تازہ ترین

آئی ایم ایف سے معاہدہ۔ حکومت اپنی شرائط منوانے میں ناکام

آئی ایم ایف سے معاہدہ۔ حکومت اپنی شرائط منوانے میں ناکام
  • واضح رہے
  • مئی 11, 2019
  • 1:29 شام

بجلی اور گیس مہنگی کرنے کے ساتھ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول نہیں کیا جائے گا۔ شرح سود 1.25 فیصد بڑھانے کے علاوہ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ متوقع ہے۔

پی ٹی آئی حکومت 9 ماہ تک عالمی مالیاتی ادارے سے اپنی شرائط پر قرض لینے کا دعویٰ کرتی رہی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان دو ہفتے سے جاری مذاکرات میں تاحال معاملات طے نہیں ہوئے ہیں، حالانکہ حکومت آئی ایم ایف کی بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی شرط پہلے ہی مان چکی ہے۔

آئی ایم ایف کے 21ویں بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے وزیر اعظم سے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ملاقات کی اور عالمی مالیاتی ادارے سے حتمی معاہدے پر بریفنگ دی۔ ملاقات میں وزیراعظم کو آئی ایم ایف کی شرائط سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔ تاہم عمران خان نے کہا کہ ٹیکسوں کے معاملے میں آئی ایم ایف سے رعایت لی جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں۔ بجلی، گیس کی مد میں 3 برس کے دوران صارفین پر 340 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ جبکہ پاکستان کو 6 ارب 40 کروڑ ڈالر کا قرض ملنے کی توقع ہے، جس کی میعاد 3 برس ہوگی۔

آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے حکام کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم بات چیت آئندہ دو روز تک جاری رہے گی۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکسز سے متعلق شرائط نرم کرنے پر تیار نہیں اور عالمی مالیاتی ادارہ ایف بی آر کا ٹارگٹ 5200 ارب روپے سے زائد مقرر کرنا چاہتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارے کو 4.5 فیصد تک محدود کیا جائے گا، ایف بی آر کا ریونیو ٹارگٹ 5300 ارب روپے تک مقرر کیا جائے گا اور شرح سود 12 فیصد تک لانے کے علاوہ اگلے بجٹ میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے۔

ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق حکومت ڈالر کی قیمت کو کنٹرول نہیں کرے گی اور تنخواہ پر ٹیکس کی شرح کو جون 2018 کی شرح سے لاگو کیا جائے گا۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا پلان آئی ایم ایف کو دیا جائے گا اور توانائی سمیت متعدد شعبوں میں سبسڈی ختم کی جائے گی۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکج سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا اور روپے کی قدر مزید کم ہوگی۔ ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھے گا،غربت اور بے روزگاری بڑھے گی، تمام طرح کی سبسڈیز ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی اور یہ سب پاکستانی عوام کیلئے بہت تکلیف دہ ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قرض سے پاکستان میں کسی طرح کا معاشی استحکام نہیں آئے گا، کیونکہ یہ شرح نمو کو مزید گرا دے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے دو سے تین برس تک ہمیں اپنے جی ڈی پی کی شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد رکھنا ہو گی۔ جس ملک میں 15 لاکھ نوجوان ہر برس روزگار کی تلاش میں مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں اس ملک میں شرح نمو کم از کم سات سے آٹھ فیصد ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے اسٹیٹ بینک میں ہونے والی گورنر کی تقرری کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے پاکستان کو ایک پروگرام دے دینا ہے جو کسی صورت ملک کیلئے بہتر نہیں ہو گا۔

ادھر ایمرجنگ اکنامکس ریسرچ نامی ادارے کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف سے قریب ویسا ہی پیکیج ملے گا، جیسا 2008 میں ملا تھا۔

11 برس قبل پاکستان کو 7.6 ارب ڈالر 5 برس کیلئے قرض دئیے گئے تھے۔ تاہم بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی نئی ڈیل میں کئی طرح کی سخت شرائط ہیں، جن میں روپے کی قدر میں تیس فیصد کمی شامل تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ان مذاکرات سے قبل ہی روپے کی قدر میں کمی کر کے اس شرط کو پورا کیا جا چکا ہے، جبکہ اسی تناظر میں ملک میں افراط زر گزشتہ پانچ برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے