کیا گیا اور منادر کی تباہی سے بہت پہلے کا ہے۔ اس فرمان کے اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں۔

‘‘ہماری تمام تر کوششیں عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے ہیں تاکہ مختلف طبقوں کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے خواہ ان میں امیر ہوں یا غریب۔ اس لیے مقدس قوانین کی رو سے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مندروں کو منہدم نہ کیا جائے اور نئے منادر تعمیر نہ کیے جائیں...... اس لیے ہمارے اس عظیم المرتبت فرمان پہنچنے کے بعد تمہارے لیے (یہ فرمان ابوالحسن کو بھیجا گیا تھا) یہ ضروری ہے کہ تم اعلان کر دو کہ آئندہ کوئی شخص غیر قانونی طریقوں پر برہمنوں اور دیگر ہندووں کو ان علاقوں میں تنگ نہ کرے تاکہ وہ اپنے دھندوں میں لگے رہیں اور امن و سکون کے ساتھ اس خدائی واحد کی عطا کی ہوئی سلطنت کے لیے دعا کرتے رہیں۔ اس امر کا آئندہ خاص طور سے خیال رکھا جائے۔’’

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پہلا حصہ)

یہ فرمان شہزادہ محمد سلطان سے صلح مشورہ کر کے ابوالحسن فوجدار کو بھیجا گیا تھا۔ جنن چندرا اس فرمان کے سلسلے میں تحریر کرتا ہے کہ ‘‘بنارس کا یہ فرمان اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ اس فکر میں تھا کہ اس کی ہندو رعایا بھی امن و آشتی کے ساتھ رہ سکے۔’’

اسی تاریخ نویس نے اس سلسلے میں جو تحقیق کی ہے کہ ایسے فرمانوں کا پتہ چل سکے جو اورنگزیب نے ہندوؤں کے متعلق وقتاً فوقتاً جاری کیے تا کہ ہندوؤں کی ان عظیم عمارات کو تباہی سے بچایا جا سکے چنانچہ جنن چندرا اس کوشش میں کامیاب بھی ہوگیا۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ نویس عام طور سے جنتا مان مندر کی تباہی کے متعلق تحریر کرتے ہیں جو احمد آباد کے ناگر سیٹھ نے تعمیر کرایا تھا، لیکن وہ اس حقیقت سے گونگے بن جاتے ہیں کہ اسی اورنگزیب نے شانتدنجایا اور آبو مندر کے لیے اسی ناگر سیٹھ کی زمینیں دی تھیں۔

درج بالا وہ فرمان ہیں جو عالمگیر نے ہندوؤں کے منادر کو جاگیریں اور زمین بخشتے وقت جاری کیے اور ان میں وہ اسناد بھی شامل ہیں جو آبو مندر اور جوگنار بندر کے متعلق ہیں۔ ان دستاویزات کے مطالعے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالمگیری عہد میں ہندو اس سے زیادہ آزادی کے قابل بھی نہ تھے۔

عالمگیری عہد میں ہندوؤں اور مندروں کے حوالے سے بیان کی گئی ان باتوں کے بعد یہ سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ ہندوؤں کی بہبود اور منادر کیلئے جاگیریں دینے کے باوجود عالمگیر کو اس قدر تنقید کا نشانہ کیوں بنایا گیا اور اور اس کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی گئی۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جن سرکشوں کو اورنگزیب نے اپنے دور حکومت میں روند کر رکھ دیا تھا وہ ہندو تھے۔ خواہ وہ ست نامیوں کے روپ میں تھے یا جاٹوں، مرہٹوں اور راجپوتوں کی صورت میں تھے، بہرحال ہندو تھے۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے