تازہ ترین

عافیہ صدیقی اور یاسین ملک کا جرم کیا؟ لا الہ الا اللہ

aafia siddiqui aur yasin malik
  • واضح رہے
  • مئی 25, 2022
  • 11:57 شام

ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ دونوں بے ضرر و بے گناہ ہیں، لیکن پھر بھی جیل کی کال کوٹھری ان کا مقدر ہے۔ پاکستانی خاتون 86 سال قید کی ناحق سزا کاٹ رہی ہیں اور کشمیری حریت رہنما کو آج تمام عمر کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے

بھارتی سفاکیت کا بدترین نشانہ بننے والے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک نے شاید ہی کسی دن جیل نہ دیکھی ہو۔ زندگی میں ایک ہزار سے زائد بار جیل گئے۔ حالانکہ کبھی ایک گولی تک نہ چلائی۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کیلئے آزادی کی جدوجہد کرتے رہے۔

غاصب بھارتی حکومت نے حسب روایت دہشت گردی کے ایک جھوٹے مقدمہ میں کٹھ پتلی عدالت سے مجرم قرار دلوا کر عمر قید کی من پسند سزا سنوا دی، جس سے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے باضمیر مسلمان انتہائی غم و غصہ میں مبتلا ہیں۔

پاکستانی حکومت نے یاسمین ملک کو سزا کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا کہ بھارت ایسی مکروہ سازشوں سے کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی جانب سے عالمی برادری اور انصاف کے عالمی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ یاسین ملک کو دی جانے والی ظالمانہ سزا کا نوٹس لیا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں حالیہ  چند برسوں میں شدت پکڑنے والی ریاستی دہشت گردی ختم کرائی جائے۔

یاسین ملک کی شادی کو گیارہ سال ہو گیے ہیں۔ ان گیارہ سالوں میں صرف ساٹھ دن وہ اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ رہے۔ باقی عرصہ جیل اور کشمیر کی آزادی کے لیے وقف کیا۔ گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ مشال ملک نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رو رو کر پاکستانی حکمرانوں کے ضمیر کو جگایا، مگر وہ بھی مذمتی بیانات سے آگے نہ بڑھ سکے اور بالآخر بھارت نے یاسین ملک کو انصاف کے تمام مروجہ تقاضے پاش پاش کرکے ہمیشہ کیلئے پابند سلاسل کردیا۔

1966ء میں سرینگر کے مضافاتی علاقے میسومہ میں پیدا ہونے والے یاسین ملک ابتدائی طور پر جموں کشمیر میں برسر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک طلبہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ 1999ء اور پھر 2002ء میں بھی انہیں گرفتار کیا گیا، جس دوران میں تقریباً ایک سال تک وہ جیل میں رہے۔

اس کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ ان کی پارٹی نے 2007ء میں 'سفر آزادی' کے نام سے لوگوں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔

تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ہیرو یاسین ملک کو بھارتی حکومت کی جانب سے بے بنیاد دہشت گردی کے الزامات میں فروری 2019ء میں گرفتار کیا گیا تھا، تین سال قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد ان پر ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔ اس عرصے تک وہ نئی دلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل تھے۔ 56 سالہ یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی کیلئے قربان کردی۔

پاکستان خطے میں وہ واحد ملک ہے، جو کشمیریوں کیلئے عالمی فورمز پر آواز بلند کرتا رہتا ہے۔ یاسین ملک کے معاملے میں بھی پاکستان نے شدید مذمت کی ہے اور اسے نظام عدل کیلئے سیاہ دن قرار دیا ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی بیٹی عافیہ صدیقی امریکہ کی جیل میں نا کردہ جرم کی سزا بھگت رہی ہیں۔ تقریباً 18 برس گزرنے کے باوجود عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوئی نوید سنائی نہیں دیتی۔

واضح رہے کہ قوم کی ہونہار بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں سابق آمر مشرف اور امریکہ کی دہشت گردی کی شکار ہوئی۔ 30 مارچ 2003ء کو قوم کی مظلوم بیٹی کراچی سے اغوا کی گئی، مگر امریکیوں نے ان کی گرفتاری 27 جولائی 2008ء کو افغانستان سے ظاہر کی۔

کراچی کے اغواء سے لے کر افغانستان میں منظرعام پر آنے تک قوم کی اس بیٹی کے متعلق ایسی دل دوز کہانیاں سرگوشیوں میں موجود رہی ہیں کہ انسانیت کا جھکا سر کبھی اُٹھ نہ سکے گا۔ پاکستان کے”کچھ عناصر“ پر الزام ہیں کہ وہ قوم کی اس بیٹی کے اغوا سے ڈالر سمیٹنے کے ناقابل معافی جرم میں ملوث ہیں۔ امریکہ افغانستان سے چلا گیا۔

امریکہ  کو پاکستان نے افغانستان سے محفوظ انخلا کا راستہ مہیا کیا، مگر گزشتہ اٹھارہ برس سے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کسی نے آواز نہیں اُٹھائی۔ پاکستان کے تمام حکمران برسر اقتدار آنے سے پہلے اس مقدمے کے پرزور وکیل رہے۔ مگر اُنہوں نے دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی پراسرار خاموشی اختیار کرلی۔

حال ہی میں اطلاع آئی تھی کہ امریکی ریاست ٹیکساس کی جیل میں قید ڈاکٹڑ عافیہ صدیقی پر حملہ ہوا ہے۔ مگر پاکستان میں کسی بھی سطح پر کوئی ہلچل نہ ہوئی۔ کراچی اغوا سے بگرام اور پھر ٹیکساس کی جیل تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے گئے اُسے سن کر سینہ انگاروں کی طرح دہکنے لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ عافیہ صدیقی اور یاسین ملک کا جرم کیا ہے۔ کیا ان کا جرم مسلمان ہونا ہے، پاکستانی ہونا ہے یا کشمیری۔ یا پھر اصل مجرم عالم اسلام کے بے حس اور مفاد پرست حکمران ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے