تازہ ترین

نظیر اکبر آبادی کی نظم۔۔۔۔۔ کل نفس ذائقۃ الموت

akbar abadi ki nazm kul nafs zaiqatul maut
  • واضح رہے
  • جون 8, 2022
  • 3:59 شام

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: ’’ کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ (آل عمران: 185)۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جتنی بھی مخلوق کو پیدا ہے اس نے ایک نہ ایک دن فنا ہونا ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے انسانوں کو بھی تاحیات زندہ رہنے کیلئے نہیں بنایا۔ یہ حقیقت خواہ یہودی ہوں یا عیسائی یا بدھ مت کے پیروکار سبھی جانتے ہیں کہ انہوں نے مرنا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین پر اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ ہم اس کے احکامات کی پیروی کریں اور نیکی کے کام کریں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد جگہ دنیاوی زندگی کو عارضی بتایا اور آخرت کی زندگی کی حقیقی بیان کرتے ہوئے اس کی تیاری کرنے کی تلقین فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں واضح فرمایا ’’وما الحیواۃ الدنیا الا لعب ولھو وللدار الاخرۃ خیرللزین یتقون افلا تعقلون‘‘۔ ترجمہ: دنیا کی زندگی کو تو ایک کھیل اور تماشہ ہے اور حقیقت میں آخرت کا ہی مقام ان لوگوں کیلئے بہتر ہے، جو لوگ پرہیزگار ہیں، کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے۔

موت کی حقیقت کو برصغیر کے بلند پایہ شاعر نظیر اکبر آباد نے اپنی نظم ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ میں بڑے دلکش انداز میں بیان کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہر انسان کو موت کا سامنا کرنا ہے۔ اس دار فانی میں لوگ مختلف طریقے سے زندگی گزارتے ہیں۔ کوئی دل بہلا کر زندگی گزارتا ہے اور کوئی پچھتاوے اور مایوسی کے سہارے زندگی بسر کرتا ہے۔ غرض سب اپنی عمر گزار کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں اور اس ناپائیدار جگہ کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

نظیر اکبر آبادی لکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف موت کا شور و غل سنائی دیتا ہے۔ کہیں گولی اور بندوق سے لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ جس کی طرف بھی موت قدم پڑھاتی ہے وہاں کوئی وقت اور مہلت کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اس میدان جنگ سے کسی کے بھی بھاگنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔

اپنی نظم میں وہ لکھتے ہیں موت یہ نہیں دیکھتی کہ کوئی انسان پاک حالت میں ہے یا ناپاک اور بے وضو، وہ ہر حال میں آکر ہی رہتی ہے۔ البتہ جو لوگ متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں وہ اطمینان قلب کے ساتھ  اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اور گناہ گار بے سکونی کے ساتھ ہی دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ نیز ہر انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی نظم کے چنیدہ اشعار پیش خدمت ہیں:

دنیا میں اپنا جی کوئی بہلا کے مر گیا

دل تنگیوں سے اور کوئی اُکتا کے مر گیا

عاقل تھا وہ، تو آپ کو سمجھا کے مر گیا

بے عقل چھاتی پیٹ کے گھبرا کے مر گیا

دُکھ پا کے مر گیا، کوئی سکھ پاکے مر گیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آ کے مر گیا

 

دن رات دُن مچی ہے یہاں اور پڑی ہے جنگ

چلتی ہیں نت اجل کی سناں، گولی اور تفنگ

جس کا قدم بڑھا وہ مواد ہیں بے درنگ

جو جی چھپا کے بھاگا تو اس کا ہوا یہ رنگ

وہ بھاگتے میں تیغ و تیر کھا کے مر گیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آ کے مر گیا

 

پڑھ کر نماز کوئی رہا پاک با وضو

کوئی شراب پی کے پھرا مست کو بہ کو

ناپاکی، پاکی موت کے ٹھہری نہ روبرو

کوئی عبادتوں سے موا ہو کے سرخرو

ناپاک رو سیاہ بھی پچتا کے مر گیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آ کے مر گیا

 

پہنا کسی نے خوب لباس عطر کا پھرا

یا چیتھڑوں کی گدڑی کوئی اوڑھ کر پھرا

آخر کو جب اجل کی چلی آن کر ہوا

پولے کے جھونپڑے کو کوئی چھوڑ کر چلا

باغ و مکاں محل کوئی بنوا کے مر گیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آ کے مر گیا

 

عاشق ہو کر کسی نے کسی گل کی چاہ کی

عاشق نے اپنے عشق بڑھانے میں جان دی

اور جب اجل کی دونوں سے آکر لگن لگی

معشوقی کام آئی کسی کی نہ عاشقی

دلبر بھی اپنے حسن کو چمکا کے مر گیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آ کے مر گیا

اس نظم سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہمہ وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیئے، کیونکہ یہ وہ گاہک ہے جس کے آنے کا وقت مقرر نہیں۔ اس لئے جو لوگ امارت و غربت میں، عیش و آرام میں، گویا ہر حالت میں موت کیلئے تیار رہتے ہیں انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ انہیں موت کا پورا یقین ہوتا ہے۔ موت کی تیاری کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ انسان اپنے جسم و روح کو اور دل و نیت کو دنیاوی آلائشوں سے پاک و صاف رکھے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے